شہید وطن سید سلیمان شاہ روزن شاہ (بانی: تنظیم امدادالاسلام)

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

سیّد سلیمان شاہ کی پیدائش 1874 یوپی کے ایک علاقہ اعظم گڑھ میں ہوئی، آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد سیّد روزن شاہ اور اُن کا کنبہ مہاجرین کے ایک قافلہ کے ساتھ اعظم گڑھ سے آگرہ روڈ کے راستے دہولیہ میں آکر قیام پذیر ہوے۔دہولیہ قیام کے دوران ہی آپ کے والد روزن شاہ نے وہیں ایک شریف خاندان میں اپنے فرزند سیّد سیلمان شاہ کا عقد کروا دیا۔ اُن کی شادی کے کچھ دنوں بعد والد کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد سید سلیمان شاہ تلاش معاش کے سلسلے میں مالیگاوں آگئے۔ اسلام پورہ (وقار چوک والی گلی) یتیم خانہ کی چال (اِس سے پہلے برکت پورہ خانقاہ مسجد والی گلی کو یتیم خانہ کی چال سے جانا جاتا تھا) میں کراے کا مکان لے کر سکونت اختیار کی۔ محمد علی روڈ سے لگ کر بنڈو چکی کے پاس میں رزق حلال کے لیے چاے کی ہوٹل شروع کر دی۔ اپنے ادبی اور سیاسی ذوق کے مطابق دہلی، ممبئی، بجنور سے نکلنے والے اخبارات کو بذریعہ ڈاک منگوانا شروع کیا، جس سے شہر کے اکثر لوگ ملک کی خبروں سے واقفیت کے لیے اُسی ہوٹل پر آتے۔ شہید وطن سیّد سلیمان شاہ بڑے نیک، پرہیزگار، خوش اخلاق اور علمی، سیاسی،سماجی اصلاح کے ذوق کی حامل شخصیت تھی۔ اِنہیں خدا داد خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مرحوم حسین جوان کے چچا بیچئی میاں نے 1904 میں طاعون کی وبا پھیلنے کے بعد جو یتیم خانہ اُنہوں نے جاری کیا تھا، اُس یتیم خانہ کا سرپرست اور نگراں سیّد سلیمان شاہ کو بنایا۔ مزید خلافت کمیٹی کا سرپرست اور نگراں بھی آپ کی سیاسی بصیرت، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوے بنایا گیا۔ آپ کی زندگی کے کارہاے نمایاں کے طور پر جو چیزیں کتابوں میں ملتی ہیں وہ یہ کہ آپ نے سمرنا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے امدادالاسلام نامی بیت المال کمیٹی تشکیل دی، تحریک خلافت کے لیے رضا کار تنظیم قائم کی، لوگوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے مقررین اور شعرا کا ایک گروہ ترتیب دیا۔ تحریک عدم تعاون کے تحت شراب کی دکانوں کا بائیکاٹ کرنے میں بھی آپ نمایاں ہی رہے۔ نیز جب حکومتی عدالتوں کا بائیکاٹ ہوا تو سیّد سلیمان شاہ نے اپنی مخصوص مجلس، قومی عدالت میں تبدیل کر لی، جہاں لوگوں کے لڑائی جھگڑا، طلاق اور ترکہ وغیرہ کے مقدمات کی سنوائی کرکے فیصلے صادر کرتے۔ لوگ ہائی کورٹ تک کے مقدمے نکال کر آپ کے پاس لاے اور اُن کو حل کروایا۔

 

اِن تمام تر خوبیوں میں ایک خوبی جو آپ کی شخصیت اور آپ کے بلند پایہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے، کہ 26اپریل 1921 کو انگریز سامراج کا ہندوستان میں سب سے پہلے جب اِس سرزمین مالیگاوں پر خاتمہ ہوا تو بالاتفاق آپ کو اُس آزاد مالیگاوں کا کار گزار وزیر اعظم بنایا گیا۔ سیّد سلیمان شاہ صوفی منش، اولیاء اللہ سے عقیدت اور مرید ہونے کے لحاظ سے نسبت قادریت رکھنے والے تھے۔ آپ مالیگاوں میں ماضی قریب کے سلسلہ قادریہ کاملیہ کی مشہور شخصیت حضرت حافظ یحییٰ قادری کاملی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ سادہ لوحی کا یہ حال تھا کہ آپ کے مریدین آپ کی فقیرانہ زندگی کو دیکھ کر “زلفی بابا” کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ اپنے پیر و مرشد حضرت حافظ یحیی علیہ الرحمہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت نے اپنے مریدین سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ” تم میں میرا ایک مرید موجود ہے جو پھانسی پاکر درجہ شہادت پر فائز ہوگا۔” اور ایسا ہی ہوا کہ سیّد سلیمان شاہ کے مذکور بالا انگریز مخالف کارناموں اور آزادی ہند کی شورش میں پیش پیش رہنے سے پہلے ہی یہاں کا انگریز حکومتی عملہ اُن سے سہما ہوا تھا۔ وہ اِس موقع کی تاک میں تھے کہ کوئی مرحلہ آئے اور سید سلیمان شاہ کو گرفتار کیا جاے۔

 

محبّ وطن مجاہد حُرّیت،شہید ہندوستان سید سلیمان شاہ قادری ہر روز انگریزوں کو مُلک سے نکالنے کے لیے شہر میں کہیں نا کہیں اپنا کام کرتے رہتے، بالخصوص پانچ قندیل پر شہر کے لوگوں کا ہفتہ میں تین روز جلسہ لیتے جسے سلیمانی دربار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ جب مجاہدین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا تو بھاسکر (بھاسکٹ،بھسکٹ) راو جیسے حکومتی کارندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے الزام میں اور انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی پاداش میں آپ کو 01 مئی 1921 کو گرفتار کرکے ناسک سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا،مقدمہ کی سماعت کے بعد پونا کی ایروڈہ جیل بھیج دیا گیا۔جہاں 6 جولائی 1922 کو علی الصباح 45 سال کی عمر میں ہندوستان سے محبت کرنے اور ملک کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔

 

Back to top button
Translate »