ابن رشیق کی تنقید نگاری
عربی تنقید میں ابن رشیق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ابن رشیق واحد عربی تنقیدی نقاد ہے جس کا چرچا اردو تنقید میں بھی بہت ہوا ہے۔ابن رشیق نے تمام عربی تنقیدی تصورات اور نظریات کا جس انداز سے مطالعہ کیا ہے اور نئی تنقیدی نظریات و تصورات میں اضافہ کیا ہے وہ اس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
انہوں نے مرثیہ، قسیدہ اور صنف شاعری کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا اور نئے اصول بھی بنائے۔ابن رشیق ایک ہمہ گیر شخصیت کا مالک تھا ایک طرف اس کو عربی زبان و قواعد سے گہری واقفیت تھی تو دوسری طرف ادب اور تنقید نگاری میں وہ غیر معمولی صلاحیت کا مالک تھا۔
ابن رشیق اپنی کتاب ‘العمدۃ فی صناعۃ الشعر ونقد’ میں کہتا ہے کہ شاعر کو شاعر اس لیے کہا جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں سے وہ ان چیزوں کا شعور رکھتا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب میں شعر کی تنقیدی تاریخ اور شعر کی افضلیت بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام شاعری کے مخالف ہرگز نہیں ہے۔انہوں نے ایک باب میں شعر کے فائدے اور نقصانات سے بھی بحث کی ہے۔شعر کی تعریف اور نقد و معنی کی تعریف وغیرہ پر بھی گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی انھوں نے شعر کے اغراض و مقاصد اور اصناف شاعری پر تنقیدی نگاہ بھی ڈالی ہے۔
ابن رشیق شاعری کے لیے جدت معنی،سلاست،الفاظ کی عمدہ پیشکش،اختصار اور قدرتی اظہار کو ضروری قرار دیتے ہیں۔لفظ و معنی کی بحث مشرقی و مغربی اصولوں میں اہمیت کی حامل رہی ہے۔قدیم نقاد عام طور پر لفظ کو معنی پر ترجیح دیتے رہے ہیں۔ابن رشیق پہلا نقاد ہے جس نے لفظ و معنی کے رشتے کو جسم و جان سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ لفظ جسم ہے اور معانی روح ہے۔ابن رشد کے نذدیک شعر کی سب سے بڑی خوبی لفظ و معنی کی ہم آہنگی ہے۔
بعض نقادوں کا خیال ہے کہ مبالغے کے بغیر شاعری وجود میں نہیں آتی۔اسی لیے محض سچائی پیش کرنے سے شاعری میں جمالیاتی عنصر نہیں ملتے۔لیکن ابن رشید مبالغے کو پسند نہیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سب سے بہتر وہ ہے جو سچائی پر مبنی ہو اور مبالغے یا غلو سے پاک ہو۔
ابن رشیق نے شعری مسائل کے ہر پہلو کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ابن رشیق مبالغے کو جھوٹ کی ایک قسم سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں شاعری کے حوالے سے مبالغے پر بحث ہوتی رہی ہے۔قدیم نقاد کا یہ بھی ماننا ہے کہ حسین ترین شعر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے اچھا شعر سچائی پر مبنی ہوتا ہے۔لیکن عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ شعر کی بنیاد زیادہ تر جھوٹ پر ہوتی ہے۔
مبالغے اور غلو سے متعلق عرب ناقدین کے تصورات الگ الگ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض نقادوں نے شاعری کے لیے مبالغےکو لازمی قرار دیا ہے لیکن ابن رشید نے مبالغے کو جھوٹ سے تعبیر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عربی ناقدین میں ابن رشیق کے تصورات کو کافی اہم مانا جاتا ہے۔اور ابن رشیق ہی ایک ایسے ناقد ہیں جن کے اصولوں کو اردو تنقید میں اہمیت حاصل ہوئ۔
- اردو تنقید کا آغاز و ارتقا
- اردو تنقید اور اقسام
- اردو تنقید کا ارتقا
- ادبی تنقید کے اصول
- تنقید اور تخلیق کا رشتہ
- اردو میں متنی تنقید
- رس کا نظریہ
- مشرقی تنقید
- فارسی تنقید
- تاثراتی تنقید
- رومانی تنقید
- جمالیاتی تنقید
- مارکسی تنقید
- ترقی پسند تنقید
- نفسیاتی تنقید
- سائنٹیفک ادبی تنقید
- تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار 2
- افلاطون کی تنقید نگاری
- ارسطو کا تنقیدی نظریہ
- کارل مارکس اور فرائیڈ
- لونجائنس اور دانتے کا تنقیدی نظریہ
- اسلوبیاتی تنقید
- سر سید کے تنقیدی خیالات
- محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری
- الطاف حسین حالی کی تنقید نگاری
- شبلی کے تنقیدی خیالات
- مولوی عبدالحق کی تنقید
- نیاز فتح پوری کی تنقید نگاری
- مجنوں گور کھپوری کی تنقید نگاری
- ابن رشیق کی تنقید نگاری
- آل احمد سرور کی تنقید نگاری
- احتشام حسین کی تنقید نگاری
- کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری
- پروفیسر خورشید الاسلام کی تنقید نگاری
- محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری
- پروفیسر محمد حسن کی تنقید نگاری
- پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تنقید نگاری
- شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات
- وزیر آغا کے تنقیدی نظریات
- پروفیسر قمر رئیس کی تنقید نگاری
- سلیم احمد کے تنقیدی نظریات
- وحید الدین سلیم کی تنقید نگاری
- امداد امام اثر کے تنقیدی نظریات
- ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے تنقیدی نظریات
- عبدالقادرسروری کی تنقید نگاری
- سید سجاد ظہیر کی تنقید نگاری
- فراق گورکھپوری کی تنقید نگاری
- شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
- سید شبیہ الحسن