مغربی تنقید نگار


ایڈگرایلن پو
پچھلی صدی میں سائنس کو غیرمعمولی عروج ہوا تو شاعری کا سورج گہنانے لگا۔جو مفکر اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھے انھیں اس کے جواز کے لئے اخلاقی تعلیم کا سہارا لینا پڑا۔نتیجہ یہ کہ شاعری یا تو درس اخلاق کا وسیلہ خیال کی جانے لگی‌ یا پھر تفریح طبع اور وقت گزاری کا ذریعہ سمجھی جانے لگی۔ایڈگرایلن پو نے اس کے خلاف اپنا انقلابی نظریہ پیش کیا۔وہ فن میں نہ صداقت تلاش کرتا ہے نہ اخلاقی اقدار بلکہ صرف جمالیاتی اقدار کا متلاشی ہے۔حسن کاری کو وہ شاعری کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

کسی زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ شاعر کوئی نرالی مخلوق ہے اور کسی غیبی طاقت کے اشارے پر شعر کہتا ہے یا پھر وہ عالم جنون یا عالم اضطراب میں شعر کہتا ہے۔ایڈگرالین پو اس خیال کو رد کرکے شاعری کو شعوری کوشش کا نتیجہ بتاتا ہے اور یہ درست ہے کہ وہ شعر گوئی کے بجائے شعر سازی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔قاری کو شدید طور پر متاثر کرنا وہ شاعری کا مقصد قرار دیتا ہے۔یہ تاثر اس کے نزدیک حسن کاری سے پیدا ہوتا ہے۔اسی تاثر ہی کو ہی وہ اعلیٰ مسرت بتاتا ہے۔

ایڈگرایلن پو کے یہ تصورات فرانس پہنچے تو وہاں علامت نگاری کی تحریک کا آغاز ہوا اور جب فرانس سے ہوتے ہوئے انگلستان پہنچے تو وہاں فن برائے فن کا نظریہ عام ہوا۔
اس نے شعر و ادب کو اخلاق اور جذباتیت سے نجات دلا کے فن کی شعوری کاوش پر زور دے کر تنقید میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا۔
میتھیو آرنلڈ
میتھیو آرنلڈ کی ادبی زندگی شاعری سے شروع ہوئی لیکن بعد میں وہ تنقید کی طرف متوجہ ہو گیا۔رومانی تحریک کی انتہا پسندی اسے ناگوار تھی لیکن آنکھیں بند کرکے قدیم اصولوں پر عمل کرنا بھی اسے اتنا ہی ناپسند تھا۔چناچہ اس نے خود اصول وضع کیے اور اپنے تنقیدی مضامین سے انہیں عام کرنے کی کوشش کی۔
اس نے شاعری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مذہب اور فلسفہ اس زمانے میں بےوقعت ہو گے ہیں۔اور انسان کو سکون عطا کرنے میں ناکام ہیں لیکن شاعری بشرطیکہ وہ اعلیٰ درجے کی ہو، یہ خدمت انجام دے سکتی ہے۔نقاد کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی تنقید سے شاعری کو اس اعلیٰ مرتبے تک پہنچانے میں مدد کرے۔بلند خیالات اور اعلیٰ اقدار کی اہمیت واضح کرے۔اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہوگئی کہ وہ شاعری کے افادی و اخلاقی پہلو پر زور دیتا ہے۔جب وہ شاعری کو “تنقید حیات” کہتا ہے تو اس کی یہ مراد ہوتی ہے۔
موضوع آرنلڈ کے لئے بہت اہم ہے۔ وہ اس شاعری کا قدردان ہے جس کا موضوع بلند اور اسلوب اعلا ہو اور جو روح کی بلندی اور کردار کی تعمیر میں مدد دے۔اس طرح آرنلڈ نے شاعری کو تنقید اور تنقید کو مذہب و اخلاق کے تابع کرنے کی کوشش کی۔
وہ کل یورپی ادب کو ایک اکائی مانتا ہے اور اسے ایسے سمندر سے تشبیہ دیتا ہے جس میں چاروں طرف سے دریا آ کر گرتے اور ضم ہو جاتے ہیں۔ادب سے متعلق اس کا یہ نظریہ یورپ میں بہت مقبول ہوا۔
والٹر پیٹر
والٹر پیٹر کا تنقیدی نظریہ رسکن کے نظریے کی ضد ہے۔رسکن ادب کو اخلاقی تعلیم کا ذریعہ بتاتا ہے۔والٹر پیٹر کے نزدیک ادب کسی منزل کا راستہ نہیں خود منزل ہے۔والٹر پیٹر فن پارے کے ظاہری حسن پر زور دیتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک اسلوب ہی سب کچھ ہے مواد کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن یہ خیال غلط ہے۔وہ موضوع اور اسلوب کو الگ نہیں ایک سمجھتا ہے۔دونوں روح اور جسم کی طرح آپس میں ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ادب میں اس کا یہ نظریہ بہت مشہور ہے کہ فن کا اصل کمال فضول چیزوں کو خارج کردینے میں ہے۔
والٹر پیٹر کا مزاج رومانی ہے۔ ذاتی تاثرات اس کے نزدیک بہت اہم ہیں۔وہ ادب برائے زندگی یا ادب برائے اخلاق کے نظریے کو رد کرتا ہے۔یہ فن برائے فن اور ادب برائے ادب کا قائل ہے۔
ہنری جیمس
یورپی تنقید کے ارتقاء میں امریکی نقاد ہنری جیمس کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔اس نے فکشن کا فن (art of fiction) میں ناول کے بارے میں بعض ایسی اہم باتیں کہیں جن کا ناول نگاری کے فن پر گہرا اثر پڑا۔اس نے کہا کہ ناول کو زندگی کی حقیقتوں کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور جذباتیت سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اخلاقی اقدار اور حسن کاری کو بھی وہ ناول کے لئے ضروری خیال کرتا ہے۔
ہنری جیمس کے نزدیک زندگی کی ترجمانی ناول کے لیے بہت ضروری ہے۔اس کے بعد جو چیز ضروری ہے وہ فارم ہے۔
اس نے ناول نگاری کے لیے تین اصول وضع کیے۔ناول نگاری میں انسانی ہمدردی کا موجود ہونا ضروری ہے۔اسے چاہیے کہ ناول میں زندگی کی حقیقتوں کو پیش

کرئے۔آخری اور نہایت اہم بات یہ کہ ناول نگار کو ہئیت اور زبان پر خاص توجہ دینی چاہیے۔
ٹی ایس ایلیٹ
ہمارے زمانے کا سب سے بڑا نقاد ٹی ایس ایلیٹ ہے۔ایلیٹ سے پہلے روسو عقل اور معاشرتی پابندیوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کر چکا تھا اور اس کے افکار سے متاثر ہو کے انسانی جذبات و احساسات ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا تھا۔انفرادیت پر زور حد سے بڑھ گیا تھا۔
آخر اس رومانیت کے خلاف ردعمل ہوا۔امریکہ میں ارونگ بیبٹ نے،انگلستان میں ایزرا پاونڈ اور ہیوم نے روسو کی رومانیت میں انفرادیت کو رد کیا۔انہوں نے معروضی اور مثبت اقدار کی اشاعت کی۔اس ماحول میں ایلیٹ کی ذہنی نشوونما ہوئی اور اس نے ١٩٢٨ء میں یہ اعلان کردیا کہ”میں سیاست میں شاہ پرست، مذہب میں کیتھولک اور ادب میں کلاسکیت کا قائل ہوں”۔
ورڈز ورتھ نے شاعر ی کو جذبات کا بہاؤ کہا تھا۔ایلیٹ اس خیال کو رد کرتا ہے وہ شاعر ی کو جذبات کا اظہار نہیں جذبات سے فرار کہتا ہے۔اور شاعری میں شعور کے عمل دخل کا قائل ہے۔وہ شاعری کو شخصیت کا اظہار بھی نہیں مانتا بلکہ شخصیت سے فرار بتاتا ہے۔کہتا ہے کہ دکھ سہنے والا انسان اور اس کا اظہار کرنے والا فنکار دونوں الگ ہوتے ہیں۔مراد یہ کہ فنکار کسی تجربے کا فوری اظہار کرے تو وہ فن کار نہیں ہوسکتا۔اس کے لیے فاصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہیوم اور پونڈ کی طرح ایلیٹ نے فنکار کے بجائے فن پارے کو توجہ کا مرکز بنایا اور کہا کہ تنقید کا کام یہ ہے کہ فن پاروں کا تجزیہ و تشریح کرکے اس کی قدروقیمت معین کرے۔ایلیٹ نے “معروضی تلامذہ”(objective correlative) کا تصور پیش کیا یعنی فنکار اپنے تجربے کے لیے کوئی بیرونی تلازمہ تلاش کرلیتا ہے کہ جب وہ سامنے آئے تو اسکا اسی طرح اثر ہو جس طرح فنکار کے ذہن پر ہوا تھا۔
آئی اے رچرڈسن
رچرڈسن عہد حاضر کا ممتاز انگریزی نقاد ہے۔ہمارا دور سائنس کا دور ہے۔ سائنس نے زندگی کے ہر شعبے کی طرح تنقید کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ رچرڈسن بھی سائنسی طریقہ کار اختیار کرتا ہے اور سائنس کی ایک شاخ نفسیات سے بہت مدد لیتا ہے۔
وہ شاعری کو زندگی کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم شاعری سے وہ حاصل کر سکتے ہیں جو سائنس ہمیں نہیں دے سکتی۔شاعر عام انسان سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ جن ذہنی تجربوں سے وہ گزرتا ہے عام آدمی ان سے نہیں گزر سکتا۔ پھر وہ اپنے تجربے کو مربوط اور منضبط انداز میں پیش کر سکتا ہے۔اس لیے شاعری کا مطالعہ ہمارے تجربے کو وسعت دیتا ہے اور زندگی کو بہتر بنانے میں مدد گار ہوتا ہے۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!