سید میر ببر علی انیسؔ (خدائے سخن)

 

تخلص : انیسؔ
ولادت: 1803ء فیض آباد

وفات: 7 دسمبر1874ء لکھنؤ


ببر علی انیس اُردو مرثیہ گو میرمستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔ مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی اورفارسی پڑھی۔ فنون سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فن شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔ شعر میں اپنے والد سے اصلاح  لیتے تھے۔  پہلے’’حزیںؔ‘‘ تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر’’ انیسؔ‘‘ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ’’والد کی فرمانبرداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔‘‘اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی مغلیہ فرماں رواشاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اُردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اُردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اُردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اسے’’ خدائے سخن‘‘ کے نام سے پکارتے رہیں۔

 

انیس کے پر دادا میرضاحک اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے۔ ان میں اور سوداؔ میں بڑے دلچسپ معرکے ہوا کرتے تھے۔ میر ضاحک کے فرزند میر حسن اُردو کے ایک نہایت بلند پایہ شاعر تھے جن کی مثنوی ’’سحر البیان ‘‘ ہے۔ میر حسن کو تین بیٹے تھے۔ خلق ، خلیق اور مخلوق۔ انیس خلیقؔ کے فرزند تھے۔ میر انیس کے تین فرزند تھے۔ میر نفیس ، میر جلیس اورمیر سلیس ۔ تینوں منجھے ہوئے شاعرا ور مرثیہ نگار تھے۔

 

اہم نکات


شعری مجموعے : (۱) اولاد ۔ l مرثیوںکی تعداد :بارہ سو۔
رباعیات انیس :چھ سو۔ l مجموعہ مرثیہ میر انیس : ۵؍جلدیں۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!