ArticlesNEWS/REPORTS/PROGRAMMESNRC/CAB/CAA/NPR

Citizenship Amendment Bill

شہریت ترمیمی بِل: دستور ہند بدلنے کی مذموم کوشش، کیا کریں مسلمان؟

شہریت ترمیمی بِل: دستور ہند بدلنے کی مذموم کوشش، کیا کریں مسلمان ؟
غلام مصطفیٰ نعیمی
ایڈیٹر سواد اعظم دہلی
مرکزی حکومت نے ایک بار پھر “شہریت ترمیمی بِل” یعنی سٹیژن شپ امینڈمینٹ بِل( citizenship Amendment Bill) لوک سبھا میں پاس کرا لیا ہے.اب اس بِل کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا.یہاں پاس کرانا بی جے پی کے لئے تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے. کیوں کہ یہاں بی جے پی اقلیت میں ہے. اگر اپوزیشن پارٹیوں نے منافقت سے کام نہ لیا تو یہ بِل راجیہ سبھا میں ناکام ہوسکتا ہے. پارلیمنٹ میں اس بِل کو روکنے کی یہی ایک صورت ہے.

*خلاف دستور ہے یہ بِل*

یہ بِل دستور کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کے آرٹیکل14؍(قانون کے نزدیک برابری کا حق) اور آرٹیکل 15؍(حکومت مذہب، نسل، ذات، صنف،زبان اور علاقے کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی فرق نہیں کرے گی) کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس بِل کی حمایت اور مذہبی تفریق کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا:
ہمارے تین مسلم پڑوسی ملکوں(پاکستان،بنگلہ دیش، افغانستان) میں ہندوؤں ودیگر اقلیتوں کو ستایا جارہا ہے اس لئے ہم ان کو بھارت کی شہریت دینا چاہتے ہیں.مسلمانوں کے لئے تو بہت سارے اسلامی ممالک ہیں ہندوؤں کا تو ایک ہی ملک ہے اس لیے وہ کہاں جائیں گے؟
یہی سوچ کر اس بِل میں صرف غیر مسلموں کو شامل کیا گیا ہے
وزیر داخلہ کی اس بات سے ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا میں ہندو شہریت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور بھارت کے علاوہ کوئی ملک انہیں شہریت دینے تیار نہیں ہے. حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی ہمدردی سے پہلے بھی بہت سارے ممالک ہندوؤں کو شہریت دے چکے ہیں اور دیتے رہتے ہیں.ہاں! انہیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ شہریت دینے کا یہی پیمانہ اگر دیگر ملکوں نے بھی اپنا لیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان بھارت کو ہی ہوگا. کیوں کہ پوری دنیا میں دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے. وزارت خارجہ کی رپورٹ کے مطابق 1 کروڑ 75 لاکھ بھارتی دوسرے ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں. اگر وہ ممالک بھی شہریت کا پیمانہ مذہب بنا لیں تو ابھی پونے دو کروڑ بھارتی تباہ ہوجائیں گے. اس لئے محض مسلم دشمنی کے جذبے اور ووٹ بینک کی خاطر ملک کی سالمیت اور کروڑوں بھارتیوں کو داؤں پر لگانا ملک کو تباہ کرنے کے مترادف ہے. اگر حکومت واقعی مظلوموں کی ہمدرد ہے تو اس فہرست میں برما،سری لنکا اور نیپال کو شامل کیوں نہیں کیا؟
شاید اس لیے کہ مسلم ملکوں کے مفروضہ ظلم وستم کا پروپیگنڈا کرکے یہاں کے ہندوؤں کو آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتاہے برما ونیپال کے نام سے نفرت پھیلانا ممکن نہیں تھا !!

*تارکین وطن کی شہریت کا معاملہ !!*

تارکین وطن کی شہریت صرف بھارت نہیں پوری دنیا کا معاملہ ہے. دنیا کے تمام ممالک غیر ملکیوں کو قانون کی پاسداری، جرائم سے اجتناب اور ایک مقررہ وقت تک قیام کے بعد شہریت دیتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں شہریت کے لیے مذہب کو پیمانہ نہیں بنایا گیا. اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے زیادہ بھارتی شہری ہیں. دوسرے ملکوں کی شہریت لینے والے افراد کی تعداد پر مشتمل یہ فہرست دیکھیں:
1- ہندوستان : 1 کروڑ 75 لاکھ
2- میکسیکو : 1 کروڑ 18 لاکھ
3-چین : 1 کروڑ 7 لاکھ
4- روس : 1 کروڑ 5 لاکھ
5- شام : 82 لاکھ
6- بنگلہ دیش : 78 لاکھ
7- پاکستان : 63 لاکھ
8- یوکرائن : 59 لاکھ
9- فلیپنس : 54 لاکھ
10- افغانستان : 51 لاکھ
اگر ان ممالک میں بھی “مذہبی کارڈ” کا چلن شروع ہوجائے تو ابھی پونے دو کروڑ بھارتی سڑک پر آجائیں گے.کاش !!حکومت حقیقتاً انسانی ہمدرد ہوتی تو بغیر کسی تفریق کے غیر ملکیوں کو پناہ دیتی لیکن ایک طرف یہی حکومت برما کے مظلوموں کو ملکی وسائل پر بوجھ بتاتے ہوئے نکالنے پر آمادہ ہے. کیوں کہ وہ مظلوم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہیں. دوسری جانب ان لاکھوں گُھس پیٹھیوں کو شہریت دینا چاہتی ہے جو “مفروضہ مظلومیت” کے نام پر غیر قانونی طریقے سے آباد ہیں. لیکن وہ ہندو ہیں تو سو خطاؤں کے بعد بھی حکومت ان کی ہمدردی میں دُبلی ہوئی جارہی ہے.

*کیا اس بِل کو روکا جاسکتا ہے ؟*

کسی بھی بِل کے قانون بننے کے تین مرحلے ہوتے ہیں. 1- لوک سبھا میں پاس ہونا. 2- راجیہ سبھا میں پاس ہونا. 3- صدر جمہوریہ کی منظوری. لوک سبھا میں بی جے پی مکمل اکثریت میں ہے اس لئے وہاں یہ قانون چٹکیوں میں پاس ہوگیا.صدر جمہوریہ بی جے پی کے ہی ہیں، اس لئے وہاں بھی کوئی دقت نہیں ہے، ہاں! راجیہ سبھا کے لئے بی جے پی کو کچھ مشقت کرنا پڑ سکتی ہے کیوں وہ وہاں اقلیت میں ہے. اگر سیکولر پارٹیوں نے دستور ہند کا خیال رکھا تو وہاں یہ بِل گر جائے گا.لیکن پچھلے کچھ وقت سے دیکھا جارہا ہے کہ سیکولر پارٹیاں منافقت سے کام لیتے ہوئے رسمی سی مخالفت کرتی ہیں اور ووٹنگ کے وقت واک آؤٹ کرجاتی ہیں جس کی وجہ سے بی جے پی آسانی سے کوئی بھی بِل پاس کرا لیتی ہے. اس بار بھی یہ خطرہ برقرار ہے. مسلمانوں کا ووٹ لینے والی جنتا دَل یونائٹیڈ(J. D. U) بیجو جنتا دل ، وائی ایس آر کانگریس جیسی پارٹیاں اس بِل کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں. دیگر پارٹیاں بھی کب دھوکہ دے جائیں معلوم نہیں،اس لئے حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ اقدامات ضروری ہیں
🔹بِل کی مخالفت کے لئے بی جے پی مخالف پارٹیوں اور راجیہ سبھا ایم پیز سے پرسنلی ملاقات کرکے انہیں اس کی مخالفت پر تیار کیا جائے.
🔹دَلِت لیڈران کو اس بل کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ یہ بِل محض مسلمانوں کے نہیں بلکہ ملک کے دستور کے خلاف ہے. اگر آج وہ اسے مسلمانوں کا مسئلہ سمجھ کر خاموش رہے تو کل ان کا ریزرویشن بھی ختم کیا جاسکتا ہے.
🔹جو سماجی تنظیمیں اور علما اس قانون کی جمہوری مخالفت کر رہے ہیں ان کا ساتھ دیں اور مکّار سیکولر پارٹیوں کے نیتاؤں کا گھراؤ کریں اور آئندہ الیکشن میں ان کا مکمل بائکاٹ کریں تاکہ آپ کے ووٹوں سے جیتنے والے غداروں کو سبق مل سکے. اس کے علاوہ ایک اور جمہوری راستہ ہے وہ ہے عوامی احتجاج !! 
اگر مسلمان اپنے دستوری حق اور غیرت مندانہ زندگی کے لئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر اس قانون کی مخالفت کریں اور اس وقت تک کریں جب تک حکومت اس غیر دستوری بِل کو واپس لینے کا اعلان نہ کردے.
جیسا کہ پچھلے دنوں دَلتوں نے دِلّی میں کیا. جب سپریم کورٹ نے دَلت رہنما روی داس مندر کو ٹریفک پرابلم کی وجہ سے توڑنے کا آرڈر جاری کیا تو اس کی مخالفت میں لاکھوں دَلتوں نے پوری دِلّی کو جام کردیا. کئی کلومیٹر کے دائرے میں نیلے جھنڈے اور سروں کا سیلاب ہی سیلاب نظر آرہا تھا. حالانکہ اس احتجاجی بھیڑ پر پولیسیا تشدد بھی ہوا، سیکڑوں لوگ جیل بھی گئے لیکن ان کے مثالی احتجاج اور مضبوط اتحاد سے گھبرا کر حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا. لیکن یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیوں کہ ہماری قوم کا جذبہ دو موقعوں پر ہی بیدار ہوتا ہے ایک جب بریانی کھانا ہو دوسرے جب مشاعرہ سننا ہو. اس کے علاوہ قوم کے چھوٹے بڑے سب کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ہماری لڑائی غیر مسلم لڑیں. ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے. اکابر علما ومشائخ کی بڑی تعداد کو پتا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی بربادی کے مشورے کئے جارہے ہیں. جنہیں معلوم ہوگا وہ یہ سوچ کر خاموش رہیں گے کہ ہم تو بچ ہی جائیں گے. اس لئے یہ کام حساس علما ومشائخ کو ہی کرنا پڑے گا اور قوم کے ایک فرد فرد کو اپنی عزت دارانہ زندگی کے لئے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنا پڑے گا. مگر یاد رکھیں حکومتی ایجنٹ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ احتجاج وغیرہ کے چکر میں نہ پڑو بلکہ اپنے کاغذات وغیرہ جمع کرا کے مطمئن رہو کیوں سب کے چکر میں پڑتے ہو؟
لیکن یاد رہے کہ آسام حکومت ایک مسلم فوجی ثناء اللہ کو بھی گُھس پیٹھیا بنا کر ڈٹینشن کیمپ (جیل) بھیج چکی ہے.ثناء اللہ نے انڈین آرمی میں JCO کے طور پر 30 سال سروس کی، 2016 میں فوج سے رٹایر ہوئے اور 2017 میں ہی انہیں گُھس پیٹھیا بنا دیا گیا. جب آرمی میں سروس کرنے کے بعد بھی ایک مسلمان کو گُھس پیٹھیا بنایا جاسکتا ہے تو عام مسلمان اور اس کے کاغذات کی کیا حیثیت ہے؟
10 ربیع الثانی 1441ھ
9 دسمبر 2019 بروز پیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!