ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesCOVID-19/CORONO VIRUSMalegaon SpecialResearch Papers

مالیگاوں میں کرونا وائرس کے ساتھ واٹس ایپ سائنسدانوں کا قہر

مالیگاوں میں کرونا وائرس کے ساتھ واٹس ایپ سائنسدانوں کا قہر

مالیگاوں میں کرونا وائرس کے ساتھ واٹس ایپ سائنسدانوں کا قہر
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)، مالیگاوں
        کرونا تو صرف بہانہ ہے اصل کام پیسہ کمانا ہے ۔یہ یہودو نصاریٰ کی سازش ہے ۔لوگوں کو ڈرانے کے لیے کرونا مریضوں کی تعداد بڑھا کر بتائی جا رہی ہے ۔ گھر میں مر جائیں گے مگر ہاسپٹل نہیں جائیں گے۔ عید سے قبل مریضوں کی تعداد کم ہو گئی ہے ،اب مارکیٹ شروع کردی جائے گی اور مسلمانوں کی خریداری سے فائدہ اٹھا کر عید بعد دوبارہ مریضوں کی تعداد بڑھا کر مسلموں کو بدنام کیا جائے گا۔ یہ تمام جملے واٹس ایپ سائنٹسٹ نے سوشل میڈیا انڈسٹری میں ایجاد کیے ہیں۔ اکثر لوگ گھریلو مسائل سے دوچار اور وبائی مرض سے پریشان ہیں ایسے میں سوشل سائنٹسٹ نے الگ آفت مچا رکھی ہے۔ آج پوری دنیا اس وبائی مرض میں مبتلا ہے۔ لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر چند آسکر ایوارڈ یافتگان کو لگتا ہے کہ یہ ان کے خلاف سازش ہے۔ بے سر پیر کی ان باتوں سے صرف منفی ذہنیت پھیلائی جا سکتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ سائنسی حقائق سے دور محیرالعقول روایات اور من گھڑت باتوں میں زندگی گذارنے والوں کا اللہ ہی مالک ہے۔ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا     
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
        مالیگاوں میں کرونا وائرس کی بات کریں تو آج اکثر خاندانوں میںیہ بیماری دستک دے چکی ہے۔ عالم وجاہل، ہر ایک اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ شہر میں درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ علامات کے اظہار کے باوجودلوگوں نے مریض کو گھر میں رکھا اور چند دنوں بعد قبرستان پہنچا دیا۔ایسا کرنے میں اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے یا ایسے لوگوں کی جن کے گھر میں میڈیکل یا فارما فیلڈ سے منسلک کوئی شخص موجود ہے۔ شہر کی کئی نامور ہستیاں کرونا کے سبب سے انتقال کر گئیں ہیں مگر اس ضمن میں کوئی سچائی کا اعتراف و اظہار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مہینے دو مہینے میںمالیگاوں میں کثیر تعداد میں اموات ہوئی ہیں، ممکن ہے ان میں سے اکثر کرونا سے متاثر ہو مگر اس وقت کرونا پر یقین نہیں کیا گیاتھا جس کے سبب ان کا سویب ٹیسٹ ہی نہیں کیا گیا ، اس لیے اب اس پر سوال قائم کرنا بے سود و بے معنی ہے مگر ہر ذی شعور اس بات کا ضرور اعتراف کرے گا کہ ان اموات میں دیگر بیماریوں کے ساتھ کرونا کا بھی عمل دخل ضرور تھا۔راقم ایسے کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو جانتا ہے جنھوں نے کرونا کو ہلکے میں لیا ، نتیجتاً ان کے گھر کے کئی جنازے قبرستان پہنچ چکے ہیں۔ شہر کے کئی ڈاکٹرس اس مرض سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ کئی ڈاکٹرس اپنے اہل خانہ کے لیے گھروں میں آکسیجن سلنڈر کا انتظام کیے ہوئے ہیں۔کئی ڈاکٹرس ازتھرومائسین، ایچ سی کیوں ایس اور فلووِر جیسی دواں کا استعمال کر رہے ہیں، ایمرجنسی میں ٹزار انجیکشن کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوے فیصد لوگ ان دوائیوں سے از خود اچھے ہو جائیں گے مگر ان لوگوں کی وجہ سے سوسائٹی میں کرونا کا جو پھیلاہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟جب کرونا صرف ایک سازش ہے تو آکسیجن سلنڈر کا کیوں انتظام کیا جا رہا ہے ؟ لوگوں کو کیوں لگتا ہے کہ ہر کوئی ہمارے خلاف سازش کرنے کے لیے فری بیٹھا ہے ؟ جب کہ ہم اپنا جنازہ نکالنے کے لیے کافی ہے ۔ پوری دنیا میں اس وائرس سے متاثر شخص کا علاج علاحدہ کر کے ہی کیا جارہا ہے تاکہ دوسرے محفوظ رہ سکیں، گھر میں مریض کا علاج کرنے والے کیا تمام احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں؟ اگر کر رہے ہیں تو ایک ہی گھر میں ایک ہفتے میں تین لوگوں کی موت کیوں ہو رہی ہے ؟ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ شہر جلد سے جلد گرین زون میں آ جائے مگر اس کے لیے سوچ بدلنا ہوگی ، از خود ٹیسٹ کروا کر خود کا علاج اور اہل خانہ کو کورنٹائن کرنا ہوگا۔
        ایک ایک گھرانے میں کئی کئی اموات ہوئی ہیں،مگر فوراً بول دیا جاتا ہے کہ شوگر ، بلڈ پریشر، دمہ اور ٹی بی جیسے کسی مرض میں مبتلا تھے۔ کیا شہر میں اس سے پہلے شوگر ، بلڈ پریشر، دمہ اور ٹی بی وغیرہ کے مریض نہیں تھے؟ کیا کبھی اتنی اموات ہوئیں؟ اس لیے کرونا پر یقین کرتے ہوئے کرونا سینٹر کا رُخ کرنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ یہ ایچ آئی وی جیسا وائرس ہو کہ معاشرے میں خاندان کی بدنامی ہوگی ، کئی ممالک کے وزیر اعظم اس مرض میں مبتلا ہوئے مگر چند دنوں بعد صحت یاب بھی ہو گئے، ان کی تو کوئی بدنامی نہیں ہوئی، پھر بدنامی کے ڈر یا کورنٹائن سینٹر کو سوچ کر گھر میں بیٹھ کر مرجانا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ راقم کو اس بات کا احساس ہے کہ کرونا سینٹر ز پر سہولیات کا فقدان ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پریشانی کو دیکھتے ہوئے علاج ہی نہ کروایا جائے۔ ویسے بھی ہاسپٹل کوئی آرام و آسائش کی جگہ تو ہے نہیں۔ معمول کے دنوں میں لوگ پولس اسٹیشن، کچہری اور ہاسپٹل سے پناہ مانگتے ہیں ،اب تو حالات ایسے ہی بد سے بد تر ہو چکے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جب دو پریشانی ایک ساتھ آجائے تو چھوٹی پریشانی قبول کر لینا چاہیے۔ میرے خیال میں سہولیات کی کمی مرنے سے چھوٹی پریشانی ہے اس لیے اسے قبول کر لینا چاہیے اور یہ پریشانی ایسی بھی نہیں کہ اسے حل نہ کیا جا سکے۔ ہاسپٹل نہ جانے کی سوچ کو پروان چڑھانے میں سوشل میڈیا کے سائنسدانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ ان لوگوں نے سہولیات کی فراہمی کی کوشش کی بجائے ڈھنڈورا پیٹ کر شہر میں مزید منفی سوچ کو بڑھا وا دیا ہے ۔ اس لیے صحت کی سلامتی اور دماغ کی چستی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے عناصر سے دوری بنائے رکھیں۔
        ابھی چند دنوں سے شہر میں کرونا مریضوں کی تعداد کم ہو گئی ہے جس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آخر یہ سوشل میڈیا کے سائنٹسٹ چاہتے کیا ہیں؟ مریض بڑھے تو سازش ، نہ بڑھے تو سازش۔ اتنی منفی سوچ آتی کہاں سے ہے؟یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اب لوگ ڈر کر ٹیسٹنگ کے لیے پہنچ ہی نہیں رہے ہیں۔ جب ٹیسٹنگ ہی نہیں ہوگی تو معلوم کیسے ہوگا؟
        ان سائنسدانوں کی ایک بات پر آپ کی توجہ چاہتا ہوں۔جب ان آسکر ایوارڈ یافتگان کے پاس سازشوں کے اتنے پختہ ثبوت ہیں تو یہ لوگ کورٹ، چیف منسٹر آفس، ڈبلیو ایچ او اَور یونیسف کے دفتر میں دستک کیوں نہیں دیتے ؟ انٹلی جنس بیورو کا سہارا کیوں نہیں لیتے ؟ روزآنہ مضمون لکھ کر شہر میںمنفی باتوں کے پھیلاکی بجائے ٹوئیٹر پر عالمی ایوان تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟جب کہ موجودہ زمانے میں کئی صفحات کے مضمون پر دو سطر کا ٹوئیٹ ہی کافی ہے۔ ایک واٹس ایپ سائٹنسٹ کے مطابق ان کے گھر کے ممبر کو زبردستی سازش کے تحت کرونا پازیٹیو بنا دیا گیا تھا، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ روزآنہ موبائیل پر ہزاروں سازشوں کا خلاصہ کرنے والا سائنٹسٹ ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں لگا سکا کہ ان کے گھر کے فرد کے ساتھ کس نے سازش کی تھی ۔کم میں زیادہ سمجھ لیجیے، ان کی بساط بس اتنی ہی ہے ۔سچائی قبول کریں اور اس وبائی مرض کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں۔
        لوگوں کو چاہیے کہ اگر انھیں ذرا بھی شک ہو تو فوراً ہاسپٹل سے رجوع کریں۔ ٹائیفائیڈ اور نمونیا بول کر کرونا کو نظر انداز کرکے خود بھی ہلاک ہونے سے بچیں اور سوسائٹی کو بھی محفوظ رکھیں۔ مثبت سوچ پیدا کریں۔ جو جیسے ،جس طرز پر کام کر رہا ہے اس میں کیڑے نکالنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ پریشانیوںکو بیان کرنے کی بجائے اس کے خاتمے کی کوشش کریں۔ سائنسدانوں سے گذارش ہے کہ منفی باتیں لکھ کر لوگوں کا وقت اور ذہن خراب کرنے کی بجائے قانونی راستہ اختیار کریں۔ شہر میں کرونا کے آئٹم بم بن کر گھومنے والوں سے گذارش ہے کہ اپنی وقتی تکلیف دیکھ کر شہر کو خسارے میں نہ ڈالیں، از خود ہاسپٹل کا رُخ کریں۔اندھ بھکتی کے خول سے باہر آئیں اور سچائی کو قبول کریں۔ پروپیگنڈہ اور ٹی آر پی سے دور اصل معاملات سے آگاہی کے لیے یوٹیوب پر نوری اکیڈمی کو سبسکرائب اور نوری اکیڈمی ویب سائٹ کو فالو کریں۔ اللہ پاک سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!