کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری

کلیم الدین احمد نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا تو اردو دنیا میں زلزلہ سا آگیا۔ایک تنقید نگار کے الفاظ میں کلیم الدین احمد ایوان ادب میں اس طرح داخل ہوئے جیسے کوئی مست ہاتھی شیشہ گھر کی دکان میں گھس جائے۔ان کی تنقید دراصل مغربی ادب اور خاص طور پر انگریزی ادب سے مرعوبیت کے نتیجے میں وجود میں آئی۔وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے، وہاں انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔
ایف آر لیوس جیسے بلند پایہ نقاد سے فیض اٹھایا اور جب ہندوستان لوٹے تو ان کی آنکھوں پر ایسی عینک چڑھ چکی تھی جس سے اپنی زبان کا ادبی سرمایہ حقیر‌و بے وقعت نظر آتا تھا اور ان کی رائے میں اس کا نذرآتش کردیا جانا ہی بہتر تھا۔اس شدت گیری اور سخت گیری کے باوجود کلیم الدین کی تنقید سے اردو ادب کو بہت فائدہ پہنچا۔انہوں نے اردو تنقید کی جس طرح رہنمائی کی اور اس کے سرمائے میں جو بیش قیمت اضافہ کیا اسے ہمیشہ قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔وہ ہمارے عہد کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک ہیں۔
یہ الزام بے بنیاد نہیں کے کلیم الدین احمد مغرب کے پرستار ہیں اور مغرب پرستی کے جوش میں اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر ادب اپنے عہد اور ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔اسے بدیسی معیاروں سے جانچنا ناانصافی ہے۔کلیم الدین احمد ہمیشہ اردو ادب کا مغربی ادب سے مقابلہ کرتے اور اپنے ادبی سرمائے کی بے وقعتی پر نادم ہوتے رہے۔انھیں اردو ادب میں خامیاں ہی خامیاں دکھائی دیں۔اردو غزل جس کی مقبولیت کسی عہد میں کم نہ ہوسکی انھیں” نیم وحشی صنف سخن”نظر آئی۔اردو تنقید کا وجود انہیں فرضی اقلدیس کے خیالی نقطہ اور معشوق کی کمر کی طرح موہوم معلوم ہوا۔اردو شعرا کا کلام لغو و بےمعنی لگا،حالی کے بارے میں ارشاد ہوا:
“خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غوروفکر ناکافی،تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط۔ یہ تھی حالی کی کل کائنات “
مولوی عبدالحق کے بارے میں فرماتے ہیں:
“عبدالحق صاحب شاعری کی ماہیت اور اس کے مقصد سے بیگانا ہیں”
سرور صاحب کے بارے میں یہ رائے دیتے ہیں:
“معلوم نہیں کیوں سرورصاحب کل کچھ جھنجھلائے ہوئے ہیں شاید انہیں احساس کمتری ہے اور یہ احساس کمتری کہتا ہے تم نے ابھی تک کوئی مفصل کتاب کیوں نہیں لکھیں۔۔۔۔۔۔وہ دسترخوان کی مکھی ہیں شہد کی مکھی نہیں”
احتشام حسین کے بارے میں لکھتے ہیں:
“اور جب احتشام حسین اس طرز میں لکھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی ہاتھی خوش فعلیاں کر رہا ہوں”
اتنے ہی بے زار وہ اردو شاعری سے ہیں۔ بار بار جتاتے ہیں کہ اردو شاعری اور مغربی شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انہیں افسوس ہے کہ اردو شاعر فارسی شاعری کے خوشہ چیں رہے۔اگر وہ مغربی شاعری کی طرف توجہ کرتے تو اردو شاعری کی دنیا بدل چکی ہوتی۔مختصر یہ کہ کلیم الدین احمد نے اردو تنقید میں بت شکنی کی خدمت انجام دی۔ان کا خیال ہے کہ یہ کام ضروری تھا نئی عمارت اسی وقت تعمیر ہوسکتی ہے جب پرانی عمارت مسمار کر دی جائے۔
کلیم الدین احمد کی یہ دلیل یقین عزم رکھتی ہے۔ان کی یہ انتہا پسندی، یہ مغرب پرستی، اور یہ بت شکنی اردو تنقید کے لیے ضروری تھی اوراس سے بہرحال فائدہ پہنچا۔جہاں حد سے بڑھی ہوئی مروت کا دور دورہ ہو اور جہاں بزرگوں کی لغزشوں پر انگلی اٹھانے والا ہفتہ وار ٹھہرایا جاتا ہو وہاں یقیناً ایک ایسے ہی سخت گیت نقاد کی ضرورت تھی۔تعریف و توصیف کی پہلی انتہا کے بعد نقطہ چینی کی یہ دوسری انتہا تھی جس نے اردو تنقید میں اعتدال و توازن کی راہ ہموار کی۔اس کا اعتراف پروفیسر سرور نے ان لفظوں میں کیا ہے:
“انہیں محض مغرب کااندھا مقلد اور مارکسی تنقید کا کٹر مخالف کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔۔۔۔ان کی انتہا پسندی سے چڑنے کے بجائے ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے”
دوسری اہم بات یہ کہ انہوں نے ادب کی افادیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ کچھ بنیادی قدریں ایسی ہیں جو ساری دنیا کے ادب کو ایک رشتے میں پروتی ہیں اور اعلی درجے کے ادب میں کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اسے زندہ رکھتی ہیں۔اس لیے کسی زمانے کا اچھا ادب بعد کے زمانوں کے لئے بیکار نہیں ہوتا۔
وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جو حضرات تنقید کے مغربی اصول اور مشرقی اصول کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ادب کو اس طرح خانوں میں تقسیم کر دیا جائے تو دنیاے تنقید، دنیائے ادب، دنیائے خیال، سب درہم برہم نظر آئیں گی۔ماحول کا اثر ضرور ہوتا ہے انسان پر بھی اور ادب پر بھی لیکن کلیم الدین احمد کی رائے ہے کہ اس اثر کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔
ادب آفاق گیر ہے اور انسان کے بنیادی افکار و احساسات سے وابستہ ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک انگریز فرانسیسی ادب سے اور ایک فرانسیسی روسی ادب سے لطف اندوز ہوسکے۔اس طرح ان کا محکم عقیدہ ہے کہ شعروادب کو نہ محض نفسیات کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے نہ صرف مارکسزم کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ادب کو بہرحال ادبیت کے معیار سے ہی پرکھنا چاہئے۔انہوں نے لکھا ہے:
“نقاد نہ فرائڈ کا خوشہ چیں ہوتا ہے اور نہ مارکس کا مقلد۔وہ فرائیڈ اور مارکس دونوں کے نظریوں میں کچھ مفید باتیں لے سکتا ہے شرط یہ ہے کہ مفید اور غیر مفید،درست اور نادرست کی سمجھ ہو۔ضرورت اس کی ہے کہ ہم ادب کو ادب سمجھیں اور اسے ادب کی حیثیت سے جانچیں”
ادب کی دنیا ایک ہے تو اسکے جانچنے کے پیمانے بھی یکساں ہونے چاہییں۔کلیم الدین احمد کے ادب کے محدود مقاصد کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اصول دریافت کرتے ہیں جن کے بغیر ادب کی پرکھ ممکن نہیں کیونکہ ادب پہلے ادب ہے بعد کو کچھ اور۔’اشتراکی کوچہ گردوں، سے وہ اس لیے بیزار ہیں کہ انہوں نے شاعری کو پیغام یعنی پروپیگنڈے کا آلہ بنا دیا خالانکہ وہ پیغامبری کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور اس پارے میں بہت متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں:
“میں یہ نہیں کہتا کہ پیغام اور شاعری میں کوئی بیر ہے شرط یہ ہے کہ پیغام شعری تجربہ بن جائے”
ترقی پسندوں سے انہیں گلہ ہے کہ اس اعلان کے باوجود کہ:
فن بڑی چیز ہے تخلیق بڑی نعمت ہے
حسن کاری کوئی الزام نہیں ہے اے دوست
ترقی پسندی اور حسن کاری میں شروع سے آخر تک ایک طرح کا بیر رہتا ہے جبکہ حسن کاری کے بغیر شعر و ادب کا وجود میں آنا ممکن ہی نہیں۔وہ شاعری کو موسیقی اور مصوری سے بلند رتبہ دیتے ہیں۔کیونکہ شعر بیک وقت نغمہ بھی ہے اور تصویر بھی۔مگر اس کے سوا کچھ اور بھی ہے۔اسلئے انکی نظر شعر میں جلوہ حسن کی متلاشی ہے لیکن اس فکر کو بھی ڈھونڈتی ہے جو فن کو رفعت عطا کرتی ہے۔بہت صاف لفظوں میں فرماتے ہیں:
“ادب دو چیزوں کے اتحاد کا نام ہے۔انسانی تجربات اور حسن صورت”
کلیم الدین احمد کے خیال میں تنقید کا واسطہ ادراک سے ہے تاثرات سے نہیں۔تاثراتی تنقید کو وہ تنقید نہیں مانتے۔لچھے دار جملوں، چلتے ہوئے فکروں کو وہ تنقید کے لیے مہلک سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک “تنقید میں اس کی ضرورت ہے کہ خیالات کو اس صفائی سے ظاہر کیا جائے کہ غلط فہمی کا احتمال باقی نہ رہے”۔اس لیے وہ خود لفاظی اور عبارت آرائی سے پرہیز کرتے ہیں۔ان کے اسلوب کو تجزیاتی اسلوب کہا جاسکتا ہے۔
ان کی نثر میں قطعیت پائی جاتی ہے یعنی وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بالکل وہی بات قاری کے ذہن نشین ہوتی ہے۔اس میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہوتا۔ حوالوں اور مثالوں سے وہ اپنی بات کو زیادہ مدلل اور باوزن بنا دیتے ہیں۔ان کی نثر میں رعنائی و دلکشی نہیں۔ان کی تنقید پڑھنے والا زبان وبیان کے لطف سے محروم رہتا ہے لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ قاری کی ساری توجہ موضوع پر مرکوز رہتی ہے۔
پروفیسر کلیم الدین احمد اپنی تحریروں کے ذریعے اردو شعر و ادب کی دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دینا چاہیے تھے۔ان کی تحریروں سے ادب کی آفاقیت کا احساس پیدا ہوا اور ان بنیادی قدروں کی تلاش شروع ہوئی جو ادب کو زماں و مکاں سے بلند کر دیتی ہے۔
کلیم الدین احمد نے بڑے بڑے کاموں کے منصوبے بنائے اور آخرکار ان کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہے لیکن یہ سارے منصوبے مکمل نہ ہوسکے۔پھر بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا اور اپنی تحریروں سے ہماری تنقید میں بیش بہا اضافہ کیے۔
اردو شاعری پر ایک نظر، اردو تنقید پر ایک نظر، عملی تنقید، سخن ہائے گفتنی، اور فن داستان گوئی ان کی چند اہم تصانیف ہیں۔جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تنقیدی شعور برابر ارتقا پذیر رہا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ادب سے مرغوبیت اور فیصلے میں عجلت کی عادت کم ہوتی گئی۔شدت اور انتہاپسندی کی جگہ رفتہ رفتہ اعتدال و توازن نے لے لی۔ان کا تنقیدی کارنامہ صدیوں تک انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!