Malegaon SpecialNEWS/REPORTS/PROGRAMMES

Malegaon me Kitab Mela

 مالیگاوں میں عنقریب کتاب میلہ کا انعقاد، کتاب کلچر کو فروغ دینا ہے مقصد

 مالیگاوں میں عنقریب کتاب میلہ کاانعقاد، کتاب کلچر کوفروغ دیناہے مقصد

از:عطاءالرحمن نوری،(ریسرچ اسکالر)مالیگاوں

    انٹرنیٹ کی وجہ سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ کتب بینی کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ لوگ اب دوکانوں اور کتب خانوں میں جاکر کتابیں، رسائل اور ناول پڑھنے کی بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں لیکن رات دن انٹرنیٹ پرچیٹنگ اور فضول و عشقیہ ایس ایم ایس کرنے اور پڑھنے میں انہیں کمال حاصل ہیں جس کی وجہ سے مطالعہ کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے۔ کتاب بینی میں کمی واقع ہونے کی وجہ صرف انٹرنیٹ اور کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ موبائل فون بھی ہیں۔ جب سے لوگوں میں اِن جدید ذرائع کے استعمال کی شرح بڑھی ہے، کتاب اور اس کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں ذوق مطالعہ کی کمی ہے ۔

 اگرچہ انٹرنیٹ کی بدولت ای لرننگ یا ای ایجوکیشن کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں مگر نوجوان ان سہولیات کا فائدہ اٹھانے کی بجائے انٹرنیٹ کے دیگر فضول استعمالات میں لگے رہتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے لیے اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ابھی بھی کتب بینی کا رجحان موجود ہے اور اس کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی بدولت معلومات کا جو ایک سیلاب آیا ہے اس میں بہت سا علم بھی بہہ گیا ہے۔ اب ہم لوگ معلومات تو بہت سی رکھتے ہیں لیکن علم میں ہم پیچھے چلے گئے ہیں، تحقیق کرنا تو جیسے بھول ہی گئے۔ معلومات کے اس بہاو سے جو انٹرنیٹ کی صورت میں رواں دواں ہے ایک نئی نفسیاتی بیماری نے جنم لیا ہے جسے انفارمیشن فیٹگ سنڈروم کہا جا تا ہے جس کے مضر اثرات میں سب سے اہم قوت فیصلہ میں کمی ہے۔ ہم تلاش کچھ اور کرنے نکلتے ہیں اور یہ جادوئی نگری ہمیں کہیں کی کہیںلے جاتی ہے۔ ایک چیز کو پوری طرح ہضم کیے بغیر دوسری کی طرف دوڑتے ہیں، سائٹ پر سائٹ کھلتی چلی جاتی ہے اور آخر میں سارا کچھ ادھورا چھوڑ
کر برازر بند۔

     انٹرنیٹ کو ایک ای لائبریری کہا جاتا ہے جہاں ہر قسم کی معلومات اور کتاب محفوظ ہے۔ انسان جب چاہے انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرسکتا ہے مگر یہ تمام باتیں پڑھنے لکھنے اور آگاہی حاصل کرنے والوں کے لیے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ان تمام سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں، زیادہ تر کے لیے کتابی شعور صرف کتابوں تک محدود ہے۔ یعنی الیکٹرانک میڈیا ترقی کی کتنی ہی منزلیں سر کرلے، کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کہتے ہیں کتاب سے بہتر کوئی رفیق نہیں، کتابیں زندہ بھی ہوتی ہیں، زندہ حروف، دھڑکتے لفظوں اور مہکتے جملوں والی کتابیں، مری ہوئی روح کو زندہ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ کتابیں ہنستیمسکراتی ہیں، روتی بھی ہیں، رلاتی بھی ہیں، بہترین غمگسار ،رہنما، مشیر، بروقت جگانے ، ہلانے جھنجوڑنے
والی، ڈرانے والی، اٹھانے والی اور سنبھالنے والی بھی ہوتی ہیں، ایسی کتب کو سینے سے لگاکر رکھنا چاہیے۔ 

 زندہ قومیں کتاب دوستی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کتابوں کی ترویج واشاعت اور فروغ کے لیے ہمہ وقت اقدامات کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے کتاب کلچر آخری سانسیں لیتا محسوس ہورہا ہے، لائبریریاں کتابوں کا مدفن بن چکی ہیں اور اکثر ویران دکھائی دیتی ہیں، کتاب کلچر کے فروغ جیسے سنجیدہ کام کی طرف کس کا دھیان جائے۔ دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کاغذ اور اشاعتی میٹریل بھی مہنگا کردیا گیا ہے، سو، کتابیں مزید مہنگی ہورہی ہیں۔ یہ ساری باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ مالیگاوں میں ایک مرتبہ پھر کتاب میلہ لگانے کی بات چل رہی ہے ۔ یہ کتاب میلہ پچھلے چند برسوں سے مختلف اداروں اور ایجنسیوں کے ذریعے تواتر کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔
 اس کتاب میلے میں ہندوستان کے کئی اہم اشاعتی ادارے اپنے اسٹالز لگاتے ہیں۔ 
کتاب میلے میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔
یہاں کتاب دوستوں کے لیے ایک ہی چھت کے نیچے سبھی پبلشرزکی کتب دستیاب ہوتی ہیں۔ کتب کے ساتھ ساتھ ا سٹیشنری اور بچوں کے لیے سکول کی ضروری اشیاءاور کھانے پینے کے اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں پبلشراپنے مصنفین کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ میلے میں تخلیق کار اور لکھاری بھی دکھائی دیتے ہیں، بعض اسٹالز پر ادیب اورشاعر قارئین کو اپنی کتب آٹوگراف کے ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ کئی نئی کتابوں کا اجراءبھی عمل میں آتا ہے۔ اسکولی طلبہ و طالبات اساتذہ کرام کی رہنمائی میں کتاب میلہ کا نہ صرف معائنہ کرتے ہیں بلکہ ذوق وشوق سے متعلق اور نصاب سے منسلک کتابوںکی خریداری بھی کرتے ہیں۔

 

    عنقریب مالیگاوں میں منعقد ہونے والے کتاب میلہ کا مقصد معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ دینا ہے۔ لوگوں کو علم وشعور کی طرف اسی راستے سے راغب کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں جس گھر میں کتابیں نہیں وہ ویران ہے۔ کتابوں کے بغیر گھر گھر نہیں ہوتا۔ آئیے کتاب دوستی کے لیے ہم سب اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ پبلشرز حضرات کو دگنا منافع کمانے کے بجائے کتاب کی اشاعت کو ایک مشن سمجھنا چاہیے۔ ایک اور بات یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ پبلشرز کاغذ، کمپوزنگ ،پرنٹنگ ،بائنڈنگ حتیٰ کہ مارکیٹنگ کرنے والوں کو بھی معاوضہ دیتے ہیں مگر مصنف جس کے لفظوں سے کتاب تیار ہوتی ہے اسے ٹرخا دیا جاتا ہے اور بعض اوقات چند کتابیں دے کر مصنف کو ٹھنڈاکردیا جاتا ہے۔ پبلشرز کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
بیشتر اہل قلم اپنی کتابیں خود شائع کرتے ہیں، ایسے میں اشاعتی اداروں کو کتاب کی سرکولیشن میں معاون ثابت ہونا چاہیے مگر پبلشرز صرف اپنی شائع شدہ کتابوں پر توجہ دیتے ہیں۔اہل قلم کے لیے اگر ہمارے علمی ادبی ادارے خاص طورپر اکادمی کوئی منصوبہ بندی کریں کہ ہرمصنف کی پچاس پچاس کتب نقد خرید لیں تو بھی لکھنے والوں کا خرچہ پورا ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے اداروں کی سنجیدگی ضروری ہے۔ یہاں تو کتب پر ایوارڈ اور قومی ایوارڈ بھی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دھڑے کے ادیبوںاور شاعروں کو دیتی ہیں۔ جس جماعت کی حکومت ہو وہ اپنے دھڑے کے مصنفین کو نوازتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے، کتابوں کی قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ عام آدمی کے لیے سستی و معیاری کتابوں کا حصول آسان ہو اور غریب عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور عادت کو پختہ کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!