NotesUrdu Nazm

نظیر اکبرآبادی کی نظم مفلسی کی تشریح

Nazm Muflisi az Nazeer Akbarabadi ka Khulasa

نظیر اکبرآبادی کی نظم مفلسی کی تشریح، تجزیاتی مطالعہ اور خلاصہ

 

نظم مفلسی کی تشریح کرنے سے پہلے اس نظم کے شاعر نظیر اکبر آبادی کا مختصر تعارف کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

نظیر اکبرآبادی، محمد شاہ ثانی کے عہد میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے بعد آگرہ پہنچ کر تاج گنج میں سکونت پذیر ہوئے اور تمام عمر یہیں بسر کی۔ فارسی کے علاوہ تھوڑی بہت عربی بھی جانتے تھے۔ مشغلہ درس وتدریس تھا۔ آخری عمر میں فالج کا شکار ہو گئے۔ اسی مرض میں انتقال کیا۔نظیر ہر طبقے اور مزاج کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ جوانی میں بڑی رنگین مزاج تھے۔ کھیل کود، پتنگ بازی، تیراکی، ورزش، کبوتر بازی ان کی دلچسپیوں میں شامل تھے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے تہواروں میں حصہ لیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ آزادانہ زندگی کی تصویروں نے ان کے کلام میں غیر معمولی وسعت اور رنگار نگی پیدا کی ہے۔ روایتی شاعری کرنے کے علاوہ نظیر  نے عوامی شاعری بھی کی اور یہی ان کی پہچان بن گئی۔ ان کی عوامی نظموں میں ہندو مسلم روایات اور تہواروں، مختلف مذہبوں کی برگزیدہ ہستیوں، ہندوستان کے مناظر، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں، کھانوں وغیرہ کا غیر رسمی انداز میں ذکر ہوا ہے۔ عوامی مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر بھی ان کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن میں بنجارہ نامہ، روٹیاں، آدمی نامہ نے تاریخی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ نظیر کا ذخیرہ الفاظ بھی حیرت انگیز حد تک وسیع تھا۔

نیچرل شاعری جس کی بنیاد پر آزادؔ اور حالیؔ نے ڈالی تھی۔ اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی ہی تھے۔ وہ اپنی نظموں میں اخلاقی تلقین اور سماجی اصلاح کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لفظی صناعی کے بجائے ’’خیال‘‘ اور’’ جذبے‘‘ کو شاعری کا معیار قرار دیا اور مبالغہ آرائی اور مضمون آفرینی سے ہٹ کر سادگی ، فکری اورجدت کی نظیر قائم کی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں مناظرِ فطرت کے بے مثال مرقع پیش کیے۔

نظیر کے والد محمد فاروق عظیم آباد کی سرکار میں ملازم تھے۔ نظیر کی ولادت دہلی میں ہوئی جہاں سے وہ اچھی خاصی عمر میں اکبرآباد (آگرہ) منتقل ہوئے، اسی لئے کچھ نقّاد ان کے دہلوی ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ تقریباً انیسویں صدی کے آخر تک تذکرہ نویسوں اور نقّادوں نے نظیر کی طرف سے ایسی بے اعتنائی برتی کہ ان کی زندگی کے حالات پر پردے پڑے رہے۔ آخر 1896ء میں پروفیسر عبد الغفور شہباز نے “زندگانی بے نظیر” مرتب کی جسے نظیر کی زندگی کے حوالہ سے حرف آخر قرار دیا گیا ہے حالانکہ خود پروفیسر شہباز نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی تحقیق میں خیال آرائی کی آمیزش ہے۔ یقینی بات یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں دہلی انتشار اور بربادی سے عبارت تھی۔ مقامی اور اندرونی خلفشار کے علاوہ 1739 میں نادر شاہی سیلابِ بلا آیا پھر 1748، 1751 اور 1756ء میں احمد شاہ ابدالی نے پے در پے حملے کئے۔ ان حالات میں نظیر نےبھی بہت سے دوسروں کی طرح، دہلی چھوڑ کر اکبر آباد کی راہ لی، جہاں ان کے نانا نواب سلطان خاں قلعدار رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 22-23 سال بتائی جاتی ہے۔ نظیر کے دہلی کے قیام کے متعلق کوئی تفصیل تذکروں یا خود ان کے کلام میں نہیں ملتی۔ نظیر نے کتنی تعلیم حاصل کی اور کہاں یہ بھی معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فارسی کی سبھی متداول کتابیں پڑھی تھیں اور فارسی کی اہم تصانیف ان کے زیر مطالعہ رہی تھیں۔ لیکن عربی نہ جاننے کا اعتراف نظیر نے خود کیا ہے۔ نظیر کئی زبانیں جانتے تھے لیکن ان کو زبان کی بجائے بولیاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جن کا اثر ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ آگرہ میں نظیر کا پیشہ بچّوں کو پڑھانا تھا۔ اس زمانہ کے مکتبوں اور مدرسوں کی طرح ان کا بھی ایک مکتب تھا، جو شہر کے مختلف مقامات پر رہا۔ لیکن سب سے زیادہ شہرت اس مکتب کو ملی جہاں وہ دوسرے بچوں کے علاوہ آگرہ کے ایک تاجر لالہ بلاس رائے کے کئی بیٹوں کو فارسی پڑھاتے تھے۔

نظیر اس معلمی میں قناعت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ بھرت پور، حیدرآباد اور اودھ کے شاہی درباروں نے سفر خرچ بھیج کر ان کو بلانا چاہا لیکن انھوں نے آگرہ چھوڑ کر کہیں جانے سے انکار کر دیا۔ نظیر کے متعلق جس نے بھی کچھ لکھا ہے اس نے ان کے اخلاق و عادات، سادگی، حلم اور فروتنی کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ دربارداری اور وظیفہ خواری کے اس دور میں اس سے بچنا ایک مخصوص کردار کا پتہ دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے نظیر کو قریشی اور کچھ نے سید کہا ہے۔ ان کا مذہب امامیہ معلوم ہوتا ہے لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ صوفی مشرب اور صلح کل انسان تھے اور کبھی کبھی زندگی کو وحدت الوجودی زاویہ سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جس خلوص اور جوش کے ساتھ ہندو مذہب کے بعض موضوعات پر جیسی نظمیں لکھی ہیں ویسی خود ہندو شاعر بھی نہیں لکھ سکے۔ پتہ نہیں چلتا کی انہوں نے اپنے دہلی کے قیام میں کس طرح کی شاعری کی یا کس کو استاد بنایا۔ ان کی بعض غزلوں میں میر و مرزا کے دور کا رنگ جھلکتا ہے۔ دہلی کے بعض شاعروں کی غزلوں کی تضمین ان کی ابتدائی شاعری کی یادگار ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا کہ ان کی دہلی کی شاعری کا کیا رنگ تھا۔ انہوں نے زیادہ تر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں اور وہ ان ہی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپن اپنا کلام جمع نہیں کیا۔

ان کی وفات کے بعد بلاس رائے کے بیٹوں نے متفرق چیزیں جمع کر کے پہلی بار کلّیات نظیر اکبرآبادی کے نام سے شائع کیا جس کا سن اشاعت معلوم نہیں۔ فرانسیسی مستشرق گارسان دی تاسی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نظیر کا پہلا دیوان 1820ء میں دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔ آگرہ کے مطبع الٰہی نے بہت سے اضافوں کے ساتھ اردو میں ان کا کلیات 1867 ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں کلیات نظیر نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوتا رہا۔ نظیر نے طویل عمر پائی۔ عمر کے آخری حصہ میں فالج ہو گیا تھا۔ اسی حالت میں 1830ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے بہت سے شاگردوں میں میر مہدی ظاہر، قطب الدین باطن، لالہ بد سین صافی، شیخ نبی بخش عاشق، منشی حسن علی محو کے نام ملتے ہیں۔

تذکرہ نگاروں اور 19ویں صدی کے اکثر نقّادوں نے نظیر کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی شاعری میں بازاریت، ابتذال، فنی اغلاط اور عیوب کا ذکر کیا۔ شیفتہ اسی لئے ان کو شعراء کی صف میں جگہ نہیں دینا چاہتے۔ آزاد، حالی اور شبلی نے ان کے شاعرانہ مرتبہ پر کوئی واضح رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ اصل سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظیر نے اپنے دور کے معیارِ شاعری اور کمالِ فن کے نازک اور لطیف پہلووں کوزندگی کے عام تجربات کے سادہ اور پر خلوص بیان پر قربان کر دیا۔ درباری شاعری کی فضا سے دور رہ کر، موضوعات کے انتخاب اور ان کے اظہار میں ایک مخصوص طبقہ کے ذوق شعری کو ملحوظ رکھنے کے بجائے انہوں نے عام لوگوں کے فہم اور ذوق پر نگاہ رکھی یہاں تک کہ زندگی اور موت، منازلِ حیات اور مناظر قدرت موسم اور تہوار، امارت اور افلاس، عشق اور مذہب، تفریحات اور مشاغلِ زندگی، خدا شناسی اور صنم آشنائی، ظرافت اور عبرت غرض کہ جس مضمون پر نگاہ ڈالی، وہاں زبان، اندازِ بیان اور تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے پڑھنے والوں کے ایک بڑے دائرہ کو نظر میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے سیکڑوں پہلووں کے علم، جزئیات سے غیر معمولی واقفیت، وسیع انسانی ہمدردی اور پرخلوص اظہار مطالب کو اہمیت دی جائے تو نظیر کے بلند پایہ شاعر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے فن اور اس کےاظہار کے معروف تصورات سے ہٹ کر اپنی نئی راہ نکالی۔ نظیر کی نگاہ میں گہرائی اور فکر میں وزن کی جو کمی نظر آتی ہے اس کی تلافی ان کی وسعتِ نظر، خلوص، تنوع، حقیقت پسندی، سادگی اور عوامی نقطۂ نظر سے ہو جاتی ہے اور یہی باتیں ان کو اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔

تخلص نظیر اور شاعر بے نظیر! بے نظیر اس لئے کہ ان جیسا شاعر تو دور، ان کے زمرہ کا شاعر بھی نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کوئی پیدا ہوا۔ نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کی منفرد آواز ہیں جن کی شاعری اس قدر عجیب اور حیران کن تھی کہ ان کے زمانہ کے شعری شعور نے ان کو شاعر تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ نظیر سے پہلے اردو شاعری غزل کے گرد گھومتی تھی۔ شعراء اپنی غزل گوئی پر ہی فخر کرتے تھے اور شاہی درباروں تک رسائی کے لئے قصیدوں کا سہارا لیتے تھے یا پھر رباعیاں اور مثنویاں کہہ کر شعر کے فن میں اپنی استادی ثابت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک ایسا شاعر جو بنیادی طور پر نظم کا شاعر تھا۔ ان کے لئے غیر تھا۔ دوسری طرف نظیر نہ تو شاعروں میں اپنی کوئی جگہ بنانے کے خواہشمند تھے، نہ ان کو نام و نمود، شہرت یا جاہ و منصب سے کوئی غرض تھی، وہ تو خالص شاعر تھے۔ جہاں ان کو کوئی چیز یا بات دلچسپ اور قابل توجہ نظر آئی، اس کا حسن شعر بن کر ان کی زبان پر جاری ہو گیا۔ نظیر کی شاعری میں جو قلندرانہ بانکپن ہےوہ اپنی نظیر آپ ہے۔ موضوع ہو، زبان ہو یا لہجہ نظیر کا کلام ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔

مفلسی کے شاعر نظیر اکبرآبادی کے متعلق چند باتیں جان لینے کے بعد اب آئیے پڑھتے ہیں نظیر اکبر آبادی کی نظم مفلسی مکمل طور پر پھر اس کے بعد اس کی تشریح کی جائے گی اور اس کے ہر اک بند کا خلاصہ بھی تحریر کیا جائے گا۔

نظیر اکبرآبادی کی نظم مفلسی اور اس کی تشریح

 

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی

کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شاں
تعظیم جس کی کرتے ہیں تو اب اور خاں
مفلس ہوئے تو حضرت لقماں کیا ہے یاں
عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں
حکمت حکیم کی بھی ڈوباتی ہے مفلسی

جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی الف تو اسے ب بتاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی

مفلس کرے جو آن کے محفل کے بیچ حال
سب جانیں روٹیوں کا یہ ڈالا ہے اس نے جال
گر گر پڑے تو کوئی نہ لیے اسے سنبھال
مفلس میں ہوویں لاکھ اگر علم اور کمال
سب خاک بیچ آ کے ملاتی ہے مفلسی

جب روٹیوں کے بٹنے کا آ کر پڑے شمار
مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار
گر اور مانگے وہ تو اسے جھڑکیں بار بار
مفلس کا حال آہ بیاں کیا کروں میں یار
مفلس کو اس جگہ بھی چباتی ہے مفلسی

مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں اک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی

کرتا نہیں حیا سے جو کوئی وہ کام آہ
مفلس کرے ہے اس کے تئیں انصرام آہ
سمجھے نہ کچھ حلال نہ جانے حرام آہ
کہتے ہیں جس کو شرم و حیا ننگ و نام آہ
وہ سب حیا و شرم اڑاتی ہے مفلسی

یہ مفلسی وہ شے ہے کہ جس گھر میں بھر گئی
پھر جتنے گھر تھے سب میں اسی گھر کے در گئی
زن بچے روتے ہیں گویا نانی گزر گئی
ہم سایہ پوچھتے ہیں کہ کیا دادی مر گئی
بن مردے گھر میں شور مچاتی ہے مفلسی

لازم ہے گر غمی میں کوئی شور غل مچائے
مفلس بغیر غم کے ہی کرتا ہے ہائے ہائے
مر جاوے گر کوئی تو کہاں سے اسے اٹھائے
اس مفلسی کی خواریاں کیا کیا کہوں میں ہائے
مردے کو بے کفن کے گڑاتی ہے مفلسی

کیا کیا مفلسی کی کہوں خواری پھکڑیاں
جھاڑو بغیر گھر میں بکھرتی ہیں جھکڑیاں
کونے میں جالے لپٹے ہیں چھپر میں مکڑیاں
پیسا نہ ہووے جن کے جلانے کو لکڑیاں
دریا میں ان کے مردے بہاتی ہے مفلسی

بی بی کی نتھ نہ لڑکوں کے ہاتھوں کڑے رہے
کپڑے میاں کے بنیے کے گھر میں پڑے رہے
جب کڑیاں بک گئیں تو کھنڈر میں پڑے رہے
زنجیر نے کواڑ نہ پتھر گڑے رہے
آخر کو اینٹ اینٹ کھداتی ہے مفلسی

نقاش پر بھی زور جب آ مفلسی کرے
سب رنگ دم میں کر دے مصور کے کرکرے
صورت بھی اس کی دیکھ کے منہ کھنچ رہے پرے
تصویر اور نقش میں کیا رنگ وہ بھرے
اس کے تو منہ کا رنگ اڑاتی ہے مفلسی

جب خوب رو پہ آن کے پڑتا ہے دن سیاہ
پھرتا ہے بوسے دیتا ہے ہر اک کو خواہ مخواہ
ہرگز کسی کے دل کو نہیں ہوتی اس کی چاہ
گر حسن ہو ہزار روپے کا تو اس کو آہ
کیا کوڑیوں کے مول بکاتی ہے مفلسی

اس خوب رو کو کون دے اب دام اور درم
جو کوڑی کوڑی بوسہ کو راضی ہو دم بہ دم
ٹوپی پرانی دو تو وہ جانے کلاہ جسم
کیوں کر نہ جی کو اس چمن حسن کے ہو غم
جس کی بہار مفت لٹاتی ہے مفلسی

عاشق کے حال پر بھی جب آ مفلسی پڑے
معشوق اپنے پاس نہ دے اس کو بیٹھنے
آوے جو رات کو تو نکالے وہیں اسے
اس ڈر سے یعنی رات و دھنا کہیں نہ دے
تہمت یہ عاشقوں کو لگاتی ہے مفلسی

کیسے ہی دھوم دھام کی رنڈی ہو خوش جمال
جب مفلسی ہو کان پڑے سر پہ اس کے جال
دیتے ہیں اس کے ناچ کو ٹھٹھے کے بیچ ڈال
ناچے ہے وہ تو فرش کے اوپر قدم سنبھال
اور اس کو انگلیوں پہ نچاتی ہے مفلسی

اس کا تو دل ٹھکانے نہیں بھاؤ کیا بتائے
جب ہو پھٹا دوپٹہ تو کاہے سے منہ چھپائے
لے شام سے وہ صبح تلک گو کہ ناچے گائے
اوروں کو آٹھ سات تو وہ دو ٹکے ہی پائے
اس لاج سے اسے بھی لجاتی ہے مفلسی

جس کسبی رنڈی کا ہو ہلاکت سے دل حزیں
رکھتا ہے اس کو جب کوئی آ کر تماش بیں
اک پون پیسے تک بھی وہ کرتی نہیں نہیں
یہ دکھ اسی سے پوچھئے اب آہ جس کے تئیں
صحبت میں ساری رات جگاتی ہے مفلسی

وہ تو یہ سمجھے دل میں کہ ڈھیلا جو پاؤں گی
دمڑی کے پان دمڑی کے مسی منگاؤں گی
باقی رہی چھدام سو پانی بھراؤں گی
پھر دل میں سوچتی ہے کہ کیا خاک کھاؤں گی
آخر چبینا اس کا بھناتی ہے مفلسی

جب مفلسی سے ہووے کلاونت کا دل اداس
پھرتا ہے لے طنبورے کو ہر گھر کے آس پاس
اک پاؤ سیر آنے کی دل میں لگا کے آس
گوری کا وقت ہووے تو گاتا ہے وہ ببھاس
یاں تک حواس اس کے اڑاتی ہے مفلسی

مفلس بیاہ بیٹی کا کرتا ہے بول بول
پیسا کہاں جو جا کے وہ لاوے جہیز مول
جورو کا وہ گلا کہ پھوٹا ہو جیسے ڈھول
گھر کی حلال خوری تلک کرتی ہے ٹھٹھول
ہیبت تمام اس کی اٹھاتی ہے مفلسی

بیٹے کا بیاہ ہو تو نہ بیاہی نہ ساتھی ہے
نے روشنی نہ باجے کی آواز آتی ہے
ماں پیچھے ایک میلی چدر اوڑھے جاتی ہے
بیٹا بنا ہے دولہا تو باوا براتی ہے
مفلس کی یہ برات چڑھاتی ہے مفلسی

گر بیاہ کر چلا ہے سحر کو تو یہ بلا
شہدار نانا ہیجڑا اور بھاٹ منڈ چڑھا
کھینچے ہوئے اسے چلے جاتے ہیں جا بہ جا
وہ آگے آگے لڑتا ہوا جاتا ہے چلا
اور پیچھے تھپڑیوں کو بجاتی ہے مفلسی

دروازے پر زنانے بجاتے ہیں تالیاں
اور گھر میں بیٹھی ڈومنی دیتی ہیں گالیاں
مالن گلے کی ہار ہو دوڑی لے ڈالیاں
سقا کھڑا سناتا ہے باتیں رزالیاں
یہ خواری یہ خرابی دکھاتی ہے مفلسی

کوئی شوم بے حیا کوئی بولا نکھٹو ہے
بیٹی نے جانا باپ تو میرا نکھٹو ہے
بیٹے پکارتے ہیں کہ بابا نکھٹو ہے
بی بی یہ دل میں کہتی ہے اچھا نکھٹو ہے
آخر نکھٹو نام دھراتی ہے مفلسی

مفلس کا درد دل میں کوئی ٹھانتا نہیں
مفلس کی بات کو بھی کوئی مانتا نہیں
ذات اور حسب نسب کو کوئی جانتا نہیں
صورت بھی اس کی پھر کوئی پہچانتا نہیں
یاں تک نظر سے اس کو گراتی ہے مفلسی

جس وقت مفلسی سے یہ آ کر ہوا تباہ
پھر کوئی اس کے حال پہ کرتا نہیں نگاہ
دالیدری کہے کوئی ٹھہرا دے رو سیاہ
جو باتیں عمر بھر نہ سنی ہوویں اس نے آہ
وہ باتیں اس کو آ کے سناتی ہیں مفلسی

چولہا توانا پانی کے مٹکے میں آبی ہے
پینے کو کچھ نہ کھانے کو اور نے رکابی ہے
مفلس کے ساتھ سب کے تئیں بے حجابی ہے
مفلس کی جورو سچ ہے کہ یاں سب کی بھابی ہے
عزت سب اس کے دل کی گنواتی ہے مفلسی

کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑھے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد بدن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی

ہر آن دوستوں کی محبت گھٹاتی ہے
جو آشنا ہیں ان کی تو الفت گھٹاتی ہے
اپنے کی مہر غیر کی چاہت گھٹاتی ہے
شرم و حیا و عزت و حرمت گھٹاتی ہے
ہاں ناخن اور بال بڑھاتی ہے مفلسی

جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی
تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی
مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی

مفلس کسی کا لڑکا جو لے پیار سے اٹھا
باپ اس کا دیکھے ہاتھ کا اور پاؤں کا کڑا
کہتا ہے کوئی جوتی نہ لیوے کہیں چرا
نٹ کھٹ اچکا چور دغاباز گٹھ کٹا
سو سو طرح کے عیب لگاتی ہے مفلسی

رکھتی نہیں کسی کی یہ غیرت کی آن کو
سب خاک میں ملاتی ہے حرمت کی شان کو
سو محنتوں میں اس کی کھپاتی ہے جان کو
چوری پہ آ کے ڈالے ہی مفلس کے دھیان کو
آخر ندان بھیک منگاتی ہے مفلسی

دنیا میں لے کے شاہ سے اے یار تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی

نظم مفلسی کی تجزیاتی مطالعہ

نظم مفلسی پہلا بند کی تشریح

نظم مفلسی کے پہلے بند میں نظیر اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ جس وقت انسان کو غریبی آتی ہے تو انسان کو طرح طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔غریبی انسان کو پیا سا بٹھاتی ہے اور بھوک کا درد نا ک عذاب دیتی ہے،شب و روز بھوک اور پیاس میں گزارنے پڑتے ہیں مگر اس درد کا اندازہ اسی کو ہوگا جس نے مفلسی دیکھی ہوگی۔

نظیر اکبر آبادی کی اس نظم میں مفلسی اور غریبی کے نقصان اور خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک مفلس انسان پر کیا کیا بیتتی ہے، اس کی منظر کشی بڑی خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔جب انسان مفلسی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ مفلسی اس کو طرح طرح کے دکھ دیتی ہے۔ مفلس کی حالت میں انسان کو دن رات بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے، ہر وقت کھانے کے لالے پڑ تے ہیں۔ یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کیسے پیٹ کی آگ کو بجھایا جائے۔ اس دکھ کو وہی جان سکتا ہے جو غریبی اور مفلسی میں مبتلا ہو گیا ہو۔

نظم مفلسی دوسرے بند کی تشریح

نظم مفلسی کے دوسرے بند میں نظیر اکبر آبادی اپنے اشعار کے ذیعے یوں لکھتے ہیں کہ غریب کو رزق کی تلاش میں اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ اور مفلس روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے مشکل کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا،گویا کہ ٹوٹ پڑتا ہے رزق پر۔مفلسی غریبوں کو اس طرح لڑاتی ہے جس طرح کتے ہڈی پر لڑ پڑتے ہیں۔

ایک غریب اور مفلس انسان کو اپنی عزت کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہتی ہے۔ وہ تو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے پر اپنی جان دینے لگتا ہے۔ وہ اس طرح روٹی والے برتن پر ٹوٹ پڑتا ہے کہ کسی طرح اپنا پیٹ بھر سکے۔ اس وقت کھانا مل رہا ہے کیا معلوم دوسرے وقت کی روٹی ملے یا نہیں۔ غریب انسان روٹی کے لئے ایسے لڑتے ہیں جیسے کتے ہڈی پر لڑتے ہیں۔

نظم مفلسی تیسرے بند کی تشریح

اس نظم کے تیسرے بند میں نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ مفلس انسان کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتامفلسی انسان کا وقار ختم کرتی ہے اور لوگ اس سے حقیر سمجھتے ہیں اس لئے طرح طرح کے بُرے القاب دیتے ہیں کوئی اس سے گدھا کہتا ہے اور کوئی بیل۔غریبی انسان کی حالت قیدیوں جیسی بناتی ہیں غریب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، بال پریشان،منھ پیاس کی شدت سے خشک اور دانت میل سے بھرے ہوئےہوتے ہیں۔

انسان کتنا ہی شریف ایماندار اور نیک ہو لیکن مفلسی کی وجہ سےکوئی اس کو گدھا کہتا ہے اور کوئی اسے بیل بھی کہہ دیتا ہے۔ یعنی کوئی اس کی عزت اور احترام نہیں کرتا۔ مفلس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور بال کھلے ہوئے اور گرد و غبار میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا منہ خشک ہوا ہوتا ہے، دانت پیلے ہوتے ہیں اور وہ میلا کچیلا ہوتا ہے۔اس کی شکل قیدیوں کی جیسی بن گئی ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کی مفلوک الحال کی وجہ سے ہوتا ہے۔

نظم مفلسی چوتھے بند کی تشریح

اس بند میں نظیر اکبر آبادی خُدا سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خُدا کسی کو مفلسی کے عذاب میں قید نہ کرے۔مفلسی ایسا عذاب ہے جو بادشاہ اور امیر کو اک لمحے میں فقیر بنا سکتی ہیں،نظیر کہتے ہیں کہ مفلسی کی بہت ساری خرابیاں ہیں میں ان میں سے کس کس کا زکر کروں۔ مفلسی کا درد وہی جانتا ہے جس کے دل کو مفلسی نے متاثر کیا ہو۔

نظیر اکبر آبادی خدا سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک کوئی مفلسی کا شکار نہ ہو۔ مفلسی تو ایسی لعنت ہے کہ یہ عزت دار لوگوں کو ایک لمحے میں بھکاری بنا دیتی ہے۔ خدا اس لعنت سے سب کو بچائے۔ میں اس مفلسی کی کون کون سی خرابیاں بیان کروں یہ تو وہی جانتا ہے جو اس مفلسی کی لعنت میں خود مبتلا ہو جاتا ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی نظم مفلسی کا خلاصہ

نظیر اکبر آبادی اس نطم میں مفلسی کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب انسان کو غریبی آتی ہے تو انسان کو طرح طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔غریبی انسان کو پیا سا بٹھاتی ہے اور بھوک کا درد نا ک عذاب دیتی ہے،شب و روز بھوک اور پیاس میں گزارنے پڑتے ہیں مگر اس درد کا اندازہ اسی کو ہوگا جس نے مفلسی دیکھی ہو۔غریب کو رزق کی تلاش میں اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں رہتا۔وہ روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے کھٹن کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا،گویا کہ ٹوٹ پڑتا ہے رزق پر۔مفلسی غریبوں کو اس طرح لڑاتی ہے جس طرح کتے ہڈی پر لڑ پڑتے ہیں۔

مفلس انسان کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتامفلسی انسان کا وقار ختم کرتی ہے اور لوگ اس سے حقیر سمجھتے ہیں اور طرح طرح کے بُرے القاب دیتے ہیں کوئی اس سے گدھا کہتا ہے اور کوئی بیل۔غریبی انسان کی حالت قیدیوں جیسی بناتی ہیں غریب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، بال پریشان،منھ پیاس کی شدت سے خشک اور دانت میل سے بھرے ہوئےہوتے ہیں۔نظم کے آخر ی بند میں شاعر اللہ دعا گو ہے کہ اللہ کسی کو مفلسی کے عذاب میں قید نہ کرے۔مفلسی ایسا عذاب ہے جو بادشاہ اور امیر کو ایک لمحے میں فقیر بنا سکتی ہیں،نظیر کہتے ہیں کہ مفلسی کی بہت ساری خرابیاں ہیں میں ان میں سے کس کس کا زکر کروں۔ مفلسی کا درد وہی جانتا ہے جس کے دل کو مفلسی نے متاثر کیا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!