شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات


شمس الرحمن فاروقی ہماری زبان کے ایک قدآور نقاد ہیں۔تنقید کے میدان میں قدم رکھے انہیں زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ تنقید کے موضوع پر اب تک ان کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن سے اردو تنقید میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔اپنے تنقیدی مضامین میں انہوں نے بہت سی فکر انگیز باتیں کہی ہیں جن سے شدید اختلاف بھی کیا گیا لیکن کھلا ذہن اور وسیع نظر رکھنے والوں نے آخرکار ان کی تنقیدی بصیرت کا اعتراف کیا ہے۔
فاروقی صاحب کا مطالعہ بہت وسیع ہے خصوصیت سے مغربی ادب پر انکی نظر بہت گہری رہی ہے۔انہوں نے اسلوبیات، لسانیات، صوتیات۔۔ غرض ہر اس نظریے کو پیش نظر رکھا ہے جس سے ادب کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔ایک مدت سے ہماری تنقید میں یہ فیشن عام رہا ہے کہ کسی معروف مغربی نقاد کے چند مضامین کو سامنے رکھ لیا اور چونکانے والے جملوں کا انتخاب کر کے انہیں جابجا زیب و زینت کے لیے اپنے مضامین میں ٹانک دیا۔فاروقی صاحب کے مضامین اس نقص سے بری ہیں۔انہوں نے شعر و ادب کے مسائل پر آزادانہ غور کیا ہے۔ان کے تنقیدی افکار ان کے اپنے ہیں مستعار لیے ہوئے نہیں۔جہاں ناگزیر ہوا وہاں انہوں نے علمائے شرق و غرب کی رائیں اپنے افکار کی تائید میں پیش کی ہیں۔خود اپنے ادبی سرمائے کا انہوں نے بڑی توجہ سے مطالعہ کیا ہے اور اس میں قدیم و جدید کی کوئی تخصیص نہیں۔دونوں یکساں طور پر ان کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ہمارا قدیم ادبی سرمایہ مختصر ہے اور اس کا پرکھنا بھی مشکل نہیں لیکن جدید ادب کی قدروقیمت میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔یوں بھی ذاتی تعصبات سے بلند ہوکر اس کا سمجھنا اور سمجھانا آسان کام نہیں۔فاروقی صاحب نے ایک مضمون میں کہا ہے کہ” وہ نقاد جو معاصر ادب کا مطالعہ کرنے سے جی نہیں چراتا، ہر طرح اس میں مصروف و منہمک ہوتا ہے ہماری تعریف اور احترام کا مستحق ہے” اور فاروقی صاحب یقیناً اس احترام کے مستحق ہیں۔
فاروقی صاحب کا ایک اور قابل قدر وصف ان کا انداز بیان ہے۔ انہوں نے وہی زبان استعمال کی ہے جو تنقید کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ادبی مسائل پر ان کی رائے بہت صاف اور سوچی سمجھی ہے اس لئے وہ اپنی بات بہت وضاحت اور قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں ۔اس میں کسی طرح کا الجھاؤ اور پیچیدگی نہیں ہوتی۔ان کا انداز استدلالی ہے وہ اپنی رائے کو دلیلوں سے مضبوط بناتے ہیں اور اس رائے کے خلاف جتنی باتیں کہی جاسکتی ہیں وہ خود ایک ایک کر کے پیش کرتے ہیں اور پھر انہیں دلیلوں سے رد کرتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ قاری کو قائل ہونا پڑتا ہے۔
وہ تنقید کو ادبی ذوق کی ذہنی پیداوار نہیں مانتے سنجیدہ علم خیال کرتے ہیں جس میں سائنس کی سی قطعیت ہونی چاہیے اور اس کا دائرہ کار مصنف کے سوانحی حالات و نفسیات یا اس عہد کی سیاست و معاشرت یا سماجی مسائل تک محدود نہ ہونا چاہیے کہ یہ سب چیزیں لاکھ اہم سہی مگر بنیادی چیز تو فن پارہ ہے جس تک پہنچنے کی کوشش تنقید نگار کی اصل ذمہ داری ہے۔اس لئے فاروقی صاحب کی تنقید کا دائرہ وسیع ہے اور وہ ادب کو سمجھنے کے لئے تمام ممکن وسائل کا سہارا لیتے ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فاروقی صاحب کے اہم تنقیدی نظریات کا مختصرا ذکر کردیا جائے۔فاروقی صاحب افسانے کو شاعری سے کمتر خیال کرتے ہیں کیونکہ افسانہ اتنی گہرائی اور باریکی کا متحمل نہیں ہوسکتا جوشاعری کا وصف ہے۔وہ بیانیہ کا محتاج اور وقت کے چوکھٹے میں اسیر ہے۔اور یہ کہ کسی واقعے کے بغیر فسانہ نہیں لکھا جا سکتا۔
ادب کا خالق ادیب ہوتا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ تخلیق پر اس کے خالق کی پرچھائیاں نہ پڑے اور ادیب بھی زندگی کا ایک حصہ ہے۔یہ زندگی اپنے مسائل رکھتی ہے اور یہ ضرور تخلیق میں نمودار ہوں گے۔مگر زندگی کے ہنگامی مسائل پائیدار ادب کو جنم نہیں دے سکتے۔نئی شاعری اور پرانی شاعری کا فرق واضح کرتے ہوئے فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ نئی شاعری کوئی پیغام عمل دینے کا دعویٰ نہیں کرتی،وہ نظریے کی شعری اہمیت سے انکار کرتی ہے۔لیکن وہ یہ وضاحت کردیتے ہیں کہ شاعر زندگی کے مسائل سے متعلق کوئی نظریہ نہ رکھتا ہو یہ تو ممکن نہیں مگر وہ اپنی شاعری کو کسی نظریے کا پابند نہیں بناتا۔دوسرا فرق فاروقی صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ نئی شاعری دل سے زیادہ ذہن کو متاثر کرتی ہے۔اس کا عمل اضطراب انگیزی کا عمل ہے۔اس لیے وہ رنگینی و فصاحت کے بجائے ارادی طور پر ایک درشت و بےچین اسلوب اختیار کرتی ہے۔
فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ زندگی اتنی عظیم الشان، اتنی وسیع اور اتنی بکھری ہوئی ہے کہ کوئی فنکار خواہ وہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اسے اپنی تخلیق میں نہیں سمو سکتا۔ناچار وہ اس کے ایک ننھے سے ٹکڑے کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے تخیل، اپنی شخصیت کی رنگا رنگی اور اپنی فنکاری کے بل بوتے پر اس ٹکڑے سے ایک نئی دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔فنکار سے یہ مطالبہ کہ وہ زندگی کے سارے مسائل کو اپنی تخلیق میں سمیٹ لے،زندگی کی توہین کے مرادف ہے۔اتنا ضرور ہے کہ ادیب زندگی کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے۔مگر وہ ان مسائل کو حل کرنے کےنسخے نہیں بتاتا۔وہ قاری کے ذہن کو ان مسائل سے روشناس کرا دیتا ہے۔ بس یہیں اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔
ابلاغ و ترسیل کے مسلے پر فاروقی صاحب نے بہت غور کیا ہے۔یعنی اس سوال پر کہ شاعر اپنے تجربے کو کس طرح قاری تک پہنچاتا ہے۔ان کے نزدیک اس کی تین منزلیں ہیں—اظہار- ترسیل- ابلاغ- اظہار تخلیقی عمل کا پہلا قدم ہے۔یہ وہ منزل ہے جب شاعر کے ذہن میں کوئی تجربہ روشن ہوتا ہے یا خیال کوئی واضح شکل اختیار کرتا ہے۔شاعر اس تجربے میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔چنانچہ وہ لفظوں اور لفظی تصویروں کے ذریعے اسے کوئی ٹھوس شکل دیتا ہے۔یہ ترسیل ہوئی۔اس شکل کو دیکھ کر قاری بھی شاعر کے تجربے میں شریک ہو جاتا ہے۔اور اس کے دل پر من و عن وہ کیفیت تو نہیں گزرتی جو شاعر کے دل پر گزری تھی مگر کم و بیش ویسی ہی کیفیت گزر جاتی ہے۔اس کا نام ابلاغ ہے۔
فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ ابلاغ بھی مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ شاعری ایک پیچیدہ عمل ہے۔خاص طور پر اس کے لیے کہ شاعر کی زبان عام بول چال کی زبان کے مقابلے میں بے رحمی سے توڑی پھوڑی ہوئی،کھینچی تانی ہوئی اور نامانوس ہوتی ہے۔حالانکہ اردو اس معاملے میں نسبتاً خوش قسمت ہے کہ اس میں شاعری کی وہ زبان افضل سمجھی جاتی رہی ہے جو رسمی زبان کے قاعدوں کی پابند ہو اور بول چال کی زبان کے نزدیک ہو۔
انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ شاعری میں موضوع یا مواد اہمیت نہیں رکھتا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر نے اسے کس طرح برتا ہے۔اور ایسا کرنے میں ڈکشن، امیجری، استعارہ، علامت، تمثیل، صوتی کیفیت، ترتیب، نحوی آہنگ وغیرہ پر نظر رکھنی ہوگی۔
اردو شاعری کے عروضی مسائل بھی فاروقی صاحب کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے متعدد مضامین لکھے ہیں اور بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو ہمارے شاعروں اور نقادوں کی توجہ چاہتی ہیں۔انہوں نے اردو وزن و آہنگ کے بے لچک قائدوں کی کئی جگہ شکایت کی ہے۔عرہض کے معاملے میں ہمارے شعراء کا رویہ ہمیشہ تقلیدی رہا، تخلیقی نہیں۔جبکہ مغرب میں وزن کے سانچوں کی شکست وریخت ہوتی رہی۔عربی اور ہندی میں وزن وآہنگ کی بہت آزادی رہی ہے مگر ہم نے اپنے اصول فارسی سے لیے جہاں سخت گیری زیادہ ہے۔اس سے اردو شاعری کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے مسدس کی مثال پیش کی ہے جس میں مصروں کی تعداد کم و بیش کرکے نئی شکلوں کی ایجاد ممکن نہیں۔دوسری مثال رباعی کی ہے کہ اس کے جو اوزان مقرر کردیے ہم بال برابر تبدیلی کے روداد نہیں۔اور یہ اوزان ایسے پیچیدہ ہیں کہ بڑے بڑے علماء اور ماہرین عروض نے اس میدان میں ٹھوکر کھائی ہے۔فاروقی صاحب کا مشورہ ہے کہ رباعی کے معاملے میں پہلا قدم یہ اٹھایا جانا چاہیے کہ اسے چوبیس اوزان کی قید سے نجات دلائی جائے۔میر نے بعض ہندی بحریں اختیار کیں مگر ہمارے تعصب کا یہ حال ہے کہ ہم نے اجتہاد کا خیرمقدم نہیں کیا اور انھیں ہندی بحریں ماننے سے انکار کر دیا اور کسی نہ کسی طرح میر کے اس کلام کو اپنے قواعد کے شکنجے میں کس لیا۔
فاروقی صاحب کے جملہ تنقیدی افکار کا خلاصہ دو صفوں میں پیش کر دینا ممکن نہیں۔ان کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لئے لفظ و معنی،شعر غیر شعر اور نثر،عروض آہنگ اور بیان،افسانے کی حمایت میں اور تنقیدی افکار کا مطالعہ ضروری ہے۔انہوں نے شعر و ادب کے بنیادی مسائل پر غور کیا ہے اور ان کے بارے میں اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔شاعری کیا ہے؟ اچھی اور بری شاعری میں کس طرح تمیز کی جا سکتی ہے،قدیم اور جدید شاعری میں کیا فرق ہے،شعر کو غیر شعر اور نثر سے کیونکر متمائز کیا جاسکتا ہے۔شاعری اور افسانے میں کس کا رتبہ بلند ہے اور کیوں،ادب سے زندگی کا کیا رشتہ ہے،تنقید نگار کی ذمہ داریاں کیا ہیں،کیا شعر کا مکمل ابلاغ ممکن ہے،شاعری میں اسلوب کی کیا اہمیت ہے۔یہ اور اس طرح کے بے شمار اہم سوالات کا جواب فاروقی صاحب کے مضامین میں مل جاتا ہے۔باشعور قاری جو شعر و ادب کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو فاروقی صاحب کے مضامین کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!