ArticlesNotesPh.D.

قلمی سفر کے مرحلے آسان ہوگئے

Qalmi Safar

قلمی سفر کے مرحلے آسان ہوگئے

 

مضمون باندھنا، مضمون آفرینی اور مضمون نگاری میں بڑا فرق ہے لیکن نتیجہ ایک ہے کیوں کہ جب تک ذہن میں کوئی بات اور انوکھی فکر نہیں آتی، اس کو کسی مرتب تحریر اور باضابطہ نظم میں پرونے کی نوبت نہیںآتی اور جوں ہی آتی ہے کہ مضمون اور شعرتیار ہوجاتا ہے اور ہم شاعر اورمضمون نگار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہم بہت اچھی انوکھی اور پیغام آفریں بات کریں اور گفتگو کے رنگ جمائیں ’’مقال‘‘ سے آگے بات نہیں بڑھتی لیکن جیسے ہی ہم اپنی گفتگومیں ’’ قلم‘‘ کو شامل کرتے ہیں، اسی لمحے ایک ’’مقالہ‘‘ تیار ہوجاتاہے۔

خلاصہ یہ کہ اپنی بات کو منظم اور مرتب شکل اور تحریری صورت میں پیغام آفریں اور معلوماتی بناکر پیش کرنے کانام ’’مضمون نگاری‘‘ ہے۔ اسی کو مقالہ نگاری کہتے ہیں اور موضوع کے ایک، دوگوشے کو عنوان بناکر مضمون لکھتے ہیں تو ایک مختصر مضمون و مقالہ کہلاتاہے لیکن موضوع کے ہر جہت اور ہر گوشے کا احاطہ کرکے کوئی جامع اور تفصیلی تحریر لکھتے ہیںتو، اسے تحقیقی مقالہ کہیںگے۔ اس لیے اِس مرحلے میں دِقتیںزیادہ ہوتی ہیں، ان دِقتوں کے درد سے راحت پانے کے لیے عطاء الرحمن نوری کا یہ کتابی نسخہ کارآمد ہے۔

اصطلاحوں کی بھی اپنی عجیب شان ہوتی ہے کہ نوزائید گی کے اولین مرحلے ’’انشائیہ‘‘ کو بھی مضمون ومقالہ کی قطار میں رکھاگیا ہے، جب کہ باتیں ابھی ذہنوں سے نکل کر قلموں کے ذریعہ باضابطہ تحریر کی صورت میں وجود میںآرہی ہوتی ہیں اور یہی ’’انشاء‘‘ ہے۔ اتفاق سے لغوی اعتبار سے بھی ’’انشاء ‘‘ وہ کتاب ہے جس میں خط وکتابت کے قواعد اور خطوط ہوں۔ اِس کے باوجود ایک ’’انشاپرداز‘‘ کو مضمون نگار کہتے ہیں جس میں ’’عبارت آرائی‘‘ کی شان اور خو،بوموجود ہو جب کہ ’’انشا پردازی‘‘ کو مضمون نگاری کہتے ہیں۔’’انشائیہ‘‘ علم نحو میں اسی جملے کو کہتے ہیں جس میں سچ اور جھوٹ کا احتمال نہ ہو، یعنی سچ ہی سچ ہو، لیکن بے بنیاد، فرضی،جھوٹی اور طویل باتوں کی سرگزشت کو تحریری صورت میں کسی جامع مضمون کو ’’افسانہ‘‘ کہتے ہیں اور قلم سے تحریری صورت میں ایسے انشائی عمل کو ’’داستان گوئی‘‘ کہتے ہیں حالاں کہ کہنے کا تعلق زبان سے ہے نہ کہ قلم سے۔ اِس طرح سمجھ میں آیا کہ اصطلاحی مزاج کی اِس انوکھی روایت کے تحت ہی ہم ’’نعت لکھنے‘‘ کی غلطی کرتے ہیں حالاں کہ نعت کہی جاتی ہے، اسی لیے یہ اعزازی خطاب بھی مانوس ومرغوب لگتا ہے کہ اُردو زبان کے ’’امام نعت گویاں‘‘ اعلیٰ حضرت رضاؔ بریلوی تھے۔

جنون اور جنونی میں جو فرق ہے، وہی فرق ہمارے اور کتاب کے مؤلف میں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنون عیب ہے جب تک کہ دیوانگی اور پاگل پن ہے لیکن جب ’’کسی چیز کی دھن‘‘ سوار ہوگئی تو پھر عیب نہ رہا، خوبی ہوگیا۔ ایسے ہی ایک جنونی کانام ہے ’’عطاء الرحمن نوری‘‘ اِس لیے اب ہم مؤلف کو محب گرامی عطاء الرحمٰن نوری کہتے ہیں تو بڑا اچھا لگتاہے کیوں کہ ایسے ’’جنونی‘‘ کو سبھی اپنا ’’محب گرامی‘‘ بنانا پسند کریںگے۔جانتے ہیں کیوں؟ اِس لیے کہ پڑھنے کے زمانے میںاِس کی اُس کی نوٹ سے امتحان کی تیاری کرکے پاس ہوجانا ہمارے جیسے سبھی صاحبانِ جنون کا شیوہ ہے لیکن نوٹ کو Notable بنانے کی غلطی بہت کم جنونی کرتے ہیں اور یہی تاریخی غلطی ہمارے محب گرامی عطاء الرحمن نوری نے انجام دی ہے۔

اب اِس جنونی کی ایک تصویر آپ کو دِکھانا چاہتے ہیں جو ہمارے قدرتی کیمرے میں محفوظ ہے۔ 11؍نومبر2016ء کی رات ہے۔ تین بجے شب کے قریب ہم اپنی خواب گاہ سے برابر والے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کمرے کی بتی جلاتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آجاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ عطاء الرحمن صاحب ……………………………………….. نہیں ہے پھر محسوس ہواکہ دائیں کروٹ سو، رہے ہیں، اس لیے …………………….. ہم نہیں دیکھ پا رہے ہیں لیکن جب الماری کھولی تو ہمارا دایاں پیر کسی چیز سے ٹکرایا جس سے ٹھک سے آواز آئی، اُس وقت وہ گہری نیندمیں تھے۔ ہم نے دیکھا کہ جسم سے الگ تھلگ ایک …………. بھی دراز ہے۔ تب ہوش آیا کہ محب گرامی، …………… ہیں۔ فجر کے وقت وضو کے لیے غسل خانہ کی طرف گئے تو پھر پہلے کی طرح پورا مکمل نوجوان دیکھا۔ ہم نے دریافت کیا تو بتایا کہ نوعمری میں یہ ایک حادثے کانتیجہ ہے۔ یہ قیام گاہ ہمارا کرایہ خانہ ہے، بٹلہ ہائوس جامعہ نگر دہلی میں راجدھانی اپارٹمنٹ۔ جناب والا اُس دن مارہرہ شریف سے ’’ارباب صحافت وخطابت کے نمائندہ اجلاس‘‘ میں شریک ہوکر مالیگاؤں واپس ہورہے تھے تو دہلی میں ’’جنت اپارٹمنٹ‘‘ کے پاس ہماری قیام گاہ میں پڑاؤ کیاتھا۔

تحریر وقلم کے رشتے دار، نوجوان قلم کار، صاحب الرائے مضمون نگار محب گرامی وقار عطاء الرحمن نوری، ابھی طالب علم ہیں، نوخیز ادیب ہیں، سنجیدہ خطیب ہیں،ایک درجن چشم کشا چھوٹی چھوٹی کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں، محقق تسلیم کیے جانے والے ہیں، سوادِ اعظم اہل سنت وجماعت کے روشن مستقبل ہیں’’بہارِ سنت‘‘کے قلمی نقیب اور ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے عملی نمائندے ہیں، سنی دعوت اسلامی کی 20؍ سالہ خدمات کے تعارف نگار ہیں، ملکی وغیر ملکی رسائل وجرائد کے آزاد، غیر مستقل کالم نگار ہیں اور مخلص وخود دار ہیں۔ موصوف اِس معنی کہ مسلمان نہیں کہ کسی کے ایمان وعقیدہ اور مذہب ومسلک کے پیچھے پڑے رہیں بلکہ آج کل خود بہتوں سے پیچھا چھڑا کر نجات یافتہ سنی حنفی نوری مسلمان بنے رہنا چاہتے ہیں تاکہ ’’تاریخ وتحقیق‘‘ کی وہ خدمت کرسکیں جو ہمارے اسلاف کی روایت اور سنت رہی ہے۔ اپنے ہم عصروں میں کردار وعمل کی بنیاد پر ممتاز ہونے کی کوشش کرنا بھی ہمارے بزرگوں کی سنت ہے کہ ’’نیکی اور خوش عملی سے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔‘‘ اُن کی یہ کتاب بھی اسی سوچ کا نمونہ ہے۔ تحقیق وتدوین کی اُردو دنیا میں’’اُردو اصناف ادب‘‘ کے بعد مؤلف کی یہ دوسری علمی کاوش ہے جسے نوجوانوں کی رہنمائی کاقابل قدر نمونہ بلکہ دوسرے نوجوان محققین کے لیے ’’نمونۂ عمل‘‘ بھی قرار دے سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیبوںکے صدقے اِس نوجوان کے حوصلے بلند رکھے اور اُس کے حوصلے کو سبھی نوجوانانِ اہل سنت کے لیے متعدی حوصلہ بنادے۔آمین

اِس نوجوان پر رشک ہوتا ہے کہ اس نے سفید عمامہ شریف کی ’’سنت‘‘ بھری نوجوانی کو ایسی روش پر ڈالا ہے کہ ہمارے لیے درس عبرت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ تعلیمات وجامعات کی عصری دنیا میں آتے ہی مذہبی دینی شناخت کو ’’طلاق مغلظہ‘‘ دے ڈالتے ہیں یا پھر کم سے کم ’’طلاق رجعی‘‘ تو ضرور دیتے ہیں اور مذہبی تشخص کو کسی ’’مقام کے حصول ‘‘ پر معلق رکھتے ہیں لیکن پھر اُن کی شناخت وہی بن جاتی ہے لیکن یہ نوجوان اپنی اِسی شناخت اور تیور کے ساتھ عصری ترجیحات کی اِس دنیا میں داخل ہورہا ہے اور کامیابی کے ساتھ ہر دن اُس کے ایمان وعقیدے میں پختگی آرہی ہے۔ اللھم زدِ فَزِد۔

ابھی آپ کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے، وہ محققین کے لیے یقینی وسیلۂ ظفر ہے جس میں انھوں نے تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سبھی مراحل کی نشاندہی کی ہے اور مسائل کا حل بھی پیش کیاہے اور تحقیق کی حقیقت اور باعتبارِ منہج اقسام تحقیق ، تنقید واقسام تنقید، معیار تحقیق، مدت وموضوع اور مصادر ومقاصد کے اعتبار سے اقسام تحقیق، محقق اور نگراں کی خوبیاں اور خصوصیات، تحقیق کے مناسب اور غیر مناسب موضوعات، تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب اور خاکہ نگاری، کتب خانوں اور لائبریریوں کے اقسام اور لازمی اسباب، متعلقہ کتابوں کی تقریبی اصناف بندی، حوالہ دینے اور حاشیہ لگانے کی ترکیب ، مخطوطہ شناسی اور تدوین وتعلیق جیسے تقریباً سبھی بنیادی مراحل کو ترتیب وار جمع کرکے مؤلف نے کتابی شکل دی ہے بلکہ تکمیل کے بعد مقالہ کی حروف سازی، تصحیح اور آخری مرحلہ ’’کتابی شکل‘‘ کے مرحلے بھی حل کیے ہیں۔ اِس خشک موضوع پر مؤلف کی یہ خدمت بجائے خود ایک تحقیقی کام ہے، گویا مؤلف اِس مرحلے سے گزرکرکوئی باضابطہ ’’ڈگری‘‘ تو نہیں رکھتے لیکن انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے محققین کے لیے ’’ڈگر‘‘ ضرور دِکھائی ہے۔

اِس کتاب کی تدوین وترتیب اور طباعت واشاعت پر ہمیں جتنی خوشی ہورہی ہے، اتنی ہی خوشی اِس بات پر ہورہی ہے کہ اس کی اشاعت وطباعت کی پیش کش مالیگائوں کے رحمانی پبلی کیشن نے کی ہے اور مالیگائوں کے ’’اُردو کتاب میلہ‘‘میں اس کی رونمائی ہوگی۔ اِسے بھی ہم سنہرا موقع کہتے ہیں اور سوادِ اعظم کا معنی بھی یہی ہے کہ بڑی جماعت کے ہر طبقہ کے ساتھ قائدانہ کردار میں ہم ہر محاذ پر موجود ہوں تا کہ ہمارے وجود کا باضابطہ احساس ہوتا رہے۔ نوری بھائی قابل مبارکباد ہیں کہ ایم۔اے (اُردو) نیٹ، سیٹ، پیٹ، یوپی ایس سی اور کئی ایک دوسرے مقابلہ جاتی امتحانات میںحصہ لینے والے نوجوانوں کی رہنمائی کا منصوبہ بنایاہے۔ اللہ تعالیٰ مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔آمین

مزید لکھنے اور آپ کا وقت لینے کی ضرورت نہیں، اب صرف اتنا کہیں گے کہ

رحمن کی عطا سے ملی فکر و فن کی آگہی
قلمی سفر کے مرحلے آسان ہو گئے

’’قلم‘‘ اللہ کی امانت اور قلم کار’’قلم‘‘ کے امین ہیں، کے عنوان سے نوری بھائی نے جو ’’ابتدائیہ‘‘ لکھاہے، اس پر اضافی مبارک باد۔

محمد ظفرالدین برکاتی
مدیر اعلیٰ ماہ نامہ کنزالایمان دہلی/ریسرچ اسکالر شعبہ علوم اسلامی ، ہمدرد یونیورسٹی،دہلی
22؍محرم الحرام 1439 ھ/13؍ اکتوبر2017ء بروزِ جمعہ، دہلی شریف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!