مالیگاوں کے مسلم مجاہدین آزادی

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

جب بھی آزادیِ ہندوستان کی داستان سنائی جاے گی یا کوئی انصاف پسند مورخ تاریخ لکھے گا تو مالیگاوں کے شہدا اور جیالے مجاہدین کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرسکے گا۔اِس لیے کہ جہاں ملک کے دوسرے خطے کے لوگ ہندوستان کی آزادی کے لیے گورے انگریزوں سے برسرِ پیکار تھے اور اُنہیں ہندوستان سے نکالنے کی کوشش کررہے تھے وہیں وفاداران ملک اور محبّان وطن کی صفوں میں مالیگاوں کے غریب محنت کش مسلمان بھی اُن گوروں کو ہندوستان سے بھگانے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے۔ 20 مارچ 1920 کو اسلام پورہ یتیم خانہ میں خلافت کمیٹی تشکیل دی گئی۔کمیٹی کے اُصول و ضوابط طے ہونے کے بعد حاضرین نے انگریزوں سے جنگ کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھ کر جان پر کھیلنے کے لیے سر پر کفن باندھ لیا۔اُس کے بعد تحریک کے ممبران شہر میں جگہ جگہ جلسہ لے کر آزادی کی روح پھونکنے کی سعی میں لگ گئے۔اِن شورشوں کی خبر سے انگریز حکومت کا وظیفہ خوار عملہ حرکت میں آگیا۔مجاہدین کے خلاف حکومت کی طرف سے کاروائی اور گرفتاری کا حکم نامہ جاری کردیا گیا۔01 مئی 1921 بروز اتوار کو صبح سے مجاہدین آزادی کی گرفتاریاں شروع کی گئیں جس میں 121 مسلمان اور 6 برادران وطن کے ساتھ کل 127 افراد اپنوں کی مخبری کے نتیجے میں گرفتار ہوے(گرفتار ہونے والوں میں اکثر کرم اللہ استاد اکھاڑہ کے پہلوان جو حضرت حافظ یحیی قادری علیہ الرحمہ کے مریدین میں سے تھے)۔ گرفتار شدگان پر ابتدا میں مالیگاوں کورٹ (جو اُس وقت پانچ قندیل کی مراٹھی اسکول کے صحن میں بھرتی تھی جسے جونی کچہری کہا جاتا ہے) میں مقدمہ چلا،بعد ازاں 21 جولائی 1921 کو یہ مقدمات ناسک سیشن کورٹ منتقل کردیئے گئے جہاں چار ماہ تک سنوائی ہوئی 2 نومبر 1921 کو مجاہدین آزادی مالیگاوں کا فیصلہ دوسال،تین سال،سات سال،عمر قید اور پھانسی تک کی سزا سناکر اختتام کو پہنچایا گیا۔ (ڈاکٹر الیاس صدیقی،مالیگاوں کی سیاسی سماجی تاریخ،ص 170)

 

تحریکِ آزادی میں مالیگاوں کی تحریک خلافت کے جو سر بر آوردہ افراد تھے اُن میں منشی محمد شعبان تحسین ولد بھکاری، سیّد سلیمان شاہ روزن شاہ مومن،بدھو ولد فریدن،محمد اسرائیل اللہ رکھا،عبدالغفور ولد عبدالشکور چندی،محمد حسین حاجی مدّو سیٹھ،عبداللہ خلیفہ خدا بخش جو اِس تحریک میں پیش پیش تھے اُن کو گرفتار کیا گیا اوّل الذکر چار افراد کو پونا کی ایروڈہ جیل میں 6 جولائی 1922 کو انگریزوں کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔

 

عبدالغفور چندی صاحب چھ ماہ تک یوپی کے علاقے میں روپوش رہے جالنہ میں کشتیوں کا دنگل تھا کسی مخبر نے سپاہیوں کو خبر کردی سپاہیوں نے اُن کو جالنہ سے گرفتار کیا 18 جنوری 1923 میں آپ کو بھی پھانسی دے دی گئی اور آخر الذکر دو افراد کا جیل میں انتہائی جسمانی اذیت کی وجہ سے انتقال ہوا۔(ڈاکٹر الیاس صدیقی،مالیگاوں کی سیاسی اور سماجی تاریخ،ص 181)

حتی کہ بعض مجاہدین آزادی کو عبور دریاے شور یعنی کھارے پانی کا حکم ہوا۔(مولانا عبدالمجید وحید،تاریخ شہر مالیگاوں ص 37)

 

جس میں حکیم عبدالمجید(صدر خلافت کمیٹی،ساکن نیاپورہ)کو دریاے شور کی سزا ہوئی۔(شبیر حکیم،ماجراے وطن،ص148)

 

بلکہ مولانا عبدالمجید وحید صاحب کی روایت کے مطابق یہ بھی ملتا ہے کہ رہائی محبوسان جن کو عبور دریاے شور کا حکم ہوا تھا اُن کی رہائی مورخہ 17 اگست 1930 کو دس گیارہ برس بعد ہوئی رہائی سے واپسی پر اُن مجاہدین کا شاندار استقبال ہوا اور خوشیاں منائی گئیں۔(تاریخ شہر مالیگاوں،ص84)
واللہ اعلم ۔

 

ان کے علاوہ اور بھی افراد رہے جن پر انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے پر مقدمات چلے،سزائیں ہوئیں،کئی ایک پر اُس دور کے اعتبار سے بھاری بھرکم جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!