مرزا محمد رفیع سوداؔ
(قصیدہ کا نقاش اوّل،میر کے ہم عصر اور حریف)
نام : مرزا محمد رفیع
تخلص : سودا ؔ
ولادت : 1713ء دہلی
وفات : 1781ء لکھنؤ
مرزامحمد رفیع سوداؔ 1713ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد شفیع بہ سلسلہ تجارت ہندوستان میں وارد ہوئے تھے۔ مرزا سودا کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔ چھوٹی عمر میں شاعری کا شوق پیدا ہوااور فارسی میں شعر کہنے لگے۔ پھر خان آرزو کے کہنے پر اُردو میں طبع آزمائی شروع کی اور سلیمان قلی داد سے اصلاح لی۔ بعد میں شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے اور تھوڑے عرصے میں درجہ کمال حاصل کرکے بڑے بڑے استادوں سے خراج تحسین وصول کیا، یہاں تک کہ شاہ عالم کو بھی شاگردی کا شوق ہوا اور اصلاح لینے لگے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں زمانے نے پلٹا کھا اور دہلی تباہ ہوگئی۔مرہٹوں نے لوٹ مار شروع کر دی چنانچہ شعرا و شرفاء دہلی سے نکلنے لگے۔ ناچار سودا نے بھی فرخ آباد نواب بنگش کے یہاں آکر قیام کیا اور سترہ سال تک آسودگی سے یہیں زندگی بسر کی۔ اس وقت مرزا کی عمر ساٹھ سال کی تھی۔ نواب کی وفات پر مرزا لکھنؤ چلے آئے، یہاں نواب شجاع الدولہ نے بڑی قدر کی۔ مگر معمولی سی بات پر ناراض ہو کر چلے آئے اور پھر دوبارہ دربار نہ گئے۔ یہاں تک کہ آصف الدولہ مسند آراء ہوئے۔ وہ مرزا پر بڑے مہربان تھے۔ چھ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر ہوا اور’’ ملک الشعراء‘‘ کا خطاب ملا۔سوداؔ،میرؔ کے ہم عصر اس لیے دونوںمیں حریفانہ چشمک اور مقابلہ رہتا تھا۔
ان کی کلیات میں 44؍قصیدے رؤسا اور ائمہ اہل بیت وغیر ہ کی مدح میں ہیں ان کے علاوہ ہجو ،مراثی ، مثنویاں، رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں پہیلیاں ، و اسوحت وغیرہ سب چیزیں موجود ہیں ۔نثر میں ایک تذکرہ’’ تذکرۂ اُردو شعرا‘‘ کا لکھا تھا جواب نا پید ہے۔ فارسی نثر میں ایک رسالہ’’ عبرت الغافلین‘‘ فاخر یکسن کی کارستانیوں کے جواب میں لکھا ۔ایک اور رسالہ ’’سبیل ہدایت‘‘ تقی کے مرثیے پر لکھااور فارسی کا بھی ایک چھوٹا دیوان موجود ہے۔مرزا نے تقریباً ستر برس کی عمر میں 1781ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔
اہم نکات
مصحفیؔ نے سودا کو قصیدے کا نقاشِ اوّل ، زبان کا حاکم ، قصیدے اور ہجو کا بادشاہ بتایا ہے۔
مطبوعہ کلیات میں سوداؔ کے صرف 44؍ قصائد ملتے ہیں اور گیارہ غیر مطبوعہ ہیں۔
سوداؔنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دو قصیدے کہے ہیں۔ باقی حضرت علی ، کاظمین علیہ السلام،امام زین العابدین ، امام جعفر صادق، حضر ت امام حسین ،امام ضامن علی موسیٰ رضا، نسبت خان خواجہ سرا، عالمگیر ثانی، عماد الملک ، سیف الدولہ ،مہربان خان، احمد خان بنگش، شجاع الدولہ ، آصف الدولہ، سرفراز الدولہ، حسن رضا خاں، رچرڈ جانسن رزیڈنٹ لکھنؤ جیسی ذی اثر شخصیتوں کی شان میں کہے۔ گھوڑے کی ہجو میں ’’تضحیک روزگار ‘‘ لکھا۔ امام محمد باقر کی شان میں ایک غیر مطبوعہ قصیدہ ملتا ہے۔
مخمس کی صورت میں سب سے پہلے سوداؔ نے مرثیہ لکھا۔
رسالہ عبرت الغافلین l فارسی کا دیوان ( چھوٹا / مختصر)
- قصیدہ کا فن اور ارتقا
- مرزا محمد رفیع سوداؔ: تعارف وتصانیف
- ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
- قصیدہ تضحیک روزگار / د رہجو اسپ
- شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ: تعارف و تصانیف
- زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر (در مدح بہادر شاہ ظفر)
- ہیں میری آنکھ میں اشکوں کے تماشا گوہر
- مثنوی کا فن اور ارتقا
- مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، کردار،خلاصہ
- ملا وجہی: تعارف و تصانیف
- مثنوی قطب مشتری از ملا وجہی
- ابن نشاطی کا تعارف
- مثنوی پھول بن، کردار، خلاصہ
- افضل جھنجھانوی کا تعارف
- بکٹ کہانی
- میر حسن
- مثنوی سحرالبیان کی تلخیص اور تجزیہ
- پنڈت دیا شنکر نسیم: تعارف اور تبصرہ
- مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ اور کردار
- نصرتی، تعارف اور تصانیف
- نصرتی کی مثنویوں کا خلاصہ و تجزیہ
- خواجہ سید محمد میر اثر
- مرزا شوقؔ لکھنوی : حیات و خدمات
- مثنوی زہر عشق کا خلاصہ
- مرثیہ کی تعریف
- میر انیسؔ ،تعارف،مراثی
- مرثیہ: نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری
- دبیرؔ،تعارف و تصانیف
- مرزا غالبؔ ـ:مرثیہ عارف
- جمیل مظہری،تعارف،تصایف
- مرثیہ: جنبش سے میرے خامۂ افسوں طراز کی