مولوی عبدالحق کی تنقید

مولوی عبدالحق نقاد بھی ہیں اور محقق بھی بلکہ وہ محقق پہلے ہیں اور نقاد بعد کو۔اس لئے مناسب ہوگا کہ پہلے تحقیق کے بارے میں مختصرا کچھ عرض کردیا جائے اور تحقیق و تنقید کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالی جائے۔
تحقیق در اصل نام ہے چھان بین اور سچائی کی تلاش کا۔احسن فاروقی کی یہ رائے درست نہیں کہ” تحقیق ایک قسم کی منشی گیری ہے۔اس کے لئے وہ خصوصیات کافی ہیں جو کسی معمولی ذہن کے انسان میں ہوں۔اس میں جدت طبع اور قوت اختراع کی ضرورت نہیں۔محض ایک کام سے لگ جانا ہے اور ٹکے بندے طریقے پر ایک لکیر پر چلتے رہنا ہے۔کہ اس میں جس قسم کی محنت درکار ہے اس کو اعلی ذہن اور اعلی تخیل رکھنے والا انسان کبھی بھی قبول نہ کرے گا۔تحقیق کے لیے مغزسگاں کی ضرورت ہے جبکہ تنقید کے لیے مغز شہاں درکار ہے”
اس میں شک نہیں کہ تنقید کا رتبہ تحقیق سے بلندتر ہے اور یہ درست ہی کہا گیا ہے کہ تنقید نگار ایک دماغ میں بہت سے دماغوں کی صلاحیتیں یکجا ہونی چاہیے اور اس کا مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے لیکن تحقیق کی اہمیت کچھ کم نہیں۔تحقیق وہ بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر تنقید نگار اپنی عمارت کھڑی کرتا ہے۔اس بنیاد کے بغیر عمارت کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔اگر یہ نہ معلوم ہو کہ فلاں شعر کسکا ہے اور یہ شاعر کس عہد و ماحول کا ہے تو اس شعر کی نہ تفہیم ممکن ہے نہ تحسین۔میر کی شاعری پر تین مضمون لکھے گئے۔ہر مضمون نگار نے کسی ایک شعر کو اپنے مضمون کی بنیاد بنایا۔
بعد کو تحقیق نے ثابت کردیا کہ یہ اشعار میر کے ہیں ہی نہیں۔بنیاد غلط تھی تو ساری عمارت منہدم ہوگئی۔مختصر یہ کہ نہ تحقیق تنقید سے دامن بچا سکتی ہے نہ تنقید تحقیق سے کنارہ کر سکتی ہے۔اس سلسلے میں سید عبداللہ کی رائے درست ہے کہ”کوئی سچی تنقید تحقیق سے آنکھ نہیں چڑھا سکتی اور صرف تاریخ ہی نہیں حیات انسانی کی پوری تاریخ اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔یہیں پہنچ کر تحقیق وتنقید معنی سے الفاظ بن جاتے ہیں۔کم ازکم دونوں کی باہمی بے تعلقی کا دعوی غلط ہی ثابت ہوتا ہے۔”
بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے کہ قدیم اردو ادب کا جو سرمایہ مخطوطات کی شکل میں صندوقچوں اور الماریوں میں بند تھا اور جس کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ مولوی صاحب نے اسے ترتیب دے کر شائع کیا اور برباد ہونے سے بچالیا۔ان کتابوں پر مولوی صاحب نے مقدمے لکھے۔ ان کتابوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی،مصنفین کے حالات زندگی دریافت کرکے ہم تک پہنچائے،ان تصانیف کے عہد پر روشنی ڈالی اور اردو تنقید کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
چھان بین اور تلاش و تحقیق مولوی صاحب کے مزاج کا خاصہ ہے یہی خصوصیت انھیں اپنے عہد کے دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتی ہے۔ان کے مضامین و مقدمات سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔مثلا یہ خیال عام تھا کہ میر امن کی ‘باغ و بہار’ فارسی کے ‘قصہ چار درویش’ کا ترجمہ ہے۔‌ مولوی صاحب نے مثالیں پیش کرکے اور دلیلیں دے کر اس خیال کو رد کیا اور ثابت کر دیا کہ اس کا ماخذ ‘نوطرزمرصع’ ہے۔انہوں نے دونوں کتابوں سے باغ وبہار کا مقابلہ کیا وہ اقتباس پیش کئے۔ ان کا یہی انداز ہے بے دلیل وہ کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔
انتخاب کلام میر پر مولوی صاحب کا مقدمہ کئی لحاظ سے بہت اہم ہے۔جب وہ میل کی سونے پیش کرتے ہیں تو قدم قدم پر اپنی تحقیق کا لوہا منواتے چلتے ہیں۔میر کی ابتدائی زندگی، ان کی تعلیم وتربیت، والد کی وفات کے بعد آلام و مصائب، اکبراباد سے روانگی، معاشی دشواریاں ،زندگی کے آخری ایام–ان سب پر مولوی صاحب نے قلم اٹھایا ہے اور جو کچھ لکھا ہے وہ بہت چھان بین کے بعد اور دلیلوں کے ساتھ لکھا ہے۔
غرض وہ کسی کتاب پر رائے دے رہے ہوں یا مصنف کے بارے میں لکھ رہے ہوں پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کر لیتے ہیں اور اس معلومات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اہل علم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔کلیم الدین احمد نے درست ہی کہا ہے کہ ان کی تنقید میں بھی تحقیق کا رنگ جھلکتا ہے۔
مولوی عبدالحق کی تنقید کی خاص خوبی ہے–اعتدال، توازن اور مکمل غیر جانبداری۔بعض تنقید نگاروں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی شاعر و ادیب یا کسی تصنیف کے بارے میں پہلے سے ایک خاص رائے قائم کر لیتے ہیں،پھر اس کی تائید میں دلیلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنی رائے درست ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ہونا یہ چاہیے کہ جس تصنیف یا جس مصنف پر تنقید کرنی ہو اس کا کھلے ذہن سے مطالعہ کرنا اور اس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔جو نتیجہ نکلے اس سے توڑے موڑے بغیر اپنے مضمون میں پیش کر دینا چاہیے۔مولوی صاحب یہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
مولوی صاحب کے اعتدال و توازن کے نمونے ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔میر کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں”الفاظ کا صحیح استعمال اور ان کی خاص ترتیب و ترکیب زبان میں موسیقی پیدا کردیتی ہے۔اس کے ساتھ اگر سادگی اور پیرایہ بیان بھی عمدہ ہو تو شعر کا رتبہ بہت بلند ہوجاتا ہے۔
میر صاحب کے کلام میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کا کلام ایسا درد بھرا ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پر چوٹ لگتی ہے جو لطف سے خالی نہیں ہوتی۔ان کی شاعری عاشقانہ ہے لیکن کہیں وہ اخلاقی اور حکیمانہ مضامین کو اپنے رنگ میں ایسی سادگی، صفائی اور خوبی سے ادا کر جاتے ہیں جس پر ہزار بلند پروازیاں اور نازک خیالیاں قراان ہیں” یہ عبارت پیش کرنے کے بعد کلیم الدین احمد اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ مولوی صاحب نے چند جملوں میں کلام میر پر ایسی جچی تلی رائے دے دی ہے کہ تنقید کا حق ادا ہو گیا ہے۔
سنجیدگی اور متانت مولی صاحب کے مزاج کا حصہ ہے۔بعض تنقید نگاروں کا یہ طریقہ ہے کہ کہیں مصنف کی ذرا سی غلطی نظر آئی اور وہ اس پر برس پڑے۔ایسا نہیں کہ مولوی صاحب غلطیوں کو نظر انداز کردیں۔ وہ ان کا ذکر تو ضرور کرتے ہیں مگر عالمانہ انداز سے اور متانت کے ساتھ۔مولوی عبدالحق سرسید سے بہت متاثر ہیں۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کی علمی و ادبی صلاحیت سرسید کے دامن تربیت میں پروان چڑھی۔
سرسید نے متعدد بار ان سے تصنیف و تالیف کے کام لیے۔اس لئے مولوی صاحب سرسید کی نثر سے متاثر بھی ہوئے اور ان اس کے مداح بھی رہے۔لیکن ذہنی طور پر وہ ان سے زیادہ حالی کے نزدیک نظر آتے ہیں۔دونوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔دونوں مغربی تنقید سے شناسائی ضرور رکھتے ہیں مگر دور دور سے۔ بنیادی طور پر دونوں کا ذہن مشرقی ہے اور دونوں ہی مشرقی خیالات و افکار سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔اسلوب نگارش کے اعتبار سے بھی مولوی صاحب سرسید سے زیادہ حالی کی نثر سے متاثر ہیں بلکہ ان کی نثر حالی کی نثر سے زیادہ دلکش ہے۔دونوں غوروفکر کے عادی ہیں۔
سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور واضح طور پر اپنی رائے دیتے ہیں۔کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ اردو تنقید کے دامن کو وسیع کرنے کی مولوی صاحب میں جو صلاحیت موجود تھی اس سے انھوں نے پوری طرح کام نہیں لیا۔بےشک یہ رائے درست ہے مگر اس بات کا ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ انہوں نے طرح طرح سے اردو ادب کی خدمت کی۔ان کی ذمہ داریاں زبردست اور دلچسپیاں گوناگوں تھیں۔اس لئے وہ صرف اردو تنقید کی خدمت نہ کر سکے۔پھر بھی اردو تنقید میں ان کا کارنامہ انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے”تنقید پر صرف وہی شخص لکھ سکتا ہے اور دوسروں کو ہدایت کر سکتا ہے جس کا تجربہ وسیع،مطالعہ گہرہ اور نظر دور بین ہو،جو صرف ذوق صحیح نہ رکھتا ہو بلکہ دنیا ادب کا شناور ہو،جس نے ایک مدت کے مطالعے اور غوروفکر کے بعد ان امور کے متعلق خاص رائے قائم کی ہو اور وہ اس رائے کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور دوسروں کے دل نشین کر سکتا ہو”
اور مولوی صاحب اس کسوٹی پر بڑی حد تک پورے اترے ہیں۔۔۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!