ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesNEWS/REPORTS/PROGRAMMESNRC/CAB/CAA/NPR

Citizenship Amendment Bill 2019

کیب یعنی سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل 2019 ء: پس منظر و حقائق

کیب (CAB) یعنی سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل 2019 ء: پس منظر و حقائق

از: عطاءالرحمن نوری ، ریسرچ اسکالر(مالیگاوں)

    سٹیزن شپ ایکٹ 1955ءایک ایسا منظم اور تفصیلی قانون ہے جس میں ہندوستانی شہریت کے اُصول و ضوابط پیش کیے گئے ہیں جیسے:پیدا ئش کے لحاظ سے شہریت، آباءو اجداد کے لحاظ سے شہریت، رجسٹریشن کے ذریعے شہریت اور نیچرالائزیشن کے ذریعے شہریت۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ”این آر سی : اندیشے ، مسائل اور حل “ میں پیش کی گئی ہے، استفادہ کی غرض سے کتاب کا مطالعہ کریں۔

سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل 2019ءکیا ہے ؟
     کسی بھی اصل ایکٹ یا قانون میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کے لیے اصل ایکٹ کو امینڈکیا جاتا ہے اور اس نئے بل کو ”امینڈمینٹ بل “کہا جاتا ہے ۔ سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل بہت سارے ہیں۔ موجودہ حکومت سٹیزن شپ ایکٹ 1955 ءمیں کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جسے سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل 2019 Citizenship Amendment Billسے تعبیر کیا گیا ہے جس کا مخفف CABہے۔ اس بل میں ہندو ، جین ، بدھ ، سکھ ، پارسی اور عیسائی مذاہب کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔اس وقت ہندوستان کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی فرد کو کم از کم 11 سال ہندوستان میں رہنا لازمی ہے۔مگر مذکورہ بل میں اس مدت کو چھ سال کر دیا گیا ہے یعنی اس بل کی رُو سے ہندوستان میں صرف چھ سالہ رہائش کی بنیاد پر شہریت حاصل ہو جائے گی۔ اس بل کی وجہ سے مذکورہ چھ مذاہب کے لوگوں کو محض چھ سالوں میں ہندوستانی شہریت حاصل ہو جائے گی۔

شہریت ترمیمی بل 2019ءکا مختصر پس منظر

        مذکورہ نکات پر مبنی سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل پہلی بار 19 جولائی 2016 ءکو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھاجس پر کافی بحث و مباحثہ ہوا ،اس کے بعد اس بل کو 12 اگست 2016ءکو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا۔ کمیٹی نے 7 جنوری 2019ءکو اپنی رپورٹ پیش کی تھی اور پھراگلے ہی دن یعنی 8 جنوری 2019ءکویہ بل لوک سبھا میں منظور ہوگیاتھا، نامساعد حالات ، اکثریت کی کمی اور کئی وجوہات کے پیش نظر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش نہیں کیا گیا تھا۔پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق اگر کوئی بل لوک سبھا کی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہوپاتا ہے تو پھر وہ بل دوبارہ دونوں ایوانوں میں متعارف کرایا جائے گا۔

شہریت ترمیمی بل کی موجودہ صورت حال

        شہریت ترمیمی بل 2019ءکو 04 دسمبر 2019ءکو مرکزی کابینہ نے منظور کرلیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ ہفتے اسے ایوان میں پیش کیے جانے کا قوی امکان ہے۔مرکزی حکومت نے اسے اولین ترجیح دی ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس بل پر بہت سخت موقف اختیار کررہی ہیں اور اسے آئین کی روح کے منافی قرار دے رہی ہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے واضح اشارہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کے لیے یہ بل منظور کرانا آسان نہیں ہوگا۔

اپوزیشن جماعتیں کیوں متفق نہیں ہیں؟

        اس بل کی چند دفعات ایسی ہیں جو حزب اختلاف یا اپوزیشن پارٹیوں میں ہلچل پیدا کر رہی ہیں اور اسے اقلیت مخالف بل قرار دے رہی ہیں۔ حزب اختلاف جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بل میں خاص طور پر مسلموں کو نشانہ بنایا گیاہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 14کی خلاف ورزی کرتاہے جو مساوات کے حق کی بات کرتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد این آر سی کے نفاذ کا قوی امکان ہے ، تب تو ہر وہ شخص ہندوستانی شہریت حاصل کر لے گا جو مذکورہ چھ مذاہب سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ بل اس بات کا بھی اشارہ کررہا ہے کہ مسلمانانِ ہنداس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔

 

  کیا حکومت اس بل کو پاس کرواپائے گی؟
        بی جے پی کو لوک سبھا میں اپنی اکثریت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑ ے گا لیکن راجیہ سبھا میں وہ دوسری سیاسی پارٹیوں پر منحصر رہے گی ۔ دیگر سیاسی پارٹیاں ” واک آٹ“ یا ایوان سے غیر حاضر رہ کر بی جے پی کو تقویت پہنچا سکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکولر جماعتیں ملک کی سالمیت ، اتحاد اور بقاءکے لیے کس قسم کا قدم اٹھاتی ہیں۔

مسلموں کو کیا کرنا چاہیے ؟

        سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل 2019ءکے متعلق چند تجاویز درج ذیل ہیں:
     ( 1)فی الحال ہم صرف صبر کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ معاملہ اس وقت ایوان میں زیر غور ہے۔ جب تک دونوں ایوان میں بل منظور یا رد نہیں ہوجاتا اس وقت تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ جو چیز اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں اس پر کلام کر نے،عقل کے گھوڑے دوڑانے اور منفی باتیں پھیلا نے سے قوم میں مزید خوف وہراس پیدا ہوگا ،اس لیے ہر خاص و عام سے گذارش ہے کہ جس بابت معلومات نہیں ہیں اس کے متعلق زبان کھولنے یا لکھنے سے قبل اہل علم سے بات کر لیں تاکہ افواہوں کا بازار گرم نہ ہو۔
      (2)اکثر سیاسی جماعتیں ایسے ایشوز کو حل کرنے کی بجائے انھیں الیکشنی مدعا بنانے کی کوششیں کرتے ہیں جیسے: منفی بیانات دینا، احتجاجی ریلیاں نکالنا اور میمورنڈم دینا وغیرہ۔ مذکورہ کاموں سے ان سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینک تو بڑھ جاتا ہے مگر اصل ایشو کا حل نہیں نکل پاتا ہے ، بعد میں یہیں سیاسی جماعتیں محض اپنی کرسی بچانے کے لیے منافرت پھیلانے والوں سے سانٹھ گانٹھ کرکے انھیں تقویت پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ اس لیے اس وقت ضروری ہو جاتا ہے کہ جذباتی بیانات کا شکار نہ بنیں ،کسی پر بھی آنکھ موند کر اعتماد نہ کریں اور آپسی اتحاد کو قائم رکھیں۔
     (3)مذہبی قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ محض چند اعمال و رسومات کی تعلیم دینے کی بجائے اسلام کے آفاقی پیغامات کو عام کریں، تعلیمی و سیاسی بساط کو مضبوط کریں اور حالات حاضرہ کے مطابق قوم کی رہنمائی کریں۔
     (4) اگرسٹیزن شپ امینڈمینٹ بل قانون بن بھی جاتا ہے تب بھی آئین کی رُو سے اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے کہ ہر قانون کو دستورِ ہند کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 14 مذہب، نسل ، ذات، جنس یا پیدائش کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے منع کرتا ہے اور اس بل میں مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے، اس لیے یہ بل آئین ہند کے آرٹیکل 14 کے منافی ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے ختم کیا جا سکتا ہے ۔
     (5) اگر یہ بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں نا منظور ہوتا ہے اور سینٹرل گورنمنٹ پریسڈنٹ رول کے تحت اس کو نافذ کرتی ہے تب بھی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے جس طرح طلاق ثلاثہ بل کو کیا گیا ہے۔
     (6) کم از کم اب مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، سیاسی ، تعلیمی اور معاشی میدان میں اپنا لوہا منوانا ہوگا، بڑی حکمت و دانش مندی کے ساتھ مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، جن سیکولر جماعتوں کا اب تک ہم نے ساتھ دیا ہے انھیں اس بات پر رضا مند کرنا ہوگا کہ ایوان میں اس بل کی مخالفت کریں، جو مسلم محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر منافرت پھیلانے والی جماعت کے آلہ کار بن کر مسلم ووٹوں کی تقسیم کا سبب بن رہے ہیں ، انھیں اپنے اس گھنانے عمل سے توبہ کرنا ہوگی ،مجموعی طور پر بحیثیت قوم اتحاد و یگانت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے ۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!