ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesBiographySHAKHSIYAATUPSC CSE

Ansar Shaikh IAS : Biography and Motivation انصار شیخ کی داستان

انصار شیخ کی داستان: سماج کے تعصبی رویے کے علاج کی روشن علامت

انصار شیخ کی داستان: سماج کے تعصبی رویے کے علاج کی روشن علامت

آئی اے ایس بننے کے بعد انصار شیخ نے کہا: اب مجھے اپنے حقیقی نام چھپانا نہیں پڑے گا

ماب لینچنگ، تعصب، منافرت،فرقہ واریت اور خوف کا واحد حل :اعلیٰ تعلیم

از:عطاء الرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)

             سول سروس امتحان ملک میں سب سے سخت امتحان میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ امتحان کی تیاری کرتے ہیں مگر صرف چند سو طلبہ و طالبات ہی کا سلیکشن ہوتا ہے۔سخت محنت،انتھک جدو جہد اور درست رہنمائی سے پرھائی کرنے والے اسٹوڈنٹس ہی کامیابی حاصل کرپاتے ہیں۔بہت سارے اسٹوڈنٹس کے پاس عمدہ رہائش ، لذیذ کھانے اور مہنگی کوچنگ کی سہولت ہونے کے باوجود اس امتحان کو کلیئر نہیں کرپاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس ذوق اورجنون کی کمی ہوتی ہے۔مصائب وا ٓلام برداشت کرتے ہوئے ذوق و شوق کے ساتھ اپنی پہلی کوشش میں 2015ء  میں سول سروسیس امتحان کامیاب کرنے والے ایک حوصلہ مند نوجوان کا نام انصار احمد شیخ ہیں۔موصوف نے محض 21؍سال کی عمر میں361؍واں مقام حاصل کرتے ہوئے سب سے کم عمر کے آئی اے ایس آفیسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔انصار کومغربی بنگال کیڈار دیا گیا ہے۔انصار شیخ نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع پریشدا سکول (مراٹھی میڈیم) سے مکمل کی۔انصار شیخ نے ایس ایس سی بورڈ میں 91؍ فی صد نمبرات حاصل کیے تھے۔انصار نے بارول کالج سے آرٹس فیکلٹی میں بارہویں کی۔ انصار ایک مثالی طالب علم تھے انہوں نے سنسکرت مضمون میں 100؍مارکس میں سے مکمل 100؍مارکس حاصل کیے تھے۔آپ نے فرگسن کالج پونہ سے پالی ٹیکل سائنس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

 

            انصار شیخ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے میں جالنہ کے شیڑگاؤں کے آٹورکشا ڈرائیور یونس شیخ احمد کے بیٹے ہے۔انصار کی تاریخ پیدائش یکم جون 1995ء ہے۔ انصار کی ماں نے کھیتوں میں کام کیاہے۔ ان کے چھوٹے بھائی انیس نے ساتویں جماعت ہی سے اسکول چھوڑ کراپنے اہل خانہ کی مدد کی غرض سے گیرج میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ انصار نے اپنے’’ آئی اے ایس ‘‘کے خواب کو حاصل کرنے کے لیے تین سال تک بارہ بارہ گھنٹے اسٹڈی کی ہے ۔ ان کی کامیابی اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ ان کے خاندان میں علم کی بہت کمی تھی، خود انصار شیخ نے کہا تھا کہ ’’میرے خاندان میں تعلیم کبھی نہیں دیکھی گئی، میرے والد ایک رکشا ڈرائیورہیں جن کی تین بیویاں ہیں، میری ماں دوسری بیوی ہے، میرا چھوٹے بھائی کواسکول چھوڑنا پڑا، دو بہنوں کی کم عمر میں شادی ہو گئی تھی۔‘‘انصار شیخ کہتے ہیں کہ میں تین منزلوں سے گذر کر آیا ہوں:’’ اول یہ کہ میں پسماندہ علاقہ سے ہوں، دوم یہ کہ انتہائی غریب خاندان سے میرا تعلق ہے اور سوم یہ کہ میں اقلیتی سماج سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘انصار شیخ ایڈمنسٹریٹر بن کر ان تینوں شعبوں میں عمدہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انصار احمد شیخ آئی نے اپنی کامیابی پر کہا کہ ’’سخت محنت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔میری جدوجہد کے دوران میرے دوستوں نے مجھے ذہنی اور مالی طور پر مدد کی اور میری کوچنگ اکیڈمی نے میری غریبی کی وجہ سے فیس کا ایک حصہ معاف کر دیا تھا۔‘‘
            انصار نے مالی مشکلات کے رہتے ہوئے یوپی ایس سی سول سروسیس امتحان کی تیاری کے لیے نجی کوچنگ کلاس میں داخلہ لیا تھا۔ انصار کے اہل خانہ نے محنت مزدوری کرکے انصار کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کی۔انصار کے والد نے کوچنگ کی فیس ادا کرنے کے لیے اپنا مکان فروخت کردیا تھا۔ تیس سالہ راہول پانڈوے نے انصار شیخ کو گائیڈ کیا اور ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ راہول پانڈوے نے پانچ سالوں تک ’’یونیک اکیڈمی ،پونا‘‘ میں کئی ہزار اسٹوڈنٹس کو سول سروسیس کی تیاری کروائی۔ سال 2015ء ہی میں راہول پانڈوے نے اپنی پانچویں کوشش میں سول سروسز امتحان کوالیفائی کیا اور ملک بھر میں200؍واں مقام حاصل کیاتھا۔

             اس دنیا میں ان لوگوں کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اگر انسان کے ارادے مضبوط ہو تو غریبی اور مشکل حالات بھی کامیابی کا راستہ نہیں روک سکتے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جواپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کچھ راستہ ڈھونڈنکالتے ہیں۔انصار شیخ کا شمارایسے ہی محنت کش ، مستقل مزاج اور حوصلوں کو پروان چڑھانے والے کامیاب اور آئیڈیل اشخاص میں ہوتا ہیں۔انصار شیخ جب سول سروسز امتحان کی تیاری کے لیے 2012ء میں پوناآئے تو انھیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،خاص طور پر سماجی امتیازی سلوک کا۔پوسٹ گریجویشن کرتے ہوئے برادران وطن دوستوں کے لیے روم اور میز کاانتظام تو ہو جاتا تھا مگر بحیثیت مسلم انصار شیخ کو کئی جگہ سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ان تکلیفوں سے بچنے کے لیے بحالت مجبوری انصار شیخ نے اپنا فرضی نام ’’شبھم ‘‘رکھ لیا۔اس کامیابی کے بعد انصار شیخ کا کہنا ہے کہ’’ اب مجھے اپنے حقیقی نام چھپانا نہیں پڑے گا۔‘‘انصار شیخ کی کہانی جرأت ،جواں مردی، عزم اور حوصلے کے بارے میں ہے،اسی کے ساتھ یہ داستان اقلیتوں کی جانب سماج کے تعصبی ذہنیت کی طرف بھی روشنی ڈالتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!