ArticlesNEWS/REPORTS/PROGRAMMESNRC/CAB/CAA/NPR
NRC me Dar ki Buniyada Wajah
این آر سی کے متعلق عوام و خواص میں خوف کا ماحول ہماری نا اہلیوں اورغلط فہمیوں کا نتیجہ
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)،مالیگاﺅں
حالیہ دنوں میں مسلمانوں میں ”این آرسی“ اور” این پی آر“ کے تعلق سے چہارسو چہ مگوئیاں بڑی تیزی سے جاری ہیں۔ سوشل میڈیا میں آئے دن طرح طرح کے غلط پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لوگوں میں این آرسی کولے کر اس طرح سے ڈر و خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ کتنوں کا بلڈ شوگر لیول اور بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے ، کئی لوگوں کو ہارٹ اٹیک آ گیا ہے ، بہت سے ذہنی تناﺅ کا شکار ہیں اور مغربی بنگال میں تادمِ تحریر آٹھ لوگ خود کشی کر چکے ہیں۔ مایوسی کا یہ حال ہے کہ جیسے آج ہی ان کو غیرملکی سمجھ کر ملک سے نکالا جارہا ہے۔کسی بھی ملک کے لیے کسی بھی ایک انسان کو اپنے ملک سے باہر کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے ،اگر کوئی ملک کسی بھی باشندے کو غیر ملکی قرار دے کر کسی دوسرے ملک بھیجنا چاہتا ہے تو پہلے اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس ملک کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ ہوا بھی ہے یا نہیں؟، ڈپورٹ پالیسی پر دونوں ملک رضا مند بھی ہیں یا نہیں؟،انھیں”یو این “کی منظوری حاصل بھی ہے یا نہیں؟اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو ہزاروں لاکھوں برما کے باشندوں کے لیے کئی ملکوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ، مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ درآمد اور برآمد کے متعینہ اصول وضوابط ہوتے ہیں جن کی پاسداری سبھی ملکوں پر لازم ہے ۔
دراصل یہ حالات کچھ نا اہلیوں اورچند غلط فہمیوں کی بنیاد پر پیدا ہوگئے ہیں۔غلطی ہماری بھی ہے ، اب ہم کسی ماہر شخص یا کتابوں سے علم حاصل نہیں کرنا چاہتے ، ہر کسی نے سوشل میڈیا پر اکتفا کر لیا ہے ۔اسی سوشل میڈیا کی دو ویڈیوز نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے ۔ پہلی ویڈیو معروف صحافی ”وِنود دُوا“ کی ہے جس نے قوم میںڈر ، خوف اور مایوسی پھیلانے میں اپنا کمال کردکھایا ۔ہمیں ان کے مقصد اور نیت پر کلام نہیں کرنا ہے مگر انہوں نے این آر سی اور مسلمانوں کے تعلق سے جاری اس ویڈیو میں طرح طرح کی ایسی باتیں کی کہ لوگوں نے ابھی سے انھیں سچ مان لیا۔ڈِٹینشن کیمپ کی تعمیر کی تجویز اور این آر سی کے تعلق سے ایسے حقائق پیش کیے کہ لوگ بہت زیادہ سہم گئے اور خوف و ہراس کا ماحول ہر سو چھا گیا۔
دوسری ویڈیو الیکشن کی تشہیر کے دوران موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ کے بیان پر مبنی ہے جس میں انہوں نے یہ بیان دیا کہ وہ جلد ہی ”سٹی زن امینڈمنٹ بل“ لانے جا رہے ہیں جس میں بغیر کسی ثبوت کے ہندو ، جین ، سکھ ، بودھ، پارسی اور کرسچن شرنارتھی (مہاجرین ) کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور اس کے بعد پورے ملک میں ” این آر سی“ نافذ کی جائے گی ۔اس ویڈیو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ این آر سی کا نفاذ صرف مسلمانوں پر ہوگا ۔ اس بیان میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر فی الوقت ان کا یہ بیان بالکل ہی سیاسی اور زبانی ہے جس کا اب تک کوئی بھی تحریری ثبوت نہیں ہے۔مگر اس بل کے تحت31 دسمبر 2014ءتک پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے 6 مذاہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ اس فہرست سے صرف مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔پہلے بھارتی شہریت کے لیے ملک میں 12 سال گزارنا ضروری تھا لیکن اس قانون میں یہ مدت محض6 سال کردی گئی ہے۔ بھارتی شہریت کے لیے ان لوگوں کے پاس قانونی دستاویز ہونا بھی ضروری نہیں، اگر وہ غیر قانونی طریقے سے بھی ملک میں داخل ہوئے ہیں تب بھی انہیں شہریت دی جائے گی۔ ان لوگوں کو شہریت دینے کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے اس سے پہلے ملک میں شہریت کے لیے مذہب شرط نہیں تھا۔
اسی کے ساتھ سٹی زن رجسٹریشن کے رجسٹرار جنرل وِ ویک جوشی کے دستخط سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق آسام کو چھوڑ کر ملک بھر میں یکم اپریل 2020ءسے 30 ستمبر 2020ءکے درمیان (شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈزجاری کرنا) قواعد ، 2003 ، شہریت کے اصول 3 کے ذیلی اصول (4) کی پیروی میںمرکزی حکومت نے گھر گھر گنتی کے لیے رجسٹر اور فیلڈ ورک کرکے ڈاٹا جمع کرتے ہوئے آبادی رجسٹر(NPR) کو تیار کرنے اور اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہر دس سال پر ہندوستان میں مردم شماری کا کام ہوتا رہا ہے۔ اس بار 2021ءمیں مردم شماری کا سال ہے اور اس کے لیے ایک سال پہلے سے ہی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔
مذکورہ چیزوں کو بنیاد بنا کرپرنٹ میڈیا ، الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں آڈیو ویڈیو بیانات کا سلسلہ جاری ہے، خوامخواہ لوگوں کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے زبانی بیان کے علاوہ کوئی ٹھوس بات یا واضح تحریر سامنے نہیں آئی ہے، آسام کے علاوہ ابھی تک کسی بھی ریاست کے لیے نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ کسی شہری کے ہندوستانی باشندہ ہونے کے لیے کون کون سے اور کتنی مدت قبل کے دستاویز درکار ہوں گے، اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی ڈیڈلائن کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں دوسری غلط بیانی یہ کی جارہی ہے کہ این آرسی سسٹم صرف مسلمانوں کے لیے ہی ہوگا حالانکہ آسام میں جہاں سے یہ معاملہ شروع ہوا، جہاں لاکھوں گھس پیٹھئے ہونے کا پروپگنڈہ کیا جارہا تھا وہاں بھی این آر سی میں ہندو مسلم سب شامل ہیں، پتہ چلاہے کہ وہاں مسلمانوں سے زیادہ ہندو ایسے ہیں جن کے پاس مکمل شہریت کے دستاویز نہیں ہیں۔
در اصل اس قسم کے بیانات ، تعلیم کی کمی ، سسٹم میں مسلمانوں کی غیر موجودگی ، اپوزیشن کی بے اعتنائی اورمسلم قائدین کی خاموشی کے سبب لوگوں میں خوف کا عالم ہے ، خوف بھی ایسا کہ عام انسان ہی نہیں دینی ، ملی، سماجی تنظیموں کے قائدین اور دانشوروں میں بھی کھلبلی سی مچ گئی ہے اور نشستوں کا اہتمام بھی ہونے لگاہے ۔ دراصل کئی غلط فہمیوں کی بنیاد پر سراسمیگی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل اطمینان سے آرائش کے ساتھ یونہی بغیر منصوبہ بندی کے زندگی گذارتے رہو جیسا کہ ہماری عادت ہے ، بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کریں، ایسی کوئی مصیبت نہیں جس کا حل موجود نہیں، صدیوں سے ہم نے جو غلطیاں کی ہیں اسے سُدھارنے میں کچھ وقت اور بہت ساری تکلیفیں توآنا لازمی ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پُر سکون ہو کر صبر کے ساتھ عملی اقدامات کریں۔ دینی ، ملی ، سیاسی اور سماجی مصلحین اور اپنی بزم میں خود کو قائد سمجھنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ پہلے خاطر خواہ معلومات حاصل کریں اس کے بعد ہی بیان بازیوں کا سلسلہ دراز کریں ، قوم کو صحیح راستہ بتانے کی بجائے خوامخواہ ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت نہ کریں۔