مرثیہ(مضراب شہادت1951 )
یہ مرثیہ سیدا شہدا کے حال میں ہے۔
یہ مرثیہ عرفان جمیل میں شامل ہے۔اس کو ڈاکٹر صفدر حسین نے مرتب کیا۔
جنبش سے میرے خامۂ افسوں طراز کی
کھلتی ہے آنکھ اس گرہ نیم باز کی
دم جس کا گھٹ رہا تھا کشا کش سے راز کی
سطریں نہیں، شکن ہیں حجابات ناز کی
دل کے دیئے جلیں گے محبت کے دیس میں
نکلا ہے حُسن لفظ و معانی کے بھیس میں
آواز میں بھی حُسن ہے اور خامشی میں بھی
تنظیم میں بھی حسن ہے، آشفتگی میں بھی
یوں تو ظہور حسن کا ہے راستی میں بھی
اِک بانکپن ضرور ہے لیکن کجی میں بھی
سچ پوچھئے اگر تو بصیرت میں حسن ہے
آنکھوں میں روشنی ہو تو ظلمت میں حسن ہے
لیکن شعور حسن کا اس آگہی کے ساتھ
ممکن نہیں ہے طبع کی آشفتگی کے ساتھ
پنپے گا خاک ذوق نظر مفلسی کے ساتھ
ہوتی ہے فن کی نشو و نما زندگی کے ساتھ
سو بھینٹ چڑھ رہے ہوں جہاں چار کے لئے
اس ملک میں جگہ نہیں فن کار کے لیے
ظلمت کدے میں ہند کے محشر بپا ہے آج
تہذیب اپنے خون سے رنگین قبا ہے آج
رفتار وقت مدعی ارتقا ہے آج
لیکن جو ہو رہا تھا وہی ہو رہا ہے آج
جنس خودی جہاں میں ہے آرزاں اسی طرح
انسان کا غلام ہے انسان اُسی طرح
ہے حکمران عقل پہ دولت ابھی تلک
ایماں کی ہو رہی ہے تجارت ابھی تلک
جاگیر اہرمن کی ہے جنت ابھی تلک
ابلیس ہے معلم فطرت ابھی تلک
پامالی حقوق کا تہذیب نام ہے
انسانیت کی روح کا اک قتل عام ہے
چھائی ہے دل پہ موت کی سردی اسی طرح
ہے چہرۂ حیات پہ زردی اسی طرح
پائے ہوس کی دشت نوردی اسی طرح
ذوق طلب کی میکدہ گردی اسی طرح
احساس کا زوال وہی پستیاں وہی
ساقی وہی ہے جام وہی مستیاں وہی
فطرت وہی ہے گردش لیل و نہار کی
سمٹی ہے ایک باغ میں رونق بہار کی
مٹھی میں ایک شخص کے قسمت ہزار کی
توہین ہے عدالت پروردگار کی
بدلا نہیں نظام مشیت ابھی تلک
کروٹ ہی لے رہی ہے قیامت ابھی تلک
عالم خراب فلسفۂ ناؤ نوش ہے
شاعر ہے اور ماتمِ تمکین و ہوش ہے
احساس کو جمود ہے، فتنوں کو جوش ہے
ہر موج حادثات کی طوفاں بدوش ہے
دنیا تلاش کرتی ہے ساحل نجات کا
دکھلاوے کوئی اس کو کنارہ فُرات کا
جس طرح آج قسمت انساں کو ہے زوال
دورِ یزید میں تھا یہی کچھ عرب کا حال
روحوں کو کرد یا تھا غلامی نے پائمال
مردانِ حق پرست کی تھی زندگی و بال
ایماں فروش مستِ طرب انجمن میں تھے
اصحابِ خیر ، منزل دار و رسن میں تھے
حاکم ہو راہزن تو رعایا کو ہو چین
تھا ہر طرف غریبوں کی دنیا میں شور و شین
افزوں مگر تھی قصڑِ خلافت کی زیب و زین
اللہ کی زمین پہ تاحدِ مشرقین
لہرا رہا تھا گرچہ پھر یرا نشان کا
در بندہ ہو گیا تھا مگر آسمان کا
جوشِ عمل ،نہ ولولۂ خدمت امم
شیران رزم بن گئے تھے آہوئے حرم
اتنا جھُکے کے آہی گیا گردنوں میں خم
مِلتا تھا سب کو بادۂ تسلیم بیش وکم
بھٹّی کھُلی تھی قصر خلافت پناہ میں
خاک اُڑ رہی تھی میکدۂ لاالہ میں
اک عالمِ سکوت میں تھی بزمِ آب وگل
قدرت کا ساز جس کوکہیںآدمی کا دل
پھرہورہا تھا اپنی خموشی سے منفعل
تاروں سے آرہی تھی یہ آواز متصّل
رُوحِ عمل کو لرزش بے تاب چاہیے
مضراب چاہیے ہمیں مضراب چاہیے
مضراب بڑھ کے کردی مہیا حُسین نے
خوں اپنا نبضّ وقت کو بخشا حُسین نے
خوابیدہ قوتوں کو جھنجھوڑا حُسین نے
فطرت کو کردیا تہہ وبالا حُسینؓ نے
اللہ رے صبرسنگ کا دل آب ہوگیا
ہرماجرا فسانۂ مضراب ہوگیا
کعبہ سے وہ سفروہ محبوں کا اضطراب
وہ سخت منزلیں، وہ کٹھن جادۂ صواب
وہ قاصدوں کا قتل، وہ کوفے کا انقلاب
وہ انتشار فوج وہ فہمائشِ جناب
وہ حکم دوستوں کو امامِ غریب کو
انصار کا وہ جوش وہ خطبہ حبیب کا
تقسیم آب و لشکر حُرّ خوش اعتقاد
ریتی پہ نصب خیمہ و رفع شر و فساد
پہرے فرات پر بہ رضائے بنِ زیاد
اک مشک آب کے لیے عباسؓ کا جہاد
درسِ وفا مکالمہ ہرایک عون کا
نعرے وہ اُمّ وہب کے فقرہ وہ جون کا
بچوں کی پیاس سعی وہ اصحاب خیرکی
بہتی ہوئی وہ خاک پہ محنت بریرکی
جُرأت وہ سعد کی وہ سعادت عمیرکی
طاعت وہ ظہیر کی وہ اطاعت زہیرکی
وہ رنج دوستوں کا امام غریب کو
وہ ابن عوسجہ کی وصیّت حبیب کو
تاریخ میں وہ صبح شہادت ہے یادگار
بچّوں کے خوں نے جس میںبھرا رنگ اعتبار
مائوں کی آرزو کہ یہ اُمّت پہ ہوں نثار
انسانیت کوہے انھیں قدروں سے افتخار
رفتارِ ارتقا پہ یہ قدریں گواہ ہیں
تہذیب کے سفرمیں یہی زاد راہ ہیں
سینے سپرکیے وہ بنو عہدِ مطلب
سولہ پہر کی پیاس میں دریا سے مجتنب
چھوٹے سے نیمچے وہ نیاموں میں مضطرب
عارض کے پھول جوشِ شجاعت سے مُلتہب
وہ رخصتیں جدال کی ہاتھوں کوجوڑکے
وہ پھینکنا وغا میں نیاموں کو توڑ کے
تھی دوپہر، شباب پہ تھا رنگِ داستاں
کھولے ہوئے سیاہ علم لشکرگراں
وہ گرم لُووہ دھوپ کی تیزی کہ الاماں
سورج بھی لے رہا تھا دلیروں کاامتحاں
لیکن تپش سے کیا خطر اُن کی نگاہ کو
رَد کردیا جنھوں نے سپرکی پناہ کو
اپنی نظر پہ کیا ہومؤ رخ کواعتبار
صحرا عرب کا خونِ محمدؐ سے لالہ زار
دیکھی نہ ہوگی چرخ نے ایسی کبھی بہار
تربیت پیمبر بطحا کے شاہ
گلگوں کفن مرقع کرب وبلا میں تھے
صف بستہ امتحاں گہہِ صبرورضا میں تھے
بہنوں کا مامتاکووہ بھائی پہ وارنا
بیٹوں کو وہ بھیجتے پہ صدقے اُتارنا
سقے کا وہ ترائی میںتلوار مارنا
بچّی کا دَرسے اپنے چچا کوپُکارنا
نظریں سُوئے خیام چچا کی اک اُس پر
آنسونکل رہے تھے بھتیجی کی پیاس پر
وہ اک جواں کا حملۂ کفّار روکنا
بڑھتے ہوئے ہجوم کا ہربار روکنا
بچّے کا بن کے شہ کے سپر، وارروکنا
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پہ تلوار روکنا
مضرابیں تھیں جمیلؔ اسی سازکے لیے
سوامتحاں اک عاشقِ جاں باز کے لیے
وہ بیکسی وہ تشنہ لبی وہ ہجومِ غم
بچوں کی اورجوانوں کی وہ میتیں بہم
وہ اقتلو کا شور وہ بے تابی حرم
ْخیمے سے العطش کی وہ آواز ومبدم
وہ اک جواں کی لاش پہ سجدہ حسینؓ کا
فطرت بھی دیکھتی تھی کلیجہ حسینؓ کا
اس تشفی میںنہر پہ دوبارجا کے آئے
موجوں کو اپنے صبر کی طاقت دکھا کے آئے
آئے حرم سرا میںتوگھر کو لُٹا کے آئے
پیری میں نوجوانوں کے لاشے اُٹھا کے آئے
زینبؓ کودی صدا کہ مشیّت خدا کی ہے
لے آئو آخری جوامانت خدا کی ہے
لائیں رباب گود میں بچّے کو مرحبا
دولت کوان کی لے کے لے چلے شاہِ کربلا
آوازدی بہن نے کہ بھیّا یہ کیا یہ کیا
فرمایا مُڑ کے ،قرض ابھی تک نہیں چُکا
کیا پوچھتی ہو تم کہ ارادہ کہاں کا ہے
زینبؓ دعاکرو کہ یہ وقت امتحاں کا ہے
جب تک کہ امتحاں کا یہ وقت ٹل نہ جائے
سینوں میںظالموں کے کلیجہ پگھل نہ جائے
آہن کی رُوح ،سنگ کی فطرت بدل نہ جائے
پیشانی غرور سے جب تک کہ بل نہ جائے
سینے پہ اپنے داغ لیے جائے گا حسینؓ
فدیہ اسی طرح سے دئیے جائے گا حسینؓ
ہے یہ مقام صبر کا اے زینبؓ حزیں
ممکن ہے کہ اس کو ذبح کریں رن میں اہل کیں
لیکن مجھے برپ محمدؐ یہ ہے یقیں
فطرت نہ سہہ سکے گی مری ضربِ آخریں
اُکھڑے گی سانس ظلم کی اس کے لہو کے ساتھ
میں اس کو لے چلاہوں بڑی آرزو کے ساتھ
ممکن ہے اس سے قوم کوکچھ زندگی ملے
غفلت کو حِس، جمود کوکچھ بے کلی ملے
غیرت ملے، شعور ملے، آگہی ملے
مستقبلِ حیات کواک روشنی ملے
میں جانتا ہوں مصلحتِ بے نیاز کو
مضراب چاہیے دلِ انسان کے سازکو
یہ طفل جو تتمہ احرار ہے بہن
فرض آج اس کے خوں کا طلب گار ہے بہن
یہ سیرت حسینؓ کا شہکارہے بہن
اس جنگ میں یہی مری تلوار ہے بہن
ہوگی ادا جہاد کی سنّت اسی سے آج
جیتے گی رن خدا کی سیاست اسی سے آج
بچّے کولائے رن میں جوآقائے دوجہاں
آوازدی کہ بھائیوسُن لو مری فغاں
بچّہ یہ میراپیاس سے لیتا ہے ہچکیاں
کچھ تم سے کہہ رہا ہے بلک کر یہ بے زباں
بہتے ہیں اشک پیاس سے چہرہ ملول ہے
دیکھو اسے یہ باغ محمدؐ کا پھول ہے
مجبور ہے جہاں میں بشرحادثات سے
ماں کی بھی زندگی ہے اسی کی حیات سے
سینے میں مامتا کے تلاطم ہے رات سے
کیوں میں کہوں کہ دوکوئی قطرہ فرات سے
ہاں اس کی بے کسی سے اگرکچھ کھُلا ہے وہ
پوچھوخود اپنے دل سے کہ کیا کہہ رہا ہے وہ
حضرت کے اس سوال کا جوکچھ ملا جواب
لکھّوں اگراسے توسیاہی ہوآب آب
بس مختصر یہ ہے کہ ہوئے مُنفعل جناب
بچّہ ہوافیوض شہادت سے بہرہ یاب
صابراس اس امتحاں میں بھی دیکھا جوآپ کو
دی مسکرا کے تہنیت اصغر نے باپ کو
دم توڑنے لگی جوتمنا رباب کی
چھائی دل حزیں پہ کھُلا اضطراب کی
ڈھانپا عباسے اس کورسالت مآبؐ کی
ریش سفید اس کے لہُو سے خضاب کی
ّٓاس صبر کا گلہ جو کیا دل نے باپ کے
خاموش کردیا اسے تیور نے آپ کے
فرمایا کھینچتے ہوئے گردن سے تیری کو
احسنت خرملا ترے نفسِ شریرکو
تازاں نہ ہو کہ تیرسے مارا اصغر کو
تونے ہلاک کرلیا اپنے ضمیر کو
لے دیکھ اب تجھے جو سعادت حصول ہے
پیکاں میںتیرے قطرۂ خونِ رسولؐ ہے
حُجت مراشعار تھا حجّت ہوئی تمام
میں نے تجھے معاف کیا اے سپاِ شام
لیکن بہت شدید ہے فطرت کا انتقام
دیکھ ابن سعد دیکھ مشیت کا انتظام
آنکھیں تری سپاہ کی گریاںابھی سے ہیں
مظلومیت کی فتح کے ساماں ابھی سے ہیں
لاش پسرتھی ہاتھ پہ اورسوچتے تھے شاہ
کس منہ سے جائوں لے کے اسے سوئے خیمہ گاہ
رُک جاتے تھے بڑھا کے قدم کو میانِ راہ
لیکن بقول عشقؔ نہ کچھ بن پڑاتو آہ
’’ننھی سی قبرکھود کے اصغر کوگاڑ کے‘‘
’’شہیر اُٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کے‘‘
مطلع ثانی
شوخی نہ کیوں ہو خامۂ رنگیں کلام میں
قرنا پھنکی ہے جنگ کی پھرفوجِ شام میں
کب تک رہے گی تیغِ شہ دیں نیام میں
شعلے لپک رہے ہیں زبانِ حسام میں
ممکن ہے آسماں کویہ شعلے لپیٹ لیں
رُوح الامیں کدھرہیں پروں کوسمیٹ لیں
ہے وقت وہ کہ فوجِ عدو میں ہے خلفشار
چہرے میں آفتاب کے ہے دشت کا غبار
پشتِ فرس پہ چپ ہیں امامِ فلک وقار
مہرِ مبیں رخ سے جلالت ہے آشکار
ہے قلب مطمئن میںتلاطلم فرات کا
کروٹ بدل رہا ہے سمندر حیات کا
آتی ہے اب جلال میں غیرت حسینؓ کی
طاری ہے فوجِ شام پہ ہیبت حسینؓ کی
تیور بدل رہی ہے شجاعت حسینؓ کی
غالب مگر ہے غیظ پہ رحمت حسین کی
گودستِ رعشہ دار میں طاقت علیؓ کی ہے
لیکن یہ سوچتے ہیں کہ امّت نبیؐ کی ہے
لرزش نہ کیوں ہوہاتھ میںطاعت گزارکے
بندے کھڑے ہیں سامنے پروردگار کے
ہرسمت سے پرے سیمہ بدشعارکے
نرغے کیے ہیں گردشہِ ذی وقار کے
اس طرح دشمنوں پہ نظر ہے عتاب کی
جیسے گُل وثمرپہ کرن آفتاب کی
فوجوں میں چُپ کھڑے ہیں شہنشاہِ بحروبر
افسردہ جیسے تیری ابرمیں سحر
ہے رُوح معرکہ آرا بہ فوجِ شر
عالم یہ ہے کہ رُخ پہ نہیں روکتے سپر
پہلو نکل رہے ہیں شجاعت کے صبرسے
تیروں کا میٹھ برستا ہے ڈھالوں کے ابرسے
آنکھوں کا نورکھو جوگیا ہے سپاہ میں
ہے اک ستائے شیر کی ہیبت نگاہ میں
لب ہائے خشک معرکۂ رزم گاہ میں
جنباں ہیں ذکرِ اشہد ان لا الہ میں
مطلب یہ ہے سوائے خدا کے خدانہیں
چوکھٹ پہ اقتدار کے سجدہ رَوا نہیں
ہے مائلِ جہاد خداوندِ ذوالفقار
نعرہ یہ ہے کہ ہم ہیں وہ شیرانِ کردگار
جن کی گرج سے بزمِ عناصر میں خلفشار
بخشا ہے ہم نے نبضِ دوعالمؐ کواضطرار
مہمیزدی ہے ابلقِ لیل ونہارکو
ٹھنڈا کیا ہے فطرت برق وشرارکو
درسِ حیات ہم سے لیا روزگار نے
مانگا نموہمارے لہو سے بہار نے
سجدہ کیا ہمیں نگہِ اعتبار نے
ہم وہ ہیں جن کی ہمّتِ انجم شکار نے
جھٹکے دیے ہیں شمس وقمر کے نظام کو
گردُوں کی پیٹھ خم ہے ہمارے سلام کو
ہم سے جنودِ کفر نے کھائی شکستِ فاش
تم کیا ہو،تم توکُفر کی ہو ایک زندہ لاش
فرعونیّت کے بُت جوہیں اے قوم بت تراش
ہوںگے وہ میری ضرب کلیمی سے پاش پاش
آتا ہے تم پہ قہرخدائے علیم کا
یہ میری تیغِ تیزعصا ہے کلیم کا
بھاگو عذابِ رب زمین وزماں ہے یہ
دوزخ کی سمت راہبرِ کارواں ہے یہ
سمجھو نہ یہ کہ بادِ سمومِ خزاں ہے یہ
امت کے باغ میں تبرِ باغباں ہے یہ
شاخیں نکل چکی ہیں بہت چھانٹتی ہے یہ
لینا ہو جس کوآئے کفن بانٹتی ہے
اس تیغ دوزبانِ میںطاقت بلا کی ہے
تلوار کیا ہے حُجّت قاطع خدا کی ہے
کیوں کر نہ شوخ ہو کہ سہیلی قضا کی ہے
ناز اس پہ ہے کہ تیغ شہِ لافتا کی ہے
چاٹا تھا ظالموں کا لہُونہروان میں
پیاسی ہے جب سے کیوں نہ ہوخشکی زبان میں
اللہ رہے تیغِ تیزشہنشاہ بحروبر
مثلّ کنیز جس کی خواصی میںتھی ظفر
خادم کی طرح تھے ملک الموت ہم سفر
دوڑے اُسی طرف کواشارہ کیا جدھر
اس طرح کب چلے تھے کسی کی رکاب میں
ساتھ اِس کا چھوٹ چھوٹ گیا اضطراب میں
بن کرگھٹا جو فوجِ ضلالت شعارآئی
اڑتی ہوئی وہ صاعقۂ شعلہ بارآئی
غُل تھا جراحتوں کے چمن میںبہارآئی
گلشن لٹاتی لیلی گلگوں عذارآئی
بسمل ہیں کشتگانِ ادا جلوہ گاہ میں
زخموں کے پھُول بانٹ رہی ہے سپاہ میں
چھائی تھی فوجِ شام کی ہرسُوگھٹا سیاہ
دشتِ جبل سیاہ تھے ارض وسما سیاہ
چہرے سیاہ رایتِ اہلِ جفا سیاہ
ڈھالوں سے ہوگئی تھی وہ ساری فضا سیاہ
اوراس فضائے تار میں جلوہ فگن تھی وہ
ظلمت کدے میں صبح کی پہلی کرن تھی وہ
مڑتے ہی اُس کے ہوگئی ہل چل اِدھراُدھر
پھٹنے لگے سپاہ کے بادل اِدھراُدھر
بارش یہاں وہاں تھی توجَل تھَل اِدھراُدھر
گرتے تھے کٹ کے نیزوں کے جنگل اِدھراُدھر
لوہے کی کیا بساط ہے بجلی کی گشت میں
سائے سے اس کے دھوپ بھی کٹتی تھی دشت میں
کب اس سے شان کم فرسِ بادپا کی ہے
ٹاپوں سے جس کی چورزمیں کربلا کی ہے
غل تھا کہ مُرتجزنہیں قدرت خدا کی ہے
پیکرمیںاس کے بندطبیعت ہوا کی ہے
حوریں نثارزین پہ اورزین پوش پر
رف رف دھراہوا تھا فرشتے کے دوش پر
گھوڑا ہے یہ نسیم نہیں ہے، صبا نہیں
لیکن مزاجِ برق بھی اتنا رسا نہیں
کہتا ہے کون یہ کہ فرس باوفا نہیں
دریا کوہنہنا کے کبھی دیکھنا نہیں
ہرچند تشنگی کا جگرمیں وفُور ہے
صابرحضور ہیں توفرس بھی غیور ہے
رَن میں سلاح پوش لعینوں کا وہ جمائو
مُڑتی ہوئی صفیں تھیں کہ دریا کا تھا چڑھائو
اور اُن صفوں کے بیچ سے وہ اس کی آئو جائو
پانی کوکاٹتی ہوئی چلتی ہوجیسے نائو
حیرت تھی اس کے گشت پہ ہرشیخ وشاب کو
ٹاپوں سے توڑتا تھا سروں کے حباب کو
ہوکر جوتازہ دم سپہ بدشعار آئی
پھر توغضب میںلیلی آہوشکار آئی
توڑا جومیمنہ کوتوسوئے یسار آئی
سب نشۂ غرور شجاعت اُتارآئی
ہرصف الٹ پلٹ سپہ جنگ جُوکی تھی
مینہ پڑرہا تھا باڑھ پہ ندی لہُوکی تھی
سانس اُس کے ڈرسے بندجوبادِصبا کی تھی
حالت تباہ لشکرِ اہل جفا کی تھی
ہرصف میںدھاک فتنۂ محشربپا کی تھی
شعلوں سے اُس کے گرم ہواکربلا کی تھی
بھڑکی تھی آگ معرکۂ رزم گاہ میں
سہمی ہوئی تھی دھوپ سپرکی پنا میں
پھرتوسپاہِ اہلِ جفا بھاگنے لگی
آیا جو خوف دل میں حیا بھاگنے لگی
گرد اس اس قدراُڑی، کہ فضا بھاگنے لگی
گھوڑوں کے ساتھ ساتھ ہوا بھاگنے لگی
آنکھوں میں دھول جھونک دی بجلی نے کوندکے
بھاگے سواراپنے پیادوں کوروندکے
کچھ سمتِ کوفہ، کچھ سوئے باب سقرچلے
ایک ایک سے یہ پوچھ رہا تھا، کِدھر چلے
کہتے تھے سب کہ بھاگ چلوبس اگر چلے
منزل کاکیا سوال ہے گھوڑا جدھرچلے
گھوڑوں نے بوجھ پھینک دئیے اپنی زین کے
اک شورتھا اُلٹ گئے طبقے زمین
اللہ رے خوف دور سے خطرے کوبھانپ کے
جنگل کے شیربھاگ گئے ہانپ ہانپ کے
پرچم جھکے پھرہرے سے منہ ڈھانپ ڈھانپ کے
چادر ہلارہے تھے عَلَم کانپ کانپ کے
اکھڑے تھے پائوں وقت کے اس اژدہام میں
ہل چل مچی تھی قافلۂ صبح وشام میں
تھی بسکہ زلزلے میںفضادوجہاںن کی
جاتی تھی خاک تابہ فلک خاکدان کی
دیواریں گررہی تھیں زمان ومکان کی
تھامے تھے جبریئل طناب آسمان کی
ٹکرا کے چُور ہوتے کرے عالمین کے
لیکن زمیں دبی تھی قدم سے حسینؓ کے
حاضرتھی فوجِ جن پئے تعمیل اِک طرف
کنکرلیے تھے منہ میںابابیلِ اک طرف
مضطرتھی علقمہ صفتِ نیل اک طرف
حکمِ خدا لیے ہوئے جبریل اِک طرف
منہ سے لگاچکے تھے سرافیل ؑصور کو
امّت پہ رحم آگیا لیکن حُضور کو
قربان رحم سرور عالی وقار کے
آجاتا ہے جو زد پہ کوئی ذوالفقار کے
منہ اپنا پھیرلیتے ہیں تلوار مارکے
جمتے نہیں قدم سپہِ بدشعار کے
حضرت مگر لجامِ فرس پھیرتے ہیں
ڈرکر جوبھاگتا ہے اُسے گھیرتے نہیں
بھگدڑمچی ہوئی ہے سوارانِ شام میں
جاتی ہیں اُڑ کے خون کی چھینٹیں خیام میں
زخمی کچل کچل جوگئے اژدہام میں
تلوار کورحیم نے رکھا نیام میں
پھرتو صدایہ آنے لگی مشرقین سے
فطرت کی لاج رہ گئی صبرِ حسینؓ سے
تلوار روک لی توہوا ضعف کاوفور
پشتِ فرس پہ حالتِ غش میں رہے حضور
گرمی سے اس کی بجھ جو رہا تھا خدا کا نور
چہرے پہ آفتاب کے تھی خجلتِ قصور
تھا وقتِ عصر دی جواذاں فوجِ شام نے
اپنے مصلّیوں کوپکاراامام نے
آوازدی کہ دن ہے تمام اے نمازیو
اٹھو کہ اب قریب ہے شام اے نمازیو
دیتے نہیں جوابِ سلام اے نمازیو
تم کوپُکارتا ہے امام اے نمازیو
بھولے ہمیں بھی کیا کہیں اس خواب نازکو
اٹھو صفیں جما کے کھڑے ہونمازکو
غیرت کا آرہا ہے مقام اے مجاہدو
جاتی ہے فوج سُوئے خیام اے مجاہدو
ہے آفتاب دیں لب بام اے مجاہدو
ہاتھوں سے چھوٹتی ہے لجامِ اے مجاہدو
اُتریں فرس سے تھام لے بازو اگرکوئی
لیتا نہیں غریب کی آکر خبرکوئی
کروٹ بدل کے دیکھ تولومیراحالِ زار
میںجاں بلب ہوں سرد ہے میدان کارزار
مہلت مگرنہیں کہ کروں شُکر کردگار
نیزے لگارہے ہیں مسلسل جفاشعار
تیروسنان وتیغ وتبرروکتے نہیں
تم اُٹھ کے میرے رُخ پہ سپرروکتے نہیں
تڑپی یہ سُن کے لاش رفیقانِ ذی وقار
زینبؓ ہوئیں اُدھردرِخیمہ پہ بے قرار
آوازدی کہ آپ پہ بھیا بہن نثار
گرحکم ہوتو خیمے سے نکلے یہ سوگوار
دیتے ہیں جواب جوپیارے حُضور کو
آکربہن فرس سے اُتارے حُضورکو
پہنچی یہ جاں گدازصداگوشِ شاہ میں
اشک کیفیت ملال کی اُبھری نِگاہ میں
آوازدی کہ ہم ہیں کھڑے وعدہ گاہ میں
درپیش مرحلہ ہے محبت کی راہ میں
اس حال میں مریض پسرکے قریں رہو
عابدنکل پڑے گا بہن تم وہیں رہو
اتنے میں پھرپلٹ جوپڑی فوجِ کینہ جو
دیکھانگاہ یاس سے حضرت نے چارسو
گرنے لگے توبیٹھ گیا اسپِ نیک خو
اُترے فرس سے ہوجوچُکا خُون سے وضو
عجلت نہ کیوں ہوبندگی بے نیازمیں
حسرت یہ ہے کہ سرجوکٹے تونمازمیں
بس اے کمیتِ خامۂ ماتم طرازبس
سجدے میں شُکر کے ہیں امامِ حجازبس
طاری ہے دل پہ عالمِ راز ونیازبس
اٹھتے ہیںدرمیاں سے حجاباتِ رازبس
خم ہیں حضورپیشِ خدا سرلیے ہوئے
قاتل کھڑا ہے پشت پہ خنجر لیے ہوئے
مضراب آخری کا بھی اب سُن لوماجرا
ہرتارساز وقت کا جس سے لرزاُٹھا
ثمرِ لعیں جوکاٹ رہا تھا رگِ قفا
جنبش ہوئی لبوں کوتوحیرت ہوئی سوا
جھک کر سنا توحمدِ خداکررہے تھے آپ
قاتل کی مغفرت کی دُعا کررہے تھے آپ
بس اختصار مظہریؔ بہترہے طول سے
اَسرارِ عشق کیا کہوں قومِ جہُول سے
ظاہر میںمنحرف ہوں فروعِ اُصول سے
وابستہ گونہیں ہوں خداورسولؐ سے
لیکن میں پوجتا ہوں شہِ مشرقین کو
کرتا ہے میرا کفربھی سجدہ حسینؓ کو
- قصیدہ کا فن اور ارتقا
- مرزا محمد رفیع سوداؔ: تعارف وتصانیف
- ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
- قصیدہ تضحیک روزگار / د رہجو اسپ
- شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ: تعارف و تصانیف
- زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر (در مدح بہادر شاہ ظفر)
- ہیں میری آنکھ میں اشکوں کے تماشا گوہر
- مثنوی کا فن اور ارتقا
- مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، کردار،خلاصہ
- ملا وجہی: تعارف و تصانیف
- مثنوی قطب مشتری از ملا وجہی
- ابن نشاطی کا تعارف
- مثنوی پھول بن، کردار، خلاصہ
- افضل جھنجھانوی کا تعارف
- بکٹ کہانی
- میر حسن
- مثنوی سحرالبیان کی تلخیص اور تجزیہ
- پنڈت دیا شنکر نسیم: تعارف اور تبصرہ
- مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ اور کردار
- نصرتی، تعارف اور تصانیف
- نصرتی کی مثنویوں کا خلاصہ و تجزیہ
- خواجہ سید محمد میر اثر
- مرزا شوقؔ لکھنوی : حیات و خدمات
- مثنوی زہر عشق کا خلاصہ
- مرثیہ کی تعریف
- میر انیسؔ ،تعارف،مراثی
- مرثیہ: نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری
- دبیرؔ،تعارف و تصانیف
- مرزا غالبؔ ـ:مرثیہ عارف
- جمیل مظہری،تعارف،تصایف
- مرثیہ: جنبش سے میرے خامۂ افسوں طراز کی