مرزا شوقؔ لکھنوی : حیات و خدمات
نام : حکیم تصدق حسین نام
عرف : مرزا شوقؔ
ولادت : نامعلوم۔
وفات : 1288ھ/1871ء
اُستاد : آتش لکھنوی
ہم عصرشعرا
غالب،ذوق، شاہ نصیر، مومن ،ظفر، واجد علی اختر، آتش ، صبا وزیر، دبیر، انیس۔
مثنویاں ودیگر کتب
(۱) فریب عشق : 1261ھ/ 1846ء اور 1263ھ/ 1847ء کے درمیان لکھی گئی۔
(۲) بہار عشق : 1263ھ /1847ء اور 1268ھ/1851ء کے درمیان لکھی گئی۔
(۳) زہر عشق : 1272ھ/ 1855ء اور 1279ھ/ 1862ء کے درمیان لکھی گئی۔
(۴) غزلیات کا ایک مجموعہ (۵) واسو خت
مرزا شوق، آتش کے شاگرد تھے۔ اس زمانے میں پیدا ہوئے جب اودھ کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ طویل عمر پائی۔ آٹھ والیان ِاَودھ کا زمانہ دیکھا۔ واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوئے تو ان کے شاعرانہ مزاج میں نکھار آگیا۔ لکھنؤ کی تہذیب کو آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مزاج میں شوخی اور رنگینی تھی، زبان پر قدرت حاصل تھی۔ اسی سے اپنے کلام کو زیب و زینت عطا کی۔شہنشاہ اورنگ زیب کی وفات 1707ء کے بعد مرہٹوں اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی بغاوت اور خودمختاری نے دہلی کی مرکزی حکومت کو کمزور کر دیا۔ ہر طرف بدنظمی، بدامنی اور بے اطمینانی پھیلی ہوئی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملے کے بعد دہلی کی تباہی اور معاشی بدحالی کا یہ حال ہو گیا کہ وہ امرا جن کے گھر ’’محلات تھے،وہ اب سر پر چھت کے لیے ترسنے لگے تھے۔ جن کے دسترخوان پر کئی لوگ کھانا کھاتے تھے وہ خود دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو گئے۔ وہ ایسے افلاس اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں آخر دہلی چھوڑنا پڑا۔ دہلی کی شاعرانہ بساط بھی ان حالات میں الٹ گئی۔ شعراے کرام دہلی چھوڑ کر عظیم آباد، فرخ آباد، اودھ اور حیدرآباد چلے گئے۔ چند شعراء ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے،
جیسے: سراج الدین علی خان آرزو، مرزا رفیع سودا، میر تقی میر، سید محمد میر سوز، قیام الدین قائم، میر غلام حسین ضاحک، میر مستحسن خلیق، میر غلام حسن، شیخ قلندر بخش جرات، انشاء اللہ خان انشاء، سعادت یار خان رنگیں ، شیخ غلام ہمدانی مصحفی۔
اس دور میں لکھنؤ میں عیش و عشرت کا سامان گرم تھا۔ یہاں کی زندگی پرسکون اور اطمینان بخش تھی۔ نواب آصف الدولہ (1775-1797) اودھ کے چوتھے حکمران تھے۔ اہل علم و کمال کی سرپرستی میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ انہیں کے زمانے میں اودھ کا پایہ تخت فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہو گیا۔ آصف الدولہ کے بعد سلطنت اودھ کے سات اور حکمران ہوئے۔ آخری حکمران نواب واجد علی شاہ تھے جنہوں نے 1847 ء تک حکومت کی۔ ابتداء میں واجد علی شاہ نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ ملکی انتظامات میں اصلاح لانے کی کوشش کی مگر بعد میں رقص و سرور میں ایسے گم ہو گئے کہ انہیں ملکی فلاح و بہبود کا کوئی خیال نہ رہا۔ خود شعر کہتے تھے اورشعراء کی قدر بھی کرتے تھے۔ 1856ء کا سال واجد علی شاہ کے لیے بڑا منحوس ثابت ہوا۔ انگریزوں نے انہیں معطل کر دیا اور مٹیا برج منتقل کر دیا، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن گزار کر 1887ء میں انتقال کیا۔
مرزا شوق کا اصل نام ’’حکیم حسین خاں‘‘، نواب مرزا عرفیت اور شوق تخلص تھا۔ حکیم نواب مرزا کے نام سے مشہور تھے۔ شوق کے والد کا نام آغا علی خان تھا۔ شوق کا پورا خاندان حکمت و طبابت میں مشہور تھا۔ ان کے چچا مرزا علی خان لکھنؤ کے مشہور حکیموں میں سے تھے وہ شاہان اودھ کے دربار میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ بادشاہ کی طرف سے ’’حکیم الملک‘‘ کا خطاب بھی ملا تھا۔ شوق 1783ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ماحول سے متاثر ہو کر شعر گوئی کی طرف راغب ہوئے، اپنے دور کے اساتذہ میں خواجہ آتش کے شاگرد ہو گئے، شوق نے بھی اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا، پھر مثنوی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ 88؍سال کی عمر پائی، ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذاری۔ واجد علی شاہ، شوق کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ پانچ سو روپے تنخواہ مقرر کی تھی۔ انعامات و اکرام وہ الگ تھے۔ شوق ذی علم اور طبیب حاذق تھے۔ فنون لطیفہ کا بڑا شوق تھا۔تذکرۂ شوق کے مصنف عطا اللہ پالوی نے لکھا ہے کہ شوق نے 30جون 1871ء کو اٹھاسی سال کی عمر میں انتقال کیا۔ لکھنؤ کے ریلوے لائن کے نیچے قبرستان میں دفن ہیں ، جہاں میر تقی میر، انشاء، مصحفی وغیرہ کے بھی مدفن ہیں۔
ان کی لکھی تین مثنویاں ہی ان کا سرمایۂ حیات ہیں۔ مثنویوں کے علاوہ انہوں نے اور کن کن اصناف میں طبع آزمائی کی اس کا صحیح علم نہ ہوسکا۔ تذکرۂ شوق سے چند غزلوں ، متفرق اشعار اور ایک واسوخت کا پتہ چلتا ہے۔شوق نے زیادہ غزلیں نہیں کہیں ، نہ ان کا کوئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ دیوان ملتا ہے۔ شوق کے ایک محقق عطا اللہ پالوی نے مختلف تذکروں سے اکٹھا کر کے غزلوں کے کچھ اشعار اپنی کتاب ’’تذکرۂ شوق’‘ میں شامل کیے ہیں۔ دبستان آتش کے مصنف شاہ عبدالسلام نے ان کی مثنویوں سے بھی غزل کے اشعار لے کر ان کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ اس طرح شوق کا سرمایۂ غزل صرف 61؍ اشعار پر مشتمل ہے۔شوق نے صرف ایک واسوخت کہی ہے۔ یہ واسوخت ’’مجموعہ واسوخت’‘ مرتبہ فدا علی عیش میں شامل ہے۔ اس کے اکتالیس بند ہیں۔ یہ مسدس کے فارم میں لکھی گئی ہے۔
نواب مرزا شوق کی مثنویوں کی تعداد کے بارے میں مختلف آرا ملتی ہیں۔ امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں ،حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں ، لالہ سری رام نے خم خانۂ جاوید میں ، شوق کی چار مثنویاں زہر عشق، فریب عشق، بہار عشق اور لذت عشق کا ذکر کیا ہے۔ دبستان لکھنؤ میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے بھی شوق سے یہی چار مثنویاں منسوب کی ہیں۔ تذکرہ شوق میں عطا اللہ پالوی نے شوق کی تین مثنویوں کا ذکر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ شوق سے منسوب چوتھی مثنوی ’’لذت عشق’‘ شوق کے بھانجے آغا حسن نظم کی مثنوی ہے۔ دور حاضر کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ انہوں نے صرف فریب عشق، بہار عشق اور زہر عشق تین ہی مثنویاں لکھی ہیں۔
’’فریب عشق‘‘ شوق کی سب سے پہلی مثنوی ہے جوگلزار نسیم (1838) کی تکمیل کے ٹھیک آٹھ سال بعد (1846) میں مکمل ہوئی۔ اس مثنوی میں چار سو اٹھائیس اشعار ہیں۔ فریب عشق واقعاتی اور ادبی دونوں لحاظ سے ایک خاص مرتبہ رکھتی ہے۔ اس مثنوی میں شوق نے اپنے عہد کی بعض شاہی بیگمات کے مشاغل اور ان مشاغل کے پیچھے کھیلے جانے والے اخلاق سوز واقعات کو نظم کیا ہے۔
نواب مرزا شوق کی دوسری مثنوی’’ بہار عشق‘‘ 1847ء میں منظر عام پر آئی۔ اس مثنوی میں آٹھ سو بیالیس اشعار ہیں۔اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ شوق کی یہ مثنوی بھی واجد علی شاہ کے عہد کی تہذیب و معاشرت کی تصویر کشی کرتی ہے۔
’’زہر عشق‘‘ نواب مرزا شوق کی تیسری مثنوی ہے اس کی تاریخ تصنیف میں اختلاف ہے۔ رشید حسن خان کے خیال میں یہ مثنوی 1861ء کے قریبی زمانہ میں لکھی گئی۔ شاہ عبدالسلام کا خیال ہے کہ یہ مثنوی 1860ء اور 1882ء کے درمیان مکمل ہوئی۔ نظامی بدایونی نے سال تصنیف 1277ھ / 1860ء قرار دیا ہے۔ اس مثنوی کا پہلا ایڈیشن شوق کی حیات میں 1862ء میں شائع ہوا۔ مطبع نول کشور نے اس کے دو ایڈیشن شائع کیے۔ ایک شوق کے انتقال سے دو سال قبل یعنی 1869ء میں اور دوسرا اسی سال جس سال شوق کا انتقال ہوا یعنی 1971ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد اس مختصر سی مثنوی کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور پچاسوں ایڈیشن اس کے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔
- قصیدہ کا فن اور ارتقا
- مرزا محمد رفیع سوداؔ: تعارف وتصانیف
- ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
- قصیدہ تضحیک روزگار / د رہجو اسپ
- شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ: تعارف و تصانیف
- زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر (در مدح بہادر شاہ ظفر)
- ہیں میری آنکھ میں اشکوں کے تماشا گوہر
- مثنوی کا فن اور ارتقا
- مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، کردار،خلاصہ
- ملا وجہی: تعارف و تصانیف
- مثنوی قطب مشتری از ملا وجہی
- ابن نشاطی کا تعارف
- مثنوی پھول بن، کردار، خلاصہ
- افضل جھنجھانوی کا تعارف
- بکٹ کہانی
- میر حسن
- مثنوی سحرالبیان کی تلخیص اور تجزیہ
- پنڈت دیا شنکر نسیم: تعارف اور تبصرہ
- مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ اور کردار
- نصرتی، تعارف اور تصانیف
- نصرتی کی مثنویوں کا خلاصہ و تجزیہ
- خواجہ سید محمد میر اثر
- مرزا شوقؔ لکھنوی : حیات و خدمات
- مثنوی زہر عشق کا خلاصہ
- مرثیہ کی تعریف
- میر انیسؔ ،تعارف،مراثی
- مرثیہ: نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری
- دبیرؔ،تعارف و تصانیف
- مرزا غالبؔ ـ:مرثیہ عارف
- جمیل مظہری،تعارف،تصایف
- مرثیہ: جنبش سے میرے خامۂ افسوں طراز کی