نیاز فتح پوری کی تنقید نگاری


کہا جاتا ہے کہ ایجاد ضرورت کے پیٹ سے جنم لیتی ہے یعنی جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔قدیم یونان بدامنی کا شکار تھا اور ہر طرف جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے تو وہاں رقص،مصوری، موسیقی جیسے فن نہ پنپ سکے بلکہ جنگ کے نت نئے طریقے وجود میں آئے اور صرف وہ ادب پروان چڑھ سکا جو کارآمد ہو اور زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہو۔کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا سر سید کے زمانے میں ہندوستان کو تھا۔
اس لئے سرسید نے بار بار کہا کہ شعروادب دل بہلانے اور وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں انھیں زندگی کا خدمت گزار ہونا چاہیے۔حالی سرسید سے بہت متاثر تھے انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سرسید کے خیالات کو عام کیا اور رائے دی کے شاعری سے اخلاق کو سدھارنے اور زندگی کو سنوارنے کا کام لینا چاہیے۔انہوں نے اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کئی مثالیں دے کر بتایا کہ شاعری سے بڑے بڑے کام لیے جاتے رہے ہیں۔
ان بزرگوں کی تحریروں نے کام کیا اور شعر و ادب کے مفید اور کارآمد ہونے پر زور دیا جانے لگا۔مگر توازن قائم نہ رہ سکا اور بہت سی وہ چیزیں نظر انداز کی جانے لگیں جن کے بغیر شعر شعر اور ادب ادب نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ کہ شعر و ادب کے فنی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا گیا اس کے خلاف رد عمل ہوا اور ایک ایسی تحریک وجود میں آئی جو سرے سے شعر و ادب کی افادیت ہی کی قائل نہ تھی اور اسے صرف مسرت عطا کرنے کا ذریعہ خیال کرتی تھی۔سجادحیدریلدرم، مہدی افادی، سجاد انصاری اور نیاز فتحپوری اس تحریک کے اہم علمبردار تھے۔ان میں نیاز فتح پوری کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان کے تنقیدی مضامین نے ادبی ذوق رکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔
نیاز فتح پوری کے نزدیک شاعری کسی مقصد کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاسکتی۔اس کا کام یہ نہیں کہ وہ قوموں کو بیدار کرے، غریبوں اور مزدوروں کی حمایت کرے، دنیا کے اقتصادی نظام میں کوئی انقلاب برپا کر دے یا پھر لوگوں کے اخلاق کو سنوارے۔شاعری کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پڑھنے والوں کو اس سے لذت حاصل ہو۔
ان کی رائے میں”لٹریچرکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جذباتِ انسانی کو حرکت میں لائے اور اس لیے ادبیات میں اہم ترین اس کی جذباتی قیمت ہے۔جو تصنیف ہمارے جذبات کو ابھار سکتی ہے وہ یقیناً ادبیات میں داخل ہے خواہ اس کی کوئی اخلاقی قیمت ہو یا نہ ہو۔کسی کتاب کے متعلق یہ بحث کرنا کہ وہ اخلاق کا درس دیتی ہے یا بداخلاقی کا بالکل لایعنی سی بات ہے۔اس کے متعلق صرف یہ بحث ہوسکتی ہے کہ تصنیف کی حیثیت سے اچھی ہے یا بری”خلاصہ یہ کہ شاعری کے متعلق نیاز فتح پوری کا نقطۂ نظر رومانی ہے۔
نیاز فتح پوری کی تنقید کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ان کی نظر ادب کے جمالیاتی پہلو سے آگے نہیں بڑھتی۔وہ انداز بیان ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ شاعری میں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ” شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ الفاظ سے ادا ہوتا بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ سامع کے ذہن تک پہنچنے میں کس حد تک کامیاب ہے”
نیاز فتح پوری کا ادبی ذوق بہت نکھرا ہوا تھا اور اپنی زبان کے شعری سرمائے پر ان کی بہت اچھی نظر تھی مگر وہ ہمیشہ اساتذۂ فن کی زبان و بیان کی لغزشوں کی گرفت کرتے رہے۔ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی استاد کا شعر نقل کرتے ہیں، اس کی خامیاں گناتے ہیں، پھر اصلاح دیتے ہیں کہ اس شعر کو یوں نہیں یوں ہونا چاہیے تھا۔مثلا سیماب کا ایک شعر ہے؀
سکوں برستا ہوا اس کے تبسم سے محبت کا
ہیں اس کے تیوروں میں موجزن دریا صداقت کا
اس شعر کے عیوب کی نشاندہی کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس شعر کو یوں ہونا چاہیے تھا:
برستا تھا سکوں اس کے تبسم سے محبت کا
جبین صاف پر تھا موجزن دریا صداقت کا
اس میں شک نہیں کہ نیاز فتح پوری نے سیماب کے شعر کو سنوار دیا ہے مگر شعراء کے اشعار میں لفظی ردوبدل کرنا تنقید کا کام نہیں۔تنقید اس چھوٹے سے دائرے میں قید ہو کر رہ جائے تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔تنقید اس سے بڑے فرائض ادا کرتی ہے۔
نیاز فتح پوری کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ اپنے ملک اور اپنے عہد کے حالات اور سماجی مسائل یقیناً ان کی نظر میں ہیں۔ان کی طرف وہ جا بجا اشارہ بھی کرتے ہیں مگر محض فیشن کے طور پر۔سماجی مسائل سے ادب کا رشتہ جوڑنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔اسی طرح وہ اکثر موقعوں پر شاعر کی شخصیت اور نفسیات کے متعلق بھی گفتگو کرتے ہیں لیکن زبان و بیان کے مسائل ہیں بالآخر ان کی گفتگو کا موضوع رہتے ہیں۔
“انتقادیات” اور “ما لہ وما علیہ”ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔پہلے مجموعے میں اردو کے کلاسیکی شعرا کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور دوسرے میں اپنے عہد کے شعرا کے کلام کو پرکھا گیا ہے۔اس مجموعے کے مضامین معاصر شعرا کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔دونوں مجموعوں میں وہ تنقید ملتی ہے جسے بقول سید عبداللہ ‘نفسیاتی تنقید’ کا نام دیا جا سکتا ہے۔
نیاز فتحپوری کو جمالیاتی نقاد کہنا بھی درست نہیں۔جمالیاتی تنقید کو سلیقے سے برتا جائے تو وہ ایک سائنٹفک تنقید ہے اور معروضی انداز میں فن پارے کو جانچتی ہیں۔وہ ایک ایک کرکے اس کے محاسن و معائب بنا دیتی ہے اور ان وسائل کا پتہ لگاتی ہے جو کسی فن پارے کی دلکشی کا موجب بنے۔
نیاز فتح پوری جمالیاتی نہیں تاثراتی تنقید نگار ہیں۔ان کے یہاں وہ تاثرات ہی سب کچھ ہیں جو کسی فن پارے کے مطالعے سے ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیاز شاعری کے تفریحی پہلو کے قائل ہیں اور اس پر غور و فکر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ان کے نزدیک یہی بہت کچھ ہے کہ”شاعری ہماری فرصت کے لمحوں کو رنگین اور دلکش بنا دے اور ذرہ دیر کے لئے ہمارے بے چین دل کو اس کی آغوش میں سکون مل جائے”
چناچہ شعر کو پرکھنے کی ایک اہم کسوٹی نیاز فتح پوری کے یہاں یہ ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد ہمارے دل میں پسندیدگی کا جذبہ ابھرتا ہے یا ناپسندیدگی کا۔اور وہ اپنی پسند کے بارے میں بہت شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ لکھتے ہیں،”نہ میں اپنی پسندیدگی پر آپ کو مجبور کر سکتا ہوں اور نہ آپ مجھ سے اپنی عدم پسندیدگی کو بہ جبر تسلیم کراسکتے ہیں”
ایک اور جگہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ”کسی خیال پر نقد کرنے کے لیے سب سے پہلے اصول فطرت پر نظر ڈالنا چاہیے کہ وہ خیال کسی حد تک درمیانی منازل طے کرتا ہوا فطرت کے ساتھ ساتھ چلا ہے اور اگر کوئی شخص اس طرح فیصلہ کرنے پر قادر ہو تو پھر دوسرا اصول یہ ہے کہ اس کو صرف اپنی رائے پر اعتماد کرنا چاہئے کہ جو کچھ میں کہتا ہو وہی صحیح ہے”اسی اصول پر چلتے ہوئے انہوں نے مومن کے کلام کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
“اگر میرے سامنے اردو کے تمام شعرا متقدمین و متاخرین کا کلام رکھ کر -بہ استشناے میر-مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہ دوں گا کہ مجھے کلیات مومن دے دو اور باقی سب اٹھا لے جاؤ”
سچی تنقید چلتی ہوئی باتیں نہیں کہتی، فقرے بازی نہیں کرتی۔وہ اصولوں کے سہارے چلتی اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرتی ہے۔تنقید کا اصل کام فیصلے صادر کرنا بھی نہیں وہ تو قاری کی تربیت کرتی ہے اور اسے اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ خود کسی نتیجے پر پہنچ سکے۔
نیاز فتحپوری دراصل رومانی اور تاثراتی تنقید نگار ہیں۔کہنا پڑتا ہے کہ اپنی ساری علمیت اور شعر و ادب سے شغف کے باوجود وہ اردو تنقید میں کوئی قابل قدر اضافہ نہ کر سکے،مغربی تنقید تک ان کی دسترس تھی مگر اس سے بھی انھوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ان کی پسند ناپسند اتنی شدید ہے کہ وہ اکثر تحسین یا تنقیص سے آگے نہیں بڑھتے۔
نیاز فتح پوری کی تحریروں میں بے شمار ایسے موقعے آتے ہیں جب ان کی تنقید کی حیثیت مشاعروں کی واہ واہ اور سبحان اللہ سے زیادہ نہیں رہتی۔نہ یہ فن پارے کی تفہیم میں معاون ہوتی ہے نہ تحسین میں،نہ اس کی قدر و قیمت کے تعین میں۔اس کا سارا کمال لطف زبان تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔اس طرح کی تنقید کو ان معنی میں تخلیقی تنقید ضرور کہا جاسکتا ہے کہ قاری ان سے اسی طرح محظوظ ہوتا ہے جیسے کسی شعر سے،کسی نظم سے یا کسی انشائیہ سے۔گویا انہیں تنقید کے سوا آپ کچھ بھی نام دے لیجیے۔
نیاز فتح پوری کی تنقید جن خامیوں کا شکار ہے اس کی تفصیل اوپر پیش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اردو تنقید نگاروں میں نیاز فتح پوری کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ان کی زبان صاف، شستہ اور دلنشیں ہے اور قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ان کی تنقید نے شعر و ادب کا ذوق عام کیا اور ایک عرصے تک اس ذوق کی تربیت کی۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!