لونجائنس اور دانتے کا تنقیدی نظریہ
لونجائنس
لونجائنس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلی صدی عیسوی کا کوئی یونانی نقاد تھا۔”عظمت کے بارے میں” اس کی تصنیف ہے جس میں شعر و ادب کے متعلق تنقیدی خیالات پیش کئے گئے ہیں۔ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لونجائنس بڑا انقلابی ذہن رکھتا تھا۔اس سے پہلے شعر و ادب کو مقررہ قواعد پر پرکھا جاتا تھا لونجائنس نے کہا کہ شعر و ادب میں ‘عظمت‘ ہونی چاہیے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے نقادوں نے لونجائنس کی اس اصطلاح یعنی ‘عظمت’ کا ترجمہ ‘علویت‘ اور ‘ترفہ‘ بھی کیا ہے۔بہرحال لونجائنس کی مراد یہ ہے کہ عظیم خیال کو عمدہ الفاظ میں پیش کرنے سے اعلی درجے کا ادب وجود میں آتا ہے جو نہ کسی خاص زمانے کے لئے ہوتا ہے اور نہ کچھ خاص لوگوں کے لئے۔وہ ہر دور اور ہر شحض کے لئے ایک جیسی کشش رکھتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ ادب آفاقی ہوتا ہے اس میں تخیل اور جذبے پر زور ہوتا ہے اور یہ کہ اس ادب میں اعلی تاثرات اور وجدانی کیفیت پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس کے نزدیک ادب کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ پڑھنے والے کو مسرت عطا کرے۔لونجائنس کے یہ خیالات جدید ذہن کے بہت نزدیک ہیں اور اسے رومانیت کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے۔
لونجائنس کے نزدیک جو چیزیں ادب کو عظمت عطا کرتی ہیں وہ یہ ہیں۔(١): خیال بلند ہو یعنی کسی اعلیٰ موضوع کا انتخاب کیا گیا ہو۔(٢): جذبات میں ایسی شدت ہو کہ وہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جائیں۔(٣): صنعتوں کا استعمال ہوا ہو مگر اس طرح کہ پڑھنے والا ان میں الجھ کے نہ رہ جائے۔(٤): لفظوں کے انتخاب میں توجہ اور محنت سے کام لیا گیا ہو۔اس میں موقع محل کا لحاظ رکھا گیا ہوں کہیں معمولی بلکہ عامیانہ الفاظ مناسب ہوتے ہیں کہیں بھڑکیلے اور بلند آہنگ لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
(٥): لفظوں کی ترتیب سے ہم آہنگی ظاہر ہوتی ہو اور نغمگی پیدا ہوتی ہو وہ نغمگی جو صرف کانوں کو ہی نہیں باتی بلکہ جذبات کو بیدار کرتی ہے۔مبالغے کو وہ ضروری سمجھتا ہے مگر اس طرح کے اس کے وجود کا احساس بھی نہ ہو۔اس کے نزدیک استعارے کے استعمال کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب شدید جذبات بے اختیار ابل پڑتے ہیں۔
جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ”وہ اصولوں کے بجائے ذوق و شوق و جذبہ پر زور دیتا ہے اس طرح ارسطو کی بوطیقا اور لونجائنس کی تصنیف”علویت کے بارے میں” مل کر تنقید کے دونوں پہلوؤں کو مکمل کرتے ہیں”
- اردو تنقید کا آغاز و ارتقا
- اردو تنقید اور اقسام
- اردو تنقید کا ارتقا
- ادبی تنقید کے اصول
- تنقید اور تخلیق کا رشتہ
- اردو میں متنی تنقید
- رس کا نظریہ
- مشرقی تنقید
- فارسی تنقید
- تاثراتی تنقید
- رومانی تنقید
- جمالیاتی تنقید
- مارکسی تنقید
- ترقی پسند تنقید
- نفسیاتی تنقید
- سائنٹیفک ادبی تنقید
- تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار 2
- افلاطون کی تنقید نگاری
- ارسطو کا تنقیدی نظریہ
- کارل مارکس اور فرائیڈ
- لونجائنس اور دانتے کا تنقیدی نظریہ
- اسلوبیاتی تنقید
- سر سید کے تنقیدی خیالات
- محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری
- الطاف حسین حالی کی تنقید نگاری
- شبلی کے تنقیدی خیالات
- مولوی عبدالحق کی تنقید
- نیاز فتح پوری کی تنقید نگاری
- مجنوں گور کھپوری کی تنقید نگاری
- ابن رشیق کی تنقید نگاری
- آل احمد سرور کی تنقید نگاری
- احتشام حسین کی تنقید نگاری
- کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری
- پروفیسر خورشید الاسلام کی تنقید نگاری
- محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری
- پروفیسر محمد حسن کی تنقید نگاری
- پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تنقید نگاری
- شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات
- وزیر آغا کے تنقیدی نظریات
- پروفیسر قمر رئیس کی تنقید نگاری
- سلیم احمد کے تنقیدی نظریات
- وحید الدین سلیم کی تنقید نگاری
- امداد امام اثر کے تنقیدی نظریات
- ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے تنقیدی نظریات
- عبدالقادرسروری کی تنقید نگاری
- سید سجاد ظہیر کی تنقید نگاری
- فراق گورکھپوری کی تنقید نگاری
- شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
- سید شبیہ الحسن