مشرقی تنقید
عربوں میں زمانہ قدیم سے ادبی تنقید کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ طائف کے نزدیک عکاظ میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا جہاں ماہرین فن اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے دار پاتے تھے۔یہاں شاعری کو بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا۔دور دراز سے آئے ہوئے شاعر اپنے اپنے قصیدے سناتے اور جو قصیدہ سب سے زیادہ داد کا مستحق ہوتا اسے سنہری حروفوں میں لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔
عربی ادب کے ان قدیم نمونوں سے عربی معیار ادب کا سراغ مل جاتا ہے۔اس زمانے کی عربی تنقید خاصی متوازن تھی۔یہ نہ تو موضوع کو نظرانداز کرتی تھی نہ اسلوب کو ۔یعنی ضروری تھا کہ شعر میں جو بات کہی جائے وہ اہم ہو اور کہنے کا انداز دل نشین ہو۔
عربوں کی شاعری کے ابتدائی عہد میں بھی موضوع اسلوب کے درمیان توازن موجود تھا۔قدیم عربی شاعری کی خصوصیات میں صداقت،سادگی و سبق آموزی اور ساتھ ہی زبان و بیان کی دلکشی پائی جاتی تھی۔قدیم شعراء عرب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ موضوع اسلوب کی ہم آہنگی اور بات کہنے کا دل نشین انداز اسی وقت ممکن ہے جب شعر کی تکمیل پر غیر معمولی توجہ صرف کی جائے۔دیر تک اس پر غور ہو اور بار بار اس کی نوک پلک سنواری جائے۔عرب کا ایک مشہور شاعر زہیر ایک ایک قصیدے پر سال سال پر محنت کرتا تھا اور اسی لئے اپنے قصیدے کو”سال بھر کی کمائی”کا نام دیتا تھا۔
دور جاہلی اور آغاز اسلام کے شعرا کا کلام صناعی اور رعایت لفظی سے پاک ہے۔حسان بن ثابت اچھے شعر کی تعریف یہ کرتا تھا کہ ‘جب سنا جائے تو لوگ کہہ اٹھے سچ کہا ہے’ حضرت عمر نے زہیر کو سب سے بڑا شاعر کہا اور اس کے کلام کی یہ خوبیاں بیان کیں کہ اس میں پیچیدگی نہیں ہوتی،الفاظ نامانوس نہیں ہوتے اور جب وہ کسی کی تعریف کرتا ہے تو وہ خوبیاں گناتا ہے جو واقعی اس میں پائی جاتی ہیں۔
عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے عربوں کی زندگی میں ایک انقلاب آ چکا تھا۔ان کی زندگی کی ایک اہم خصوصیت– سادگی باقی نہ رہی تھی۔ امیروں اور درباروں کا زمانہ تھا۔خوشامد،مصلحت اور تصنع اب عربوں کی زندگی میں بھی داخل ہوگئے تھے۔شاعری کا رنگ بھی بدل چکا تھا۔یہ تبدیلی ناگزیر تھی کیونکہ پرانے موضوعات کب تک ساتھ دیتے۔
اس لئے ضروری ہوا کہ انداز بیان کا سہارا لے کر ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جائے۔دوسرے عربوں کی بدلی ہوئی زندگی بھی بدلے ہوئے طرز کلام کی متقاضی تھی۔چنانچہ حقیقی واقعات اور فطری جذبات کی جگہ تخیل کی کارفرمائی نے لے لی یعنی عربی شعراء معنی آفرینی اور بات میں بات پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔شاعری میں صنعت گری اور لفظی کار گری عام ہوئ۔اب معنی کی اہمیت کم اور اسلوب کی زیادہ ہوگی۔
درباروں میں علوم وفنون کی قدر تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونانی علوم بھی ترجموں کے ذریعے عربوں تک پہنچ گئے۔ان کتابوں میں ارسطو کی بوطیقا بھی تھی۔یونان اور عرب کے شعر و ادب میں بہت فرق تھا۔بوطیقا میں جن اصناف ادب پر تنقید کی گئی ہے،عرب ان سے ناواقف تھے۔لہذا اس تصنیف کا کوئی زبردست اثر تو نہیں پڑا لیکن تنقید کا ذوق بہرحال پیدا ہوا۔اب عربی ادب میں باقاعدہ تنقید کا آغاز ہوگیا۔
جن نقادوں نے عربی تنقید کے اصول وضع کیے اور عربی ادب کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا ان میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔محمد بن سلام العجمی،ابن قتیبہ،عبداللہ ابن المعتز،قدامہ ابن جعفر،ابن رشیق،ابن خلدون،جاحظ،ابو ہلال عسکری،عبدالقادر جرجانی وغیرہ۔
“طبقات الشعراء” کا مصنف محمد بن سلام العجمی عربی کا پہلا نقاد ہے۔وہ شاعری کو صنعت گری قرار دیتا ہے۔ابن قتیبہ شعر گوئی کے لیے شعوری کاوش اور تراش خراش کو ضروری بتاتا ہے۔وہ ان شاعروں کو سراہتا ہے جو اپنے شعروں پر مسلسل غور کرتے اور ان کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ابن قتیبہ کی تنقید میں توازن پایا جاتا ہے۔فن کو اہمیت دینے کے باوجود وہ معنی کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔
وہ اچھے اور برے کے اعتبار سے شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔اس کے نزدیک عمدہ شعر وہ ہے جس میں لفظ اور معنی دونوں اعلی درجے کے ہوں۔دوسرے نمبر پر وہ شعر آتے ہیں جن میں لفظ اچھے اور معنی بے مصروف ہوں یا معنی عمدہ اور لفظ ناقص ہوں۔سب سے پست درجے کا شعر وہ ہے جس میں نہ لفظ اچھے ہو نہ معنی۔
قدامہ ابن جعفر نے حسن کاری کو شعر کے لیے ضروری قرار دیا۔اور اخلاقی تعلیم کے نظریے کو رد کیا۔اس نے اپنی تصنیف “نقدالشعر” میں لکھا ہے:
“طرز بیان شعر کا اصلی جزو ہے۔مضمون و تخیل کا بجائے خود فاحش ہونا شعر کی خوبی کو زائل نہیں کرتا۔شاعر ایک بڑھئی ہے۔لکڑی کی اچھائی برائی اس کے فن پر اثر انداز نہیں ہوتی”
قدامہ نے جھوٹ کو شاعری کے لیے ضروری بتایا۔اس نے کہا بہترین شعر وہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔مراد یہ کہ مبالغے کے بغیر اعلی درجے کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔
عربی تنقید میں اگلا اہم نام ابن خلدون کا ہے۔اس نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں شعر و ادب کے مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔سب سے پہلے تو اس نے یہ بتایا ہے کہ اہل عرب ہمیشہ شاعری کے قدردان رہے ہیں۔اور عرب معاشرے میں شاعر کو ہمیشہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔اس کے بعد موضوع اور اسلوب کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ابن خلدون اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ معنی الفاظ کے تابع ہیں۔
باتیں تو ہرایک کے ذہن میں موجود ہیں انہیں لفظوں میں منتقل کرنا اور شعر کے قالب میں ڈھالنا ہی شاعر کا کمال ہے۔پھر وہ اپنی بات کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتا ہے۔اس مثال کا ہمارے ادب میں کافی چرچا رہا ہے۔کہتا ہے معانی پانی کی مانند ہیں اور الفاظ پیالے کی مانند۔پانی تو ایک ہی ہے پیالہ بدلتا رہتا ہے کہیں سونے کا ہے، کہیں چاندی کا، کہیں سیپ یا کانچ کا تو کہیں مٹی کا اور اسی کے ساتھ پانی کی حیثیت بدلتی رہتی ہے۔مطلب یہ کہ الفاظ بہرحال اہم ہیں۔
عربی تنقید کے آغاز و ارتقا پر غور کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قدیم عربی شاعری کا اصل سرمایا قصائد کی شکل میں ہے۔لیکن اردو قصیدے کی طرح عربی قصیدہ کی دنیا محدود نہیں۔ان میں عربوں کی پوری زندگی سمٹ آئی ہے۔جس چیز نے ان قصیدوں کو لافانی بنا دیا وہ عربوں کا نکھرا ہوا تنقیدی شعور ہے۔سرعام مقابلے کے سبب جانچنے اور پرکھنے کے عمل،گویا فن تنقید نے جس طرح عربوں میں فروغ پایا اس کی نظیر عالمی ادب میں کم ہی ملے گی۔
قدیم شعراء عرب کی اصل توجہ معنی کی طرف رہتی تھی۔لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ معنی جان ہے تو الفاظ قالب۔اور قالب بگڑا تو جان کی خبر نہیں۔مطلب یہ کہ وہ اسلوب کی طرف سے غافل نہ تھے لیکن نظر معانی پر ہی رہتی تھی۔اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ بات زیادہ واضح اور زیادہ پر اثر ہو جائے۔دوسری بات یہ کہ صداقت عربوں کو بہت عزیز تھی وہ کوئی ایسی بات کہنا یا سننا پسند نہ کرتے تھے جو سچ سے دور ہو۔
بحثیت مجموعی عربی تنقید نگار ادب کے افادی اور اخلاقی پہلو پر زور دیتے رہے۔
(بحوالہ: فن تنقید او ر اُردو تنقید نگاری ، از: پروفیسر نورالحسن نقوی)
- اردو تنقید کا آغاز و ارتقا
- اردو تنقید اور اقسام
- اردو تنقید کا ارتقا
- ادبی تنقید کے اصول
- تنقید اور تخلیق کا رشتہ
- اردو میں متنی تنقید
- رس کا نظریہ
- مشرقی تنقید
- فارسی تنقید
- تاثراتی تنقید
- رومانی تنقید
- جمالیاتی تنقید
- مارکسی تنقید
- ترقی پسند تنقید
- نفسیاتی تنقید
- سائنٹیفک ادبی تنقید
- تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار 2
- افلاطون کی تنقید نگاری
- ارسطو کا تنقیدی نظریہ
- کارل مارکس اور فرائیڈ
- لونجائنس اور دانتے کا تنقیدی نظریہ
- اسلوبیاتی تنقید
- سر سید کے تنقیدی خیالات
- محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری
- الطاف حسین حالی کی تنقید نگاری
- شبلی کے تنقیدی خیالات
- مولوی عبدالحق کی تنقید
- نیاز فتح پوری کی تنقید نگاری
- مجنوں گور کھپوری کی تنقید نگاری
- ابن رشیق کی تنقید نگاری
- آل احمد سرور کی تنقید نگاری
- احتشام حسین کی تنقید نگاری
- کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری
- پروفیسر خورشید الاسلام کی تنقید نگاری
- محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری
- پروفیسر محمد حسن کی تنقید نگاری
- پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تنقید نگاری
- شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات
- وزیر آغا کے تنقیدی نظریات
- پروفیسر قمر رئیس کی تنقید نگاری
- سلیم احمد کے تنقیدی نظریات
- وحید الدین سلیم کی تنقید نگاری
- امداد امام اثر کے تنقیدی نظریات
- ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے تنقیدی نظریات
- عبدالقادرسروری کی تنقید نگاری
- سید سجاد ظہیر کی تنقید نگاری
- فراق گورکھپوری کی تنقید نگاری
- شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
- سید شبیہ الحسن