مالیگاﺅں شہر میں مرزا اسداللہ خاں غالب کی آمد و قیام کی تاریخی تفصیلات
Malegaon me Mirza Ghalib ki Aamad
مرزا غالب کے 224 ویں یومِ ولادت پر خصوصی تحریر
مالیگاﺅں شہر میں مرزا اسداللہ خاں غالب کی آمد و قیام کی تاریخی تفصیلات
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)
پروفیسر صغیرافراہیم (سابق صدر شعبہ اُردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) صرف ناقد ومحقق ہی نہیں بلکہ ایک نامور افسانہ نگار بھی ہیں ۔ متعدد کتابوں کے مصنف ، مولف اور مرتب ہیں۔ درجنوں طلبہ وطالبات نے آپ کی زیر نگرانی تحقیق کے مراحل مکمل کیے ہیں۔ کرونا جیسے عالمی نا گفتہ بہ حالات میں بھی قلم ِ افراہیم میدانِ تحقیق کی بھول بھلیوں میں بعض نامعلوم حقائق کی تلاش میں سرگرداں تھا اور سال 2021ء کے ختم ہونے سے دو تین ماہ قبل ان کا ایک تحقیقی کارنامہ بنام ”غالب ، باندہ اور دیوان محمد علی “ کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگیا۔ اس تنقیدی و تحقیقی کتاب نے غالبیات کے باب میں نت نئے ایسے حقائق و قرائن کا اضافہ کیا ہے جن سے ادبی دنیا تاہنوز ناواقف تھی۔
اس کتاب میں غالب کو تاحیات پنشن کا جو مسئلہ در پیش رہا ، اس کے متعلق تاریخی رُجحانات کو پیش کیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کے سد باب کے لیے غالب نے متعدد شہروں کا سفر کیا ہے خاص کر کلکتہ ، مرشد آباد، پارس ، الٰہ آباد، باند ہ، آگرہ ، بھوپال ، حیدرآباد ، بدایوں ، رامپور ، الور ، راجستھان اور ہریانہ وغیرہ ۔ اِن اسفار نے غالب کے فکر وفن میں روشنی اور جلا بخشی۔ ان اسفار میں کلیدی کردار سفرِ کلکتہ نے ادا کیا ہے ،اگر یہ سفر درپیش نہ ہوتا تو ان میں سے بہت سے شہروں میں غالب کو جانے کا اتفاق نہیں ہوتا ۔
غالب لکھنو سے21 جون 1827ءکو باندہ کے لیے کانپور روانہ ہوئے۔ غالب نے کلکتہ جانے کے لیے آسان راہ اختیار کرنے کی بجائے باندہ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے ان تاریخی حقائق کو پیش کیا ہے جن کی بنیاد پر مرزا اسداللہ خاں غالب نے کلکتہ شہر کا سفر کیا تھا۔ یہ سفر سیاحت کے شوق میں نہیں بلکہ مجبوراً اختیار کیا گیا تھا جس کے مثبت نتائج کا غالب کو تاحیات انتظار تھا۔ قصدِ سفر کی بنیادی وجہ خاندانی پنشن میں غیر کی شمولیت کو ختم کرانا تھا۔ غالب کے خاندان کے لیے مئی 1806ء میں لارڈ لیک نے دس ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا تھا مگر اس پنشن میں غالب کو صرف ساڑھے سات روپے کا حصہ ملتا تھا، اسی پنشن کی بحالی کے لیے غالب نے یہ سفر کیا تھا ۔ اس سفر نے غالب کے فکر و فن کو نکھارنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے اس سفر کے مختلف اسباب و علل اور غالب کی زندگی میں بننے والے رشتوں کے تانے بانے اور اُن سے جنم لینے والی پنشن کی بحالی کی اُمید و یاس کو بڑی حسن و خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس باب سے جہاں غالب کی زندگی کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہیں وہی اس بات کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ غالب اخلاقی اعتبار سے بھی ایک بہترین انسان تھے، غالب نے پہلے خاندانی افراد سے ملاقات کر کے اس قضیہ کے تشفیہ کی کوششیں کی تھیں مگر اپنوں کے متعصبانہ برتاﺅ سے مایوس ہو کر انگریز دربار سے درخواست گزار ہونے کے لیے باقاعدہ اپریل 1827ء میں دارالحکومت کلکتہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ 20 فروری 1828ء کو کلکتہ پہنچتے ہیں۔22 فروری کو دیوان محمد علی ( صد رامین باندہ ) کے سفارشی خط کے ساتھ ہگلی کے نواب سید ا کبرعلی خاں طباطبائی کے گھر پہنچتے ہیں۔ 28 اپریل کو انھوں نے گورنر جنرل کے نام ایک مفصل عرضداشت پیش کی۔ جون میں مدرسہ عالیہ کے مشاعروں میں شریک ہوئے۔ مختلف انگریز افسران سے ملنے کی جدوجہد کی۔ ان کی مدح میں اشعار کہے۔ تھک ہار کر نومبر 1829ء میں دہلی واپس آ گئے۔ ان مہین ، نفیس اور دقیق احوال و کوائف کو پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنے منفرد اور اچھوتے انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری کو گنجلک اور بوجھل پن کا احساس تک نہیں ہوتا ہے بلکہ قاری غالب کی زندگی میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اسے غالب کا غم اپنا غم معلوم ہونے لگتا ہے گویا کہ آپ نے غالب کی آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا ہے۔
مالیگاﺅں سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار ” عوامی آواز“ ، شمارہ اپریل 1969ء کے الفاظ میں مکمل روداد ملاحظہ فرمائیں:
”21 نومبر1829ء میں جب مرزا غالب کلکتہ سے پنشن کے سلسلے میں ناکام و نا مراد دہلی لوٹے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ نظام دکن کی شان میں قصیدہ لکھ کر بھجواو اور وہاں سے طلبی پر حید رآباد ہوتے ہوئے بمبئی سدھا رو، اورجان ملکم سے مل کر اپنا مدعا حاصل کرو لیکن مرزا صاحب نے کوئی قصیدہ تو نہیں لکھا البتہ کچھ دنوں آرام کر نے کے بعد پھر رختِ سفر باندھا اور عازم سفر ہوئے۔ دلّی میں موجود ریذیڈ نٹ سے شناختی خط لکھوایا اور چل پڑے۔ سرجان ملکم ان دنوں بمبئی سے دوسو میل اِدھر مالیگاوں میں چھٹیاں گذار رہے تھے۔ متھرا، گوالیار، جھانسی ہوتے ہوئے بھوپال پہنچے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایا ، پھر مہاراجہ ہولکر کی راجدھانی اندور قیام فرماتے ہوئے شیر پور تشریف لا ئے۔ یہاں پہنچ کر مرزا علیل ہو گئے۔ ہفتہ عشرہ کے بعد روبصحت ہو کر پھر روانگی عمل میں آئی اور آپ مالیگاوں شہر پہنچے۔ اوریہاں کی جامع مسجد کے مسافر خانہ میں قیام فرما ہوئے۔ جامع مسجد کے امام محبوب خان صاحب نے میز بانی کے فرائض انجام دیے۔ آ ج کل یہ جامع مسجد موسم ندی کے مشرق میں ہے۔ ناسک کے محکمہ آثار قدیمہ کے کاغذات سے مسجد جا مع سنگمیشور ( سمکسیر) میں واقع ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ غرض یہاں پہنچ کر ہماری زبان کے سب سے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالب نے کچھ یوم آرام کیا، پھر یہاں سے تقریباً تین میل دور کیمپ میں جان ملکم صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ جان صاحب سے گرجا گھر واقع کیمپ کے بنگلے میں ملاقات ہوئی۔ مرزا صاحب نے مالیگاﺅں میں اکیس روز قیام فرمایا ۔ کاغذات میں مرزا کا نام دلی نواسی سادل خاں اسد مرقوم ہے۔
سمکسیر میں ابراہیم خان روہیلہ جو کافی عر صہ آگرہ رہا تھا، مرزا کے چچا سے واقف تھا۔ ان دنوں وہ سرکاری ا صطبل کا کیمپ میں داروغہ تھا۔ مرزا صاحب ابراہیم خاں روہیلہ کے یہاں بھی ایک ہفتہ مہمان رہے۔ مالیگاوں کے اکیس روزہ قیام کے دوران مرزا صاحب جان ملکم کے ہمراہ چاندوڑ بھی گئے جہاں انگریزی حکومت کا دفتر تھا۔ چاندوڑ مالیگاوں سے 25 میل پر مغرب میں ہے۔ اور پہاڑیوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ پُرفضا مقام ہے۔ مرزا کی واپسی پر ابراہیم خان رو ہیلہ بھی رخصت لے کر ان کے ساتھ ہی روانہ ہوا۔
آثارِ قدیمہ کے کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا غالب نے قلعہ کی سیر بھی کی تھی۔ اُن دِنوں مالیگاوں میں صرف مرہٹے اور عرب آباد تھے۔ یو پی کے لوگوں کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ اورنگ آ با داور دولت آباد کے کچھ خاندان بھی یہاں تھے۔ سمکسیر میں روہیلوں کا ایک محلہ آباد تھا جو قلعے میں چوکیداری کیا کر تا تھا۔ قلعہ فتح ہو جانے کے بعداِن سب کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ اس رات سمکسیر سمیت پور ے شہر کی آبادی بیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ “
(نقوش : تذکرہ شعرائے مالیگاﺅں، جلد اوّل ، ص: 156-155، سال اشاعت :1979ء، مو لف : حفیظ مالیگاﺅں، طابع و ناشر: اقبال احمد ، مہاراشٹر اسٹیٹ اُردو اکاڈمی کے مالی تعاون سے شائع شدہ کتاب )
تفصیلی مضمون ”غالب، باندہ اور دیوان محمد علی“ پر شائع ہونے والی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ موقع کی مناسبت سے مرزا غالب کی حیات سے اس پہلو کو پیش کیا گیا ہے جس کا تعلق شہر مالیگاﺅں سے تھا۔