آل احمد سرور کی تنقید نگاری


پروفیسر آل احمد سرور ہمارے عہد کے سب سے سربرآوردہ نقاد ہیں اور موجودہ نسل کے ادبی مذاق کی تربیت میں ان کے تنقیدی مضامین کا بڑا حصہ ہے۔اس زمانے میں جب اردو تنقید مختلف قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھی پروفیسر سرور نے رہبری کا اہم فریضہ انجام دیا۔
جب ہمارے تنقید نگار گروہوں میں تقسیم تھے اور جب ادب کو کسی نہ کسی خانے میں رکھ کر کسی ایک زاویے سے دیکھنے کا رواج عام تھا،انہوں نے ادب کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت کا احساس دلایا اور اپنے مضامین کے ذریعے اہل نظر میں یہ ذوق پیدا کیا کہ وہ شعر و ادب کو سب سے پہلے شعر و ادب کی کسوٹی پر پرکھیں اور ادب میں ادبیت تلاش کریں۔
سرور صاحب ایک غیرجانبدار، مصنف مزاج اور کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں۔انہوں نے کبھی کسی نظریہ کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا،خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نذر کا سودا نہیں کیا۔اٹل عقیدہ عموما بہت جلد آئیڈیالوجی یا نظریہ کی جگہ لے لیتا ہے۔تنقید نگار کٹر پن کا راستہ اختیار کر لے تو اس کے لیے باقی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور اس کی تنقید یک رخی ہو کر رہ جاتی ہے۔سرور صاحب اس رویے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ایک جگہ اس موضوع پر ان لفظوں میں اظہار خیال کرتے ہیں:
“ادب سیاسی، مذہبی اور اخلاقی موضوعات سے مدد لیتا ہے، لیتا رہا ہے مگر یہ مذہب کا خادم ہے نہ سیاست کا نقیب، نہ اخلاق کا نائب۔ادب ہرجائی ہےاورادب کا ہرجائی پن ہی اس کی دولت ہے۔یہ معلومات نہیں تاثرات عطا کرتا ہے۔یہ علم نہیں عرفان دیتا ہے، یہ نظر نہیں نظر بخشتا ہے”
زندگی تغیر پذیر ہے اور سماج میں متواتر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔شعر و ادب اور علم و فن کا کارواں بھی ہر لحظہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے،کہیں ٹھہرتا نہیں۔ اس لیے اس سے پرکھنے کے پیمانے بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رہنے چاہئیں۔روس میں مزدور انقلاب کامیاب ہوا تو ساری دنیا کے شعر وادب میں بھی انقلاب آیا۔خود ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا اس وقت اردو ادب پر رومانیت اور تاثریت کا غلبہ تھا۔اس کے خلاف مہم شروع ہوئی۔آل احمد سرور نے اس تبدیلی کو وقت کا لازمی تقاضہ قرار دیا اور اس کا خیر مقدم کیا۔
سرور صاحب نے نظریے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ادب میں نظریے کی وہی اہمیت ہے جو زندگی میں نظر کی ہے۔اور اس رائے کا اظہار کیا کہ ادب منفرد کوشش سے وجود میں آتا ہے مگر سیاسی اور تہذیبی حالات سے نہ بے نیاز ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔لیکن ترقی پسند تحریک جو ایک عظیم تحریک تھی، انتہاپسندی سے محفوظ نہ رہ سکی۔جب
یہاں بےراہروی نظر آئی اور اس تحریک کے زیر اثر وجود میں آنے والے ادب کا بڑا حصّہ ادب کم اور پروپیگنڈہ زیادہ ہو گیا تو وہ اس تحریک سے مایوس ہونے لگے۔
انہوں نے اپنے مضامین میں اس پر زور دیا کہ ادب اخلاق سکھانے کا ذریعہ نہیں اور فن کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے والا شاعر و ادیب اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا۔انہوں نے کہا میں ادب میں پہلے ادبیت دیکھتا ہوں بعد میں کچھ اور–گویا جانتا ہوں کہ ادب میں جان زندگی سے ایک گہرے اور استوار تعلق سے آتی ہے۔میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں نہ اشتراکیت کا پرچار۔”ادب اور نظریہ” میں یہ خیالات ان الفاظ میں ادا ہوئے ہیں:
“فن ان معنوں میں افادی نہیں ہیں جن معنوں میں ہنر افادی ہے۔فن حسن کاری کرکے مسرت اور مسرت کے ساتھ بصیرت پیدا کرتا ہے۔صرف فکر کی روشنی سے فن کی محفل میں چراغ نہیں جل جاتے۔فن یہاں ایک فانوس ہے جو شمع کی روشنی کو حسین اور دلپذیر بناتا ہے”
سرور صاحب نے ایک سے زیادہ بار ٹی ایس ایلیٹ کے اس قول کو دہرایا ہے کہ ادب کی عظمت کو محض ادبی اصولوں سے نہیں جانچا جاسکتا لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ ادب پہلے ادب ہو بعد میں کچھ اور۔وہ انفرادیت، خارجیت اور عصریت تینوں کو ادب کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔
ادب اور سماج کے رشتے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن سماجی جبر کو پسند نہیں کرتے۔شعر و ادب میں ان کی نظر سب سے پہلے جس چیز پر جاتی ہے وہ ہے اس کا جمالیاتی پہلو۔ایک مضمون میں انھوں نے کہا ہے”میں ادب کے جمالیاتی پہلوؤں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں”عملی تنقید میں بھی ان کی توجہ خاص طور پر جمالیاتی عنصر اور حسن کاری پر رہتی ہے۔
انہوں نے ایک مضمون میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ ہمارے دیس میں موسیقی، مصوری، بت تراشی اور فن تعمیر کی شاندار روایات موجود تھی لیکن اردو شاعری انہیں اپنے دامن میں سمو نہیں سکی اور فنون لطیفہ کی وحدت سے اس نے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔غالب کے عہد تک اردو شاعری کا دیگر فنون لطیفہ سے تعلق کسی نہ کسی حد تک قائم تھا جس کے نتیجے میں اس وقت تک شاعری کے فنی اور صنا عدنہ پہلو پر زور زیادہ تھا لیکن موجودہ عہد میں اس کمی سے شاعری کو بھی نقصان پہنچا اور تنقید نگاری کو بھی۔
پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ سرور صاحب نے شعر و ادب کے جمالیاتی پہلو پر جب جب زور دیا اس بات کی صراحت ضروری کر دی کہ صناعی وحسن کاری ہی سب کچھ نہیں بلکہ اس جمالیات میں سماجی اور اخلاقی قدموں کی بھی پوری گنجائش ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
“شاعری میں پہلی اور بنیادی شرط شعریت ہے لیکن شعریت کے جس نظارۂ جمال پر ہم وجد کرتے ہیں اس میں زندگی کی دوسری قدریں بھی آسکتی ہیں اور آتی ہیں۔شعر اخلاقی بھی ہوسکتا ہے اور سیاسی بھی اور مذہبی بھی لیکن شاعری صحیفہ اخلاق یا صرف سیاست کی دستاویز یا مذہب کی پیروکار نہیں”
سچ تو یہ ہے کہ شعر جیسی پراسرار شے تک کسی ایک سمت سے رسائی آسان نہیں۔جب تک مختلف زاویوں سے روشنی نہ ڈالی جائے اس کے تمام گوشے منور نہیں ہوسکتے۔سرور صاحب کی تنقید یک رخی نہیں شعر و ادب کے تمام پہلو پر انکی نظر رہتی ہے،لیکن فنکار سے زیادہ فن ان کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور انہیں خاص طور پر ان قدروں کی تلاش رہتی ہے جو کسی فن پارے کی آفاقیت اور ابدیت کی ضامن ہیں۔
اردو سے پہلے سرور صاحب کا تعلق انگریزی ادب سے تھا اور اس کا مطالعہ انہوں نے بہت توجہ سے کیا ہے۔آئی اے رچرڈس اور ٹی ایس ایلیٹ سے انہیں ذہنی مناسبت ہے۔سرور صاحب کے مضامین میں ان مصنفوں کے حوالے متعدد جگہ نظر آتے ہیں۔انھوں نے انگریزی بلکہ مغربی مفکرین کے خیالات اردو میں پیش کرکے اردو تنقید کے دامن کو وسیع کیا ہے۔
اعتدال و توازن سرور صاحب کی تنقید کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے جو ادبی حلقوں میں خاصی موضوع بحث رہی ہے۔مگر انصاف کی بات ہے کہ ان کی تنقید جناب شیخ کا نقش قدم نہیں جو”یوں بھی ہے اور یوں بھی”دراصل ان کے نزدیک تنقید نہ وکالت ہے نہ عدالتی فیصلہ–نقاد مفتی نہیں ہوتا اس لیے وہ فتوے صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔عموما وہ تصویر کے دونوں رخ پیش کرکے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔
وہ خوبیوں کا ذکر زیادہ اور خامیوں کا ذکر کم کرتے ہیں کیونکہ وہ تنقید کو گلستان میں کانٹوں کی تلاش نہیں مانتے۔شدت اور انتہاپسندی کا ان کی تنقید میں گزر نہیں۔وہ سیاہ و سفید کو نہیں مانتے بلکہ اس رنگ کے قائل ہیں جس میں سیاہی اور سفیدی گھل مل جاتی ہے۔اسی لئے وہ ادب کو خانوں میں تقسیم کرکے نہیں دیکھتے اور یہی وجہ ہے کہ قدیم

وجدید کی بحث میں بھی ان کا ذہن صاف ہے۔
سرور صاحب کی تنقید کا ایک خاص وصف ان کا دلنشین اسلوب ہے جس میں سادگی بھی ہے اور رعنائی بھی۔ان کی تنقید اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کیے بغیر تخلیق کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے جس سے تنقیدی بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایک طرح کا ذہنی سرور وانبساط بھی۔
سرور صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ”میں چونکہ تنقید کو ذہنی عیاشی نہیں سمجھتا بلکہ انسانی ذہن کے لئے اس کا کام وہی سمجھتا ہوں جو ایک ڈاکٹر مریض کے لئے کرتا ہے اس لیے عام فہم انداز بیان کی کوشش کرتا ہوں”سرور صاحب ادیب ہیں، شاعر ہیں، تنقید نگار ہیں، مگر انہوں نے اپنا مشغلہ درس و تدریس کو بنایا اور اس کا احترام کیا۔
اس لیے وہ اپنی بات کو ہمیشہ صاف اور سلجھے ہوئے انداز میں کہنے کی کوشش کرتے رہے ۔انہیں تنقید کے لیے وہ زبان پسند ہے جس میں خیال آئینے کی طرح روشن ہو۔کہا گیا ہے کہ تخلیقی ادب کی زبان آئینے کی مانند ہے مگر تنقید کی زبان دریچے میں لگا وہ شفاف شیشہ ہے جس سے آرپار دکھائی دیتا ہے اور مصنف اس شیشے کو صاف کرتا رہتا ہے۔
سرور صاحب اپنی بات کو صراحت سے، وضاحت سے آسان زبان کے استعمال سے ذہن نشین کر دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اس کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ نثر میں ایک ادبی شان پیدا ہو جائے۔وہ عام فہم ہونے کے ساتھ دلفریب اور پراثر ہو لیکن اس طرح کہ بیان کی دلآویزی ترسیل میں رکاوٹ نہ بنے اور پڑھنے والا لفظوں کی بول بھلیاں میں نہ کھو جائے۔نتیجہ یہ کہ ان کی بات پوری طرح سمجھ میں آتی ہے، لطف و لذت اس کے سوا حاصل ہوتے ہیں اور موضوع سے دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ان کی خواہش یہ رہتی ہے کہ ان کی تنقید معلومات کا خزانہ کو مگر پڑھنے والے کو اس سے ادبی مسرت بھی حاصل ہو۔
سرور صاحب کے تنقیدی مضامین کے مجموعے مندرجہ ذیل ہیں: تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ، نئے اور پرانے چراغ، تنقیدی اشارے، نظر اور نظریہ، مسرت سے بصیرت تک،ذوق جنون،تنقید کے بنیادی مسائل،پہچان اور پرکھ،کچھ خطبے کچھ مقالے،فکر روشن، افکار کے دیے، اردو میں دانشوری کی روایت۔وغیرہ۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!