ArticlesAtaurrahman Noori ArticlesNEWS/REPORTS/PROGRAMMESScience/G.K./Days
UAPA Bill is more dangerous to TADA and POTA
یو اے پی اے بل کی منظوری کے بعد فردواحد کو دہشت گردقرار دینے کی اجازت
یو اے پی اے بل کی منظوری کے بعد فردواحد کو دہشت گردقرار دینے کی اجازت
ٹاڈا اور پوٹا سے بھی سخت قانون ہے یو اے پی اے بل مگر حالیہ دنوں میں مختلف قراردادوں کی منظوری کے سبب اسے فراموش کیاجا رہا ہے جس کا خمیازہ مستقبل میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔
از:عطاءالرحمن نوری ، مالیگاوں(ریسرچ اسکالر)
گذشتہ چند سالوں سے ہندوستانی پارلیمنٹ میں نت نئے قوانین و ضوابط بنانے کے ساتھ ساتھ قدیم قوانین میں ترمیم کا سلسلہ دراز ہے۔جیسے: جی ایس ٹی بل ، طلاق ثلاثہ بل ، موٹر وہیکل ایکٹ بل،آرٹیکل 370، اور ”اَن لاءفل ایکٹی ویٹیز پروینشن امینڈمینٹ بل “ وغیرہ ۔اَن لاءفل ایکٹی ویٹیز پروینشن امینڈمینٹ بل یعنی ”یو اے پی اے “ پُرانے قانون میں ترمیم کی ایک شکل ہے ۔ ہندوستان میں ”غیر قانون سرگرمیاں ایکٹ “ ایک قانون ہے جو ملک میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ملک کے اتحاد ،آزادی اور خود مختاری کو کمزور کرنے والی سرگرمیوں پر لگام لگانا تھا۔ نیشنل اینٹی گریشن کونسل کی متعین کردہ نیشنل اینٹی گریشن اینڈ ریجنلزم کی متفقہ سفارشات کو حکومت ہند کی تصدیق ملنے کے بعد آئین ہند (16ویں ترمیم) ایکٹ1963ءنافذ کیا گیا جس کی رو سے بھارتی پارلیمان کو قانونی طور پر ملک کی سا لمیت، خود مختاری کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر معقول پابندی عائد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا
(۱) تقریر و اظہار کی آزادی۔
(۲) امن پسندانہ اور بغیر ہتھیار کے جمع ہونے کی آزادی۔
(۳) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کی آزادی۔
اس بل کا مقصد ہندوستان کی سا لمیت اور خود مختاری کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کا قلع قمع کرنے کا جواز فراہم کرنا اور اس کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ بل دونوں ایوانوں میں منظور ہونے کے بعد 30 دسمبر 1967ء کو صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرگیا۔ مندرجہ بالا ایکٹ میں کئی مرتبہ تبدیلی کی جا چکی ہے
جیسے :1969ء،1972ء،1986ء، 2004ء، 2008ء، 2012ء اور 2019ء میں اس بل میں تبدیلی کی گئی ہے ۔
ہندوستانی پارلیمنٹ نے” غیر قانونی سرگرمیاں ترمیمی بل“ کو 24 جولائی 2019ء کو لوک سبھا میں منظور کیا اور 2 اگست 2019ء کو راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کہ باجود بھی منظور کر لیا گیا ہے کیونکہ علاقائی پارٹیوں نے اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے موجودہ حکومت کی حمایت کی جس میں بنیادی طور پر اس ترمیم پر اعتراض کیا گیا تھا۔ اس بل کے تحت ایک فرد کو دہشت گرد کے نام سے موسوم کرنے کی اجازت ہے اور اس ایکٹ کے غلط استعمال ہونے کا امکان ہے۔ اس بل کے حق میں 147 اورمخالفت میں 42 ووٹ پڑے ۔ بل منظوری سے پہلے اپوزیشن کی طرف سے بل کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کوبھی شکست کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کے حق میں 85 ووٹنگ اور مخالفت میں104 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ اس ایکٹ کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم ضروری ہیں کیونکہ” این آئی اے“ اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کو دہشت گردوں سے پہلے چار قدم آگے ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک آدمی کوبھی دہشت گرد رقرار دینے کا جواز پیش کیا ۔اب تک صرف تنظیموں یا اداروں ہی کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا تھا۔ ایوان میں اس بات پر زور دار بحث ہوئی کہ جب تنظیم پر پابندی عائد کرنے کا قانون ہے تو پھر فرد کو دہشت گرد قرار دینے کا کیا مطلب؟ اس پر کہا گیا کہ کئی دہشت گرد چند سالوں کے بعد تنظیم سے علاحدہ ہو جاتے ہیں مگر ان کی حرکتیں قائم رہتی ہیں اور فرد کو دہشت گرد بولنے کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا ہوتا تھا۔ امت شاہ نے کہا کہ اگر یہ قانون پہلے سے موجود ہوتا تو انڈین مجاہدین کا بانی یاسین بھٹکل کو کئی سالوں پہلے سزا ہوجاتی تھی کیوں کہ انڈین مجاہدین تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا مگر فرد کو دہشت گرد قرار دینے میں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ واضح ہو کہ ”این آئی اے“ کورٹ حیدرآباد نے یاسین بھٹکل کو 19دسمبر2016ء کو پھانسی کی سزا سنائی ہے ۔ کسی فرد کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے بعد اسے بڑی آسانی سے سزا سنائی جا سکتی ہے کیوں کہ اس کیس کے بعد ہندوستانی شہریوں کو حاصل تمام بنیادی سہولتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
ایوان کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ کانگریسی لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ ان کی پارٹی ”یو اے پی اے“ کی ہرگز مخالفت نہیں کررہی ہے کیونکہ اسے کانگریس کی زیر قیادت حکومت نے لایا تھاکوئی بھی ہماری طرف انگلی نہیں اٹھا سکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ دہشت گردی سے نرم ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان میں ترمیم شدہ بل کی کچھ دفعات پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ چدمبرم نے کہا کہ غیر قانونی سرگرمیاں اور دہشت گردی کی سرگرمیاں الگ الگ ہیں لیکن اس بل میں فرق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔چدمبر نے کہا کہ ایک اکیلے انسان کو دہشت گرد قرار دینے والے اس بل کے مستقبل میں منفی اور سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
اس بل کے مطابق حکومت ہندکے خلاف فعل ، تحریر ، تقریر ، علامات اور نمائندگی کی صورت میں دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگا اس لیے عوام وخواص سے گذارش کی جاتی ہے کہ ہر معاملے میں احتیاط کا مکمل خیال رکھیں اور ایک دوسرے کو باخبر بھی کریں۔اُفتاد یہ ہے کہ ہمارے قائدین آئین ہند کی روشنی میں معلومات فراہم کرنے کی بجائے منفی باتوں ،جلسے ،جلوسوں اور احتجاجات کے ذریعے قوم کو مزید پستی اور مایوسی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں، ایسے میں ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ بذات خود ہندوستانی قوانین و ضوابط کا مطالعہ کرے یا اہل علم سے معلومات حاصل کرے اور اسی کی روشنی میں زندگی گذارنے کی کوشش کرے۔ ایسے کسی بھی فرد کے جھانسے میں نہ آئیں جس سے ہمارے ملک کو نقصان پہنچے۔ ایسی تمام حرکات وسکنات سے پرہیز کریں جن کی وجہ سے آپ پر کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کی جا سکے۔ خود بھی محتاط رہیں اور دوسروں کی اصلاح کریں۔