سلیم احمد کے تنقیدی نظریات


سلیم احمد کا عہد حاضر کے اہم نقادوں میں شمار ہوتا ہے۔انہوں نے تنقیدی نظریات اور رحجانات پر بھی اظہار خیال کیا اور عملی تنقید میں بھی کارنمایاں انجام دیا۔ان کے وقت کا بیشتر حصہ مطالعے میں صرف ہوتا تھا اور باقی ادب کے مسائل پر غور و فکر میں۔وہ کسی موضوع پر اس وقت تک قلم نہیں اٹھاتے تھے جب تک اس سے متعلق سارا دستیاب مواد ان کی نظر سے نہ گزر جائے ہو جب تک وہ اس پر کافی غور نہ کرلیں۔سلیم احمد 35 برس تک کلام اقبال کے مطالعے میں منہمک رہے اور جب اقبال پر کتاب لکھنے کا وقت آیا تو وہ سولھا (١٦) دن میں مکمل ہوگی۔ایک جگہ اپنی اس عادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں برسوں مطالعہ کرتا ہوں، سوتے جاگتے اسی کو پڑھتا ہوں۔پھر وہ میرے خون کا ایک حصہ بن جاتا ہے لکھتے وقت حوالے کی کتاب دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ میں قلم برداشتہ لکھتا جاتا ہوں اور نظر ثانی بھی نہیں کرتا”
قلم برداشتہ لکھی جانے کے باوجود ان کی تحریریں خاصی دلکش ہیں۔ایک ہی مضمون کئی کئی مہینے اور کبھی کئی کئی برس ان کے ذہن میں تکمیل کے مرحلے سے گزرتا رہتا اور نوک پلک سنوارنے کا جو عمل اکثر مصنفین کے یہاں کاغذ پر ہوتا ہے وہ ان کے ذہن میں جاری رہتا اور جب یہ تحریر قاری تک پہنچتی تو کوئی نہ کہہ سکتا کہ اس کے لکھنے میں اتنی کم محنت ہوئی ہوگی اور اتنا کم وقت صرف ہوا ہوگا۔یوں بھی انھیں زبان پر حاکمانہ قدرت حاصل تھی۔

سلیم احمد کا ذکر اردو کے نفسیاتی ناقدین کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی تنقید میں نفسیات کے علم سے بہت فائدہ اٹھایا ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں وہ انتہا پسندی کا شکار بھی ہوئے ہیں۔اردو شاعری کو وہ اس لیے کمتر خیال کرتے ہیں کہ اس میں جنسی معاملات کا بے باکانہ بیان کم ہے۔میراجی اور ن۔ م۔ راشد کی شاعری کے سلیم احمد قائل ہیں تو اسی لئے کہ دونوں کا اصل موضوع جنس ہے۔”نئی نظم اور پورا آدمی” میں سلیم احمد نے کھل کر اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے۔ان کی رائے ہے کہ لاشعور میں پلنے والی ناقابل ذکر خواہشوں سے نظریں چرانے کے بجائے کوشش کرکے انہیں شعور کی سطح تک لانا اور پھر انکا اظہار کرنا چاہئیے ورنہ ذہن مریض ہو کے رہ جائے گا اوراس ذہن سے پیدا ہونے والی تخلیقات بھی مریض ھی ہوں گی۔
بہت کم ناقدین کے خلاف اتنا لکھا گیا ہوگا یا اتنی مخالفت کی گئی ہو گی جتنی سلیم احمد کی اور انہیں اس کا گلا بھی نہیں۔۔وہ تو اختلاف کو پسند کرتے ہیں بشرطیکہ یہ اختلاف دیانتداری کے ساتھ کیا جائے۔ایک جگہ کہتے ہیں:
“ان مضامین میں جو زاویۂ نظر اختیار کیا گیا ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے،بلکہ کیا جانا چاہیے۔پڑھنے والا صرف مردہ خیال سے اختلاف نہیں کرتا۔ ذاتی طور پر مجھے اعتماد ہے کہ میں جعلی سکا ساز نہیں ہوں”
ان کی مخالفت کے دو خاص سبب ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے نظریات میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی جسے لوگوں نے مصلحت وقت سمجھ کر نا پسند کیا۔مثلا شروع میں وہ ادب کی سماجی اہمیت کے قائل تھے اور اسے تنقید حیات بتاتے تھے۔اپنی پہلی کتاب میں انہوں نے ادب کے لئے عصری شعور کو لازمی قرار دیا ہے۔لیکن وہ اس موقف پر قائم نہیں رہے۔آگے چل کر وہ ادب کی بے مقصدیت کے علمبردار ہو گئے۔اپنے مضمون”ادبی اقدار”میں وہ ادب کو سماجی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے آزاد و مبّرا قرار دیتے ہیں۔اس کا سبب نہ بددیانتی ہے نہ مصلحت اندیشی۔سلیم احمد کی ذہنی تربیت میں محمد حسن عسکری کا بڑا ہاتھ ہے جنہیں وہ اپنا روحانی و معنوی مرشد تسنیم کرتے ہیں۔سلیم احمد کے افکار میں جو انقلاب آیا وہ اسی راستے سے آیا اور رینے گینوں سے ان کی شناسائی بھی اسی مرشد کے ذریعے ہوئی۔چنانچہ محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کے خیالات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔مگر ایسا نہیں کہ سلیم احمد کے خیالات محمد حسن عسکری کے خیالات کی کاربن کاپی ہوں۔سلیم احمد خود غور و فکر کے عادی تھے وہ اپنے مطالعے کی روشنی اور اپنی عقل و فہم کے سہارے کسی نتیجے پر پہنچتے تھے۔مگر دو انسانوں کے سوچنے کا طریقہ یکساں ہو تو عموماً نتائج بھی ایک سے برآمد ہوتے ہیں۔
سلیم احمد کی مخالفت کا دوسرا سبب ان کا انداز بیاں ہے جسے غیر علمی، غیر سنجیدہ اور زہرناک جیسے نام دئیے گئے۔کہا گیا کہ وہ تنقید نہیں کرتے فقرے بازی کرتے ہیں،کہا گیا کہ ان کے مزاج میں ایک خاص قسم کی آزار پسندی ہے۔وہ لوگوں کو چھیڑ کے،ان کو تکلیف پہنچا کے،انہیں غصہ دلا کے گالیاں سنانے پر آمادہ کرتے اور پھر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔دراصل سلیم احمد کی شخصیت میں ایک طنز نگار پوشیدہ ہے۔ان کی ناپسندیدگی عموماً طنزآمیز تنقیدی جملوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے ان کی بات میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے،زور میں اضافہ ہوجاتا ہے،موضوع یقیناً روشن ہوجاتا ہے مگر جس پر وار ہوا ہے وہ ضرورتلملا اٹھتا ہے۔
سلیم احمد بہت حساس انسان تھے اور ان کے مزاج میں بہت شدت تھی۔انہیں قریب سے دیکھنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ سراپا التہاب اور مجسم اضطراب تھے۔وہ اپنی پسند نا پسند کو نہ چھپا سکتے تھے نہ چھپانا چاہتے تھے۔ان کے مضامین میں جہاں جہاں کسی تخلیق یا کسی رائے پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوا ہے وہاں ایک خاص قسم کی نشتریت بلکہ کہیں کہیں زہرناکی پیدا ہوگئی ہے جس کے لیے وہ کسی معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔لکھتے ہیں:
“میں ایسے علم کا مدعی بھی نہیں ہوں جو پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی اضطراب پیدا نہ کرے۔میں نے خود بھی یہ مضامین بہت اضطراب کی حالت میں لکھے ہیں اور آپ سے صرف اسی داد کا طالب ہوں کہ آپ میری تکلیف اور بےتابی کا اندازہ کرلیں خواہ میں آپکو کتنا ہی مسخرا یا اسسٹنٹ باز کیوں نہ نظر آؤں۔نٹیشے کے زرتشت کو بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے نیٹ باز کا روپ اختیار کرنا پڑا ہے”۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!