یگانہ حسین چنگیزی
(غالب شکن،امام الغزل، مرزایگانہ چنگیزی لکھنوی)

l نام : مرزا واجد حسین
l تخلص : یگانہ ؔ( چنگیزی) پہلے آپ ’’ یاس ‘‘ تخلص اختیار کرتے تھے۔
l ولادت : 17؍ اکتوبر 1884ء عظیم آباد
l وفات : 4؍فروری1956ء لکھنؤ

یگانہ چنگیزی کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ پہلے یاسؔ تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہؔ ۔ یگانہ کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور سلطنت مغلیہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ پرگنہ حویلی عظیم آباد میں جاگیریں ملیں اور وہیں سکونت پذیر ہوئے۔اسکول کے زمانے سے انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور بیتاب عظیم آباد ی کے شاگرد ہوئے۔ 1903ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد معاش کی جستجو میں مصروف ہو گئے، جس میں انہیں دَر دَر کی خاک چھاننی پڑی۔ چوںکہ ان کی شادی لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس لیے وہ لکھنؤ میں جا بسے لیکن وہاں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کر دی جو پہلے سے مستعمل تھی، اس لیے لکھنؤ اسکول میں آتشؔ کے بعد یگانہؔ ہی سب سے منفرد شاعر ہیں، جن کی آواز سب سے الگ محسوس ہو تی ہے۔ یاس/ یگانہ کا کلام ان کے مختلف مجموعوں اور اس زمانے کے رسالوں میں بکھرا ہوا تھا۔ ان اوراقِ لخت لخت کو ناموَر محقق مشفق خواجہ نے اکٹھا کر 2003ء میں کلیاتِ یگانہ شائع کی، جس نے یگانہ کی شاعرانہ شخصیت کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یگانہ چنگیزی 27؍ ذی الحجہ1301ھ مطابق 17؍اکتوبر 1884ء کو پٹنہ کے محلے مغل پورہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ چھ سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوئے۔ فارسی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد عظیم آباد (پٹنہ) کے محمڈن اینگلو عربک اسکول میں نام لکھوایا گیا۔ اسکول میں ہمیشہ اول رہے۔ پڑھنے میں اچھے تھے، اس لیے ہر سال وظیفہ اور انعام پاتے رہے۔1903ء میں انٹرنس پاس کیا۔ 1904ء میں مٹیا برج، کلکتہ گئے، جہاں شہزادہ مرزا مقیم بہادر کے صاحب زادوں شہزادہ محمود یعقوب علی مرزا اور شہزادہ محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے اُستاد مقرر ہوئے۔ لیکن کلکتہ کی آب و ہوا رَاس نہیں آئی اور کچھ دنوں بعد وطن واپس چلے آئے۔ علاج کے سلسلے میں لکھنؤ آئے اور لکھنؤ کی فضا ایسی راس آئی کہ اچھے ہوکر بھی واپس جانا گوارا نہیں کیا۔ لکھنؤ ہی میں 1913ء میں شادی کرکے اسی کو اپنا وطن بنالیا۔یگانہ ؔکا لکھنؤ کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنؤ کے شعرا سے ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ اتنا ہی نہیں وہ عزیزؔ، صفیؔ، ثاقبؔ و محشرؔ وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ جب عزیزؔ کی سرپرستی میں رسالہ ’’معیار‘‘ جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہؔ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالبؔ کی زمینوں میں غزلیں پڑھتے تھے۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں’’معیار‘‘ میں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہؔ کی غزلیں شامل ہیں۔ لیکن یہ تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنؤ کے اکثر شعرا سے یگانہؔ کی چشمک ہوگئی۔

یگانہؔ سے اہلِ لکھنؤ کی چشمک کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ’’معیار‘‘پارٹی کے مشاعروں میں ان کے کلام پر خندہ زنی کی جاتی تھی اور بے سروپا اعتراض کیے جاتے تھے مگر یہ سب کچھ زبانی ہوتا تھا۔ اصلی اور تحریری جنگ کا آغاز خود یگانہؔ نے کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کا سلسلہ چل پڑا، جس کی انتہا ’’شہرتِ کاذبہ‘‘ نامی یگانہؔ کی کتاب ہے۔ لکھنؤ کے شعرا مرزاغالبؔ کے بڑے قائل تھے، لہٰذا یگانہؔ کے لیے اب یہ بات بھی ناگزیر ہوگئی کہ وہ غالبؔ کی بھی مخالفت کریں۔یگانہؔ نے اس مخالفت کے چلتے اپنے آپ کو ’’آتش ؔکا مقلد‘‘ کہنا شروع کر دیا اور اپنے مجموعہ کلام ’’نشتر یاس‘‘ کے سرِورق پر اپنے نام سے پہلے ’’خاک پائے آتشؔ ‘‘ لکھا اورجب اس کے ایک سال بعد ’’چراغِ سخن‘‘ شائع ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو ’’آتش پرست‘‘ کے درجے تک پہنچا دیا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے آتشؔ اور غالبؔ کا تقابلی مطالعہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آتشؔ، غالبؔ سے بڑا شاعر ہے۔ یہ مضمون رسالہ ’’خیال ‘‘ میں نومبر 1915ء میں شائع ہوا اوریہ سلسلہ ایک لمبی مدت تک جاری رہا۔ اس غالب شکنی کی انتہا وہ رسالہ ہے، جو انہوں نے 1934ء میں ’’غالبؔ شکن‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس رسالے کو دوبارہ مزید اضافوں کے ساتھ 1935ء میں چھاپا۔یگانہؔ نے صرف اپنا تخلص یاس ؔسے یگانہؔ (21/1920 ء میں ) نہیں کیا بلکہ 1932ء تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کرلیا۔ اس کے بارے میں خودلکھتے ہیں کہ:

’’ جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کردیا تھا ،اسی طرح جب سے میں نے غالب پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیا کیا ہے،یہ لقب اختیار کیا ہے۔‘‘ [مرزا یگانہ:شخصیت اور فن ]

اس مخالفت کی وجہ سے یگانہؔ کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوگیا کیوں کہ اس مخالفت سے نہ تو شعرائے لکھنؤ کا کچھ ہوا اور نہ ہی غالبؔ کو کچھ نقصان پہنچا بلکہ یگانہؔ ہی خسارے میں رہے کہ اپنی شاعری پر پوری طرح توجہ نہ دے سکے۔ان سب مخالفتوں اور معرکہ آرائیوں کے باوجود یگانہؔ کا ایک گروپ تھا، جن سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ 1919ء میں انہوں نے ’’انجمن خاصانِ ادب‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی۔ اس انجمن کے صدر بیخود موہانیؔ، سکریٹری یگانہؔ اور جوائنٹ سکریٹری عبدالباری آسیؔ تھے۔ اس انجمن کے اعزازی رکن اور سرپرستوں میں فصاحت لکھنوی اور سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ جیسے لکھنوی اہل قلم بھی شامل تھے۔

زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہؔ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا۔ ایک عرصے تک وہ ’’اودھ اخبار‘‘ سے وابستہ رہے۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ کب سے کب تک۔البتہ ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیروں میں یگانہؔ کا نام شامل ہے۔1924ء میں یگانہؔ اِٹاوہ چلے گئے، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ مارچ 1925ء کے آس پاس وہ اِٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ 1926ء میں انہوں نے لاہور کا رُخ کیا اور ’’اُردو مرکز‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ ڈاکٹراقبالؔ کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ ڈاکٹر اقبال بھی یگانہؔ کے بڑے قائل تھے۔ 1928ء میں یگانہؔ ’’اُردو مرکز‘‘ سے علاحدہ ہوگئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً 1928ء میں کیا۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس‘‘ کی حیثیت ہو گیا۔ یہاں ان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی تھی۔1931ء میں یگانہؔ محکمہ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہوگئے۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی۔ اس طرح وہ ’’عثمان آباد‘‘ ، ’’لاتور‘‘ اور ’’یادگیر‘‘ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور 1942ء میں 55؍ برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا۔ 1946ء میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی۔ حیدرآباد میں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرناچاہا لیکن یگانہؔ راضی نہ ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد یگانہؔ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی۔

مجموعہ ہائے کلام

یگانہؔ کا پہلا مجموعہ کلام ’’ نشتر یاس‘‘ 1914ء میں شائع ہوا۔ اس کا بڑا حصہ ان کے ابتدائی اور روایتی کلام پر مشتمل ہے۔ان کا دوسرا مجموعہ ’’ آیاتِ وجدانی‘‘ کے نام سے 1927ء میں منظر عام پر آیا۔ یگانہؔ کی قدر و منزلت کا دار و مدار بڑی حد تک اسی مجموعے پر ہے۔ ’’آیاتِ وجدانی‘‘ کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’ترانہ‘‘ کے نام سے سات سال بعد 1933ء میں شائع ہوا۔ 1934ء میں ’’آیاتِ وجدانی‘‘ کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ 1945ء میں اس مجموعے کا تیسرا ایڈیشن بھی آگیا۔ اس اشاعت کا کام پہلی اشاعتوں سے بہتر تھا۔ 1946ء میں جب یگانہ بمبئی گئے تو اس وقت ان کی ملاقات سید سجاد ظہیر سے ہوئی تھی۔ ان کے لیے یگانہؔ نے اپنے تمام مجموعوں میں شامل کلام کو ’’گنجینہ‘‘ کے نام سے مرتب کردیا۔ یہ مجموعہ کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے سے 1947ء میں شائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چند کتابچے بھی لکھے تھے۔ مثلاً: ’’ شہرتِ کاذبہ‘‘ جسے خرافاتِ عزیزؔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ’’غالب شکن‘‘ بھی شائع کیا ، جس سے لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں بڑی اٹھا پٹک ہوئی۔یگانہ کا انتقال 4؍ فروری 1956ء کی صبح لکھنؤ میں ہوا۔

کتب ورسائل

(۱) نشتر یاس 1914ء[پہلا مجموعہ کلام] (۲) آیات وجدانی 1927ء[دوسرا مجموعہ کلام](۳) ترانہ 1933ء[تیسرامجموعہ کلام] (۴) گنجینہ[تینوں مجموعوں کا مجموعہ](۵) غالب شکن1935ء (مکتوب یگانہ بنام سید مسعود حسن صاحب رضوی، ایم اے پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی)
ٔ(۶) بعض شعرائے عظیم آباد (فروری 1916ء عظیم آباد کے فارسی شعراء کا تذکرہ)
(۷) فلسفہ ہمدردی (دسمبر1915ء) (۸) مسرت ہمدردی (جون 1916ء)
(۹) مسئلہ انتقام ( جنوری 1916ء) (۱۰) رسم و واج کا اثر (جولائی 1916ء)
(۱۱) الفاظ مہندبہ عطف و اضافت( اپریل مئی1916ء)
(۱۲) کلامِ آتش بہ رنگ صائب ( ستمبراکتوبر1916ء)
(۱۳) تمام شعرائے حال کی خدمت میں ( جولائی 1916ء)
(۱۴) چراغِ سخن1914ء(رسالہ عروض وقوافی)
(۱۵) شہرت کا ذبہ المعروف بہ خرافات ِ عزیزؔ ( عزیز لکھنوی کی مصنوعی شاعری کی قلعی کھول محققانہ تنقید)
(۱۶) ترانہ ( رباعیات کا مجموعہ)

چند نکات

٭ رسالہ ’’نظارہ‘‘ میں یگانہ کی تحریریںشائع ہوئی ہیں۔
٭ یگانہ کافی عرصہ تک ’’ اَودھ‘‘ اخبار سے منسلک رہے۔ محقق مشفق خواجہ نے 2003 ء میں ’’کلیات یگانہ ‘‘شائع کی۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!