ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesISLAMIC KNOWLEDGE

ٹی وی ڈیبیٹ پر اسلامی اسکالر زکی لاجوابی اور خاموشی اسلام وقوم کی بدنامی کا باعث

ٹی وی ڈیبیٹ پر اسلامی اسکالر زکی لاجوابی اور خاموشی اسلام وقوم کی بدنامی کا باعث
دی وائر نیوز ایجنسی کی مشہور اینکر عارفہ خانم شیروانی نے لگائے اسلامک اسکالرز پر سنگین الزامات

از:عطاءالرحمن نوری،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)


    ہمارے یہاں مثبت سوچ رکھنے والے دور اندیشوں کی کمی ہے۔معمولی معمولی باتوں پر جذباتی ہوکر ہنگامی نعروں کی نذر ہوجانا،اَول فَول بیان بازی کرنا،الزام تراشی کرنااور پوری قوم کو اُلجھنوں کا شکار بنا کر احساس کمتری میں مبتلا کرنا، عام بات ہوگئی ہے۔اصل میں نام نہاد دانشوروں کوقوم کے نام پر اپنی دُکان چمکانا ہوتی ہے ۔جب کبھی ہمارے مدارس پر سوال کیا جاتا ہے تو ایسے میں مدارس کے ذمہ داران کوچاہیے کہ واویلا کرنے کی بجائے بڑے ہی ادب والتماس کے ساتھ فرقہ پرستوں کو مدارس کے دَوروں پر مدعو کریں۔انھیں مدارس کی اصلی صورت حال سے واقف کرایاجائے،انھیں ہمارے کچن بتائیں جہاں انھیں بارُود کے موجود ہونے کا خدشہ ہے،انھیں طلبہ کے تختے بتائے جائےں جن پر الزام ہے کہ ان تختوں کے نیچے اسلحے ہوتے ہےں۔ارے یار!ہمارے مدارس کے بچے غُلیل تک چلانانہیں جانتے وہ طلبہ کیا خاک بندوقیں چلائیں گے؟ جن کی حالت نہ صرف قابل توجہ ہے بلکہ حد سے زیادہ قابل رحم بھی۔جو بچہ کہی نہیں چلتا، شرارتی ،غریب ، یتیم اور مفلوک الحال ہوتا ہے انھیں مدرسوں میں داخل کردیاجاتاہے،جن کی پروَرِش کے لیے نہ جانے کتنی منت وسماجت کے بعدکیسے کیسے زکوٰة ،صدقات اور خیرات کی رقم جمع کی جاتی ہے۔کچھ تو سوچو!جن کے کھانے کے لیے سہ ماہ کا گلّہ (اناج) تک موجود نہیںوہ لاکھوں روپے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے میں کیسے لگاسکتے ہیں؟ہمارے مدارس کی محتاجی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ بچپن میں جب کو ئی بچہ مَستی کرتا ہے تو والدین کہتے ہیں” خاموش ہوجا،ورنہ مدرسے میں ڈال دیں گے ۔“گویا مدرسہ خوف کی علامت ہو۔مگر جہاں کہیں مدرسے پر اُنگلی اُٹھائی جاتی ہے ہم واویلا بپاکرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں،ذمہ داران کو چاہیے کہ جو لوگ تشددپھیلا رہے ہیں اُن لوگوںکے ساتھ میڈیا کو بُلایاجائے اورمدارس کی اصلی صورت حال سے انھیں آگاہ کیا جائے تاکہ مدارس کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہو۔

    اسلام کے خلاف بیان بازیوں اور زہرافشانی کی بات کی جائے تواس اَمرمیں کوئی بھی دودھ کادُھلانہیں ہے۔سیاسی لیڈران اپنی ریلیوں میں اسلام مخالف بیانات دیتے ہیں اور ٹی وی اینکر اپنے شوز میں اسلام مخالف شوشے چھوڑتے ہیں یعنی کہ اس کھیل میںمیڈیا بھی ملوث ہے۔میڈیا پرآئے دن اسلام مخالف موضوعات پر ڈیبیٹ (بحث ومباحثہ) کرانامیڈیاٹیم کے لیے ٹی آرپی بڑھانے کا بہترین ذریعہ بن چکاہے۔ان پروگرامات میں مختلف لوگوں (نام نہاد ایکسپرٹ)کو بلایاجاتا ہے۔یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام مخالف ذہن رکھنے والوں کو مدعو کیاجاتا ہے اور اسلامی تصور پیش کرنے کے لیے منجھے ہوئے عالم کو بلانے کی بجائے ایسوں کو لایاجاتا ہے جو کم علمی اور کج روی کا شکار ہوتے ہیں۔ڈیبیٹ کے دوران ایسے افراد اغیار کے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے اور ان کی لاجوابی اور خاموشی اسلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔درحقیقت میڈیا کامنصوبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ڈیبیٹ میں اسلامی اسکالر کے نام پر ایسے کمزوروں کو بُلایا جائے جن کو دورانِ گفتگو خاموش کرایاجاسکے اور یہ نا سمجھ اورکمزور صفت لوگ سستی شہرت اور محض ٹی وی پر آنے کے شوق میں مسلمانوں کی رُسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    دی وائر نیوز ایجنسی کی مشہور اینکر عارفہ خانم شیروانی نے اس ضمن میں یہاں تک کہا ں کہ ان نام نہاد مولاناﺅں کو ہزاروںروپے دے کر اسٹوڈیومیں بلایاجاتا ہے تا کہ وہ بدنامی مول لے،لاکھوں روپے میں یہ لوگ گالی کھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور کچھ روپے اور بڑھادیئے جائیں تو یہ لوگ کیمرے کے سامنے مار کھانے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں اس طرح کی کئی واردات ٹی وی اسکرین پر ہو چکی ہے،کبھی مولانا بول کر شو سے نکال دیا جاتا ہے،کبھی گالی دی جاتی ہے،کبھی کھلے عام دہشت گرد کہا جاتا ہے،کبھی عورت کے ذریعے طمانچہ رسید کر دیا جاتا ہے اور اب ڈرامے میں ٹوئسٹ سین بھی داخل کر دیا گیا ہے ،عورت ایک تھپڑ مارتی ہے تو کرتا پہنا ہوا شخص عورت کو تین تھپڑ رسید کردیتا ہے،پھر جیل جانا پڑتا ہے اور شروع ہوجاتی ہے ایک نئی بحث کہ اسلام میں عورتوں کی قدر نہیں بتائی گئی ہے ،ایک مسلمان نے سرے عام ادھیڑ عمر خاتون کو رُسوا کیااور بات آگے چل کر پھر برقعہ،آزادی ،ٹریپل طلاق،حلالہ اور چار شادیوں پر آجاتی ہے ۔

    عارفہ خانم کے ذریعے دیئے گئے اس سنگین بیان میں معلوم نہیں کتنی سچائی ہے مگر بے ایمانی کے اس دور میں کچھ بھی ہوسکتا ہے،آج روپے اور سستی شہرت کی لالچ میں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی وجہ سے پوری قوم کی عزت کا جنازہ نکل رہاہے یا مذہب بدنام ہو رہاہے۔اربابِ علم کو چاہیے کہ اس امرمیں سرجوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ طور پر فیصلہ صادر کریں کہ اس طرح کے ٹی وی پروگرامس میں کوئی بھی شریک نہ ہو۔ہاں اگر کوئی اس پایہ کا عالم ہو کہ نہ صرف مختلف زبانوں بلکہ متعدد علوم وفنون کا بھی ماہر ہو جو ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دے سکے تو بات جدا ہے۔رہی بات میڈیا اور اسلامی موضوعات کے وضاحت اور ہندوستانیوں کی ذہن سازی کی تو ہمیں چاہیے کہ ہم میڈیاکویقین دلائےں کہ آپ ہمارے دارالعلوم ، دارالقضاءاور دارالافتاءمیں تشریف لائیں،ہم آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیںاور یہاں آکر ہمارے جید،مستند اور ذی علم علمائے کرام سے سوالات کریں،ان شاءاللہ تعالیٰ انبیائے کرام کی میراث سے حصہ پانے والے یہ علمائے کرام میڈیااور فرقہ پرستوںکے ذریعے کھڑے کیے جانے والے ہر فتنے کا اپنے جوابات کے ذریعے مکمل سدّباب کریں گے۔

٭٭٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!