مالیگاوں میں جنگِ آزادی کا آنکھوں دیکھا حال

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

مرحوم احسن مالیگانوی کی کتاب ’’مالیگاوں میں جنگِ آزادی ‘‘ سے اقتباسات پیش کرنے سے پہلے ضروری یہی خیال کرتا ہوں کہ جس شخصیت کی کتاب سے اقتباسات لے کر نذرِ قارئین کرنے جارہا ہوں اُس شخصیت کا تعارف پیش کردیا جاے۔تاکہ نئی نسل ایسی بہادر ہستی کے کارناموں کو پڑھ کر اپنی زندگی کے لیے راہ نما خطوط متعین کرسکے۔

 

مصنفِ کتاب (مالیگاوں میں جنگِ آزادی) مرحوم احسن مالیگانوی کا مختصر تعارف:

 

مرحوم احسن مالیگانوی کی پیدائش 25/مارچ 1897ء کو ہوئی۔آپ کا آبائی وطن الٰہ آباد(اتر پردیش) ہے۔ آپ کے والد شیر محمد نے آپ کا پیدائشی نام محمد حسن تجویز کیا۔احسن صاحب بہترین شاعر تھے تحت اللفظ میں کلام پیش کرتے۔”احسن”تخلّص کے طور پر استعمال کرتے آگے اِسی سے آپ مشہور ہوے۔مرحوم احسن مالیگانوی نے دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ چراغ العلوم میں مجاہدِ آزادی مولانا محمد یوسف عزیز کے پاس فارسی زبان سیکھ کر اُس پر عبور حاصل کیا۔کیوں کہ اُس دور میں فارسی زبان کتابوں میں لکھی جاتی عام بول چال میں بھی فارسی کے الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا۔مرحوم احسن مالیگانوی جہاں ایک بہترین شاعر تھے وہیں ایک ادیب کی حیثیت سے بھی آپ نے اپنے آپ کو متعارف کروایا۔مالیگاوں میں جنگِ آزادی آپ ہی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو کہ آپ کے ادیبانہ ذوق کا پتہ دیتی ہے۔جس میں آپ نے جنگِ آزادی کے ہنگاموں کا آنکھوں دیکھا حال منشی محمد شعبان کے صاحبزادے خورشید احمد کے مطالبہ پر تصنیف کیا۔مرحوم احسن مالیگانوی نے جنگِ آزادی میں اپنی آنکھوں سے جو دیکھا اُس کو صفحہ قرطاس پر ثبت فرماکر آنے والی نسلوں پر احسان کیا ہے۔جتنے بھی اقتباسات آپ پڑھیں گے وہ سارے اقتباسات مرحوم احسن مالیگانوی ہی کی کتاب کے ہیں۔مرحوم احسن مالیگانوی آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک جنگِ آزادی کے رفقا کی جدائی کا درد اپنے سینے میں پنہاں کیے حیات رہے۔اُس دورِ زندگی میں اپنے ہم عصروں کو بالخصوص شہداے آزادی کو یاد کرتے اور اُن سے منسوب واقعات کو بیان کرتے۔19/اگست1988ء کو مالیگاوں جنگِ آزادی کا یہ مجاہد اور عینی شاہد بھی اپنے ہم رکاب شہید دوستوں کی طرح ہمیشہ ہمیش کے لیے شہر والوں کو داغ مفارقت دے کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔

 

عالم تصوّر میں شہدا سے چند باتیں:

 

سلام ہو تم پر اے مالیگاوں جنگِ آزادی کے مجاہدو!تمہارے خلوص کو اور تمہاری بے مثال قربانیوں کو سلام!تم نے ایک صدی قبل جو کردیا اب تمہارے شہر والے اور تمہاری قوم کے بزدل تن آسان نوجوان وہ بہادرانہ کام نہیں کرسکتے۔اگر تم دیکھ سکو تو اپنی قبروں سے احوالِ شہرِ بزدلاں دیکھو۔تمہارے نام سے منسوب یادگار تمہارے نام کے بغیر بے کس و بے بس گمنامی کی حالت میں صرف اِس انتظار میں کھڑی ہے کہ شاید کوئی دلیر،بہادر اور جری عقیدت کیش آکر اُس پر نامِ شہیداں کندہ کرواکر اُس کو مکمل کر سکے گا۔ اُس یادگار کا حال یہ ہے کہ اب تو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے اُس کی سیاسی عصمت ریزی ہورہی ہے۔اُس کا سیاہ لباسِ سنگ اُتر کر سیاسی پُھکّڑوں سے ستر پوشی کی دُہائی دے رہا ہے۔سیاست کی بے سایہ کڑی دھوپ میں اُس یادگار پر ہر سیاسی لیڈر اپنی مطلب پرستی کی روٹی سینک رہا ہے کون ہے آواز اٹھانے والا؟تم نے جن شراب خانوں کو انگریز مخالفت میں ایک صدی قبل بند کروا دیا تھا اب تمہارے ہی شہر کے عیّاش نوجوان دوبارہ اُن میں بیٹھ کر شراب نوشی کرکے تمہاری پاکیزہ تحریک انسدادِ مے نوشی(شراب بندی)کا کُھلے عام مذاق اُڑا رہے ہیں!تم نے انگریزوں کی غلامی کی بدترین زنجیروں کو اپنے گلے سے اُتار کر پھانسی کا پھندا لگانا تو گوارا کرلیا مگر کسی کی غلامی برادشت نا کی۔اب تمہارے جانے کے بعد تمہارے بعد والے صرف کاغذ کے چند ٹکڑوں کے لیے حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر لیڈروں کی چمچہ گیری پر فخر محسوس کر رہے ہیں اور اُن کی غلامی کا پٹّہ شان سے اپنے گلے میں ڈال کر اِتراتے پھررہے ہیں!تم نے جس شہر کو اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر قابلِ فخر،رشکِ جناں اور ایک مثالی شہر بنایا تھا اب اُس شہر میں قزّاقوں کا راج ہے۔اِس شہر کے لوگ اب تمہیں بُھلا چکے ہیں۔ اب اِنہیں اگر کوئی یاد رہتا ہے تو اِن کو نوچ کھانے والا لیڈر یاد رہتا ہے۔تمہاری یادیں اِن کے لیے دقیانوسی کہانی اور قصہِ پارینہ بن چکی ہیں۔6/جولائی کا دن جو تمہاری شہادت کا دن ہے آکر گزر جاے گا لیکن شاید شہر میں اُس دن تمہیں اور تمہاری قربانیوں کو کوئی یاد کرے گا!آو اور اپنی آنکھوں سے شہر کی اِس بھونڈی،بھدّی،غلیظ تبدیلی کو دیکھو!سیاسی بدحالی کو دیکھو!سماجی بگاڑ کا نظارا کرو!معاشرتی پسماندگی اور اخلاقی طور پر تباہ و برباد اور تاراج شدہ شہر کا اور لُٹے ہوے شہریوں کا حال دیکھو! اے شہیدانِ وطن! اللہ تم لوگوں پر رحم فرماے۔

 

خلافت کمیٹی کی تشکیل کے احوال:

 

مجاہدِ آزادی،احسن الکلام مرحوم احسن مالیگانوی مالیگاوں میں خلافت کمیٹی کے قیام کا جنگِ آزادی کا حال بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں:

 

’’مالیگاوں میں بھی خلافت کا چرچا کسی نا کسی صورت میں ہونے لگا تھا۔ یہاں کے مجاہدانِ آزادی بھی چوٹ کھاے ہوے شیر کی طرح انگڑائیاں لے کر دشمنوں پر لپکنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ اُسی زمانے میں (15/فروری1920ء) مولانا شوکت علی نے بمبئی کا دورہ کیا۔ مالیگاوں کے مجاہدین نے اُس موقع سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے سب سے بہادر،جفاکش اور نڈر نوجوان کارکن منشی شعبان کو تفصیلی معلومات کے لیے بمبئی روانہ کیا۔جہاں اُنھوں نے خلافت کمیٹی کے تمام لیڈروں سے ملاقات کرکے تفصیلی معلومات حاصل کی اور مالیگاوں میں خلافت کمیٹی کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔بمبئی سے لوٹنے کے بعد منشی شعبان نے خلافت کمیٹی کے قیام کی غرض سے یتیم خانہ(اسلام پورہ)میں مٹینگ بلوائی۔اُس زمانے میں یتیم خانہ انگریز دشمن تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا۔اُس مٹینگ میں امیر احمد گھڑی ساز،امجد،راقم الحروف(احسن مالیگانوی)،منشی خنداں اور متعدد دوسرے کارکن شریک رہے۔اُس مشورتی مٹینگ میں یہ طے کیا گیا کہ شہر کے سرداروں اور میونسپل کونسلروں سے کہا جاے کہ وہ خلافت کمیٹی قائم کرنے میں مدد دیں۔‘‘

 

اُس میٹنگ کے بعد مرحوم احسن مالیگانوی ایک اور مٹینگ کے متعلق لکھتے ہیں کہ منشی شعبان جیسے چند سرپھروں نے یتیم خانہ کے ایوان میں ایک اور مٹینگ (20/مارچ 1920ء) بلوا کر خلافت کمیٹی قائم کر دی۔ جس میں حکیم عبدالمجید احسان عرف طیّب بھیّا (صدر)، منشی شعبان بھکاری (جنرل سکریٹری)، محمد حسن احسن (اسسٹنٹ و پروپیگینڈہ سکریٹری)، محمد منشی جوہر (والینٹئر کور سکریٹری) اراکین: مولانا عبدالعزیز عزیز، حکیم فاروق، عبدالرزاق کوکب، منشی خنداں، منشی بیدل، قدرت اللہ سوز، امیر احمد گھڑی ساز، امجد، محمد صادق غریب، چاند صاحب، محمد علی فوجدار صاحب وغیرہ۔ یہ مختصر احوال خلافت کمیٹی کے قیام سے متعلق جنگِ آزادی مالیگاوں کے عینی اور چشم دید شاہد مجاہدِ آزادی مرحوم احسن مالیگانوی (اسسٹنٹ و پروپیگینڈہ سکریٹری، خلافت کمیٹی) نے اپنی مستند کتاب ’’مالیگاوں میں جنگِ آزادی‘‘ میں قلمبند کیے ہیں۔ جس کو صرف اِس لیے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا تاکہ لوگ محسوس کریں کہ ایک صدی قبل جن نوجوانوں کو آزادی کی آواز بلند کرنے کے جرم میں تختہِ دار پر چڑھایا گیا اُن جِیالے اور آزادی کے متوالے نوجوانوں نے وقت کی ظالم حکومت سے ٹکراکر کیسا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جنگِ آزادی مالیگاوں سے متعلق بقیہ احوال ان شاء اللہ تسلسل کے ساتھ اقتباس کی صورت میں نذرِ قارئین ہوتے رہیں گے۔ قارئین سے التماس ہے کہ 6/جولائی کو اِن محسنین کی یاد میں اپنے علاقوں میں تقاریب کا انعقاد کرکے خراج پیش کریں۔

 

آزادی کی تحریکات کا بچّوں پر اثر:

 

مجاہدِ آزادی مرحوم احسن مالیگانوی جنگِ آزادی کے اجلاس اور اُس وقت کے ماحول کی منظر کشی کرتے ہوے یوں رقمطراز ہیں:


’’ منشی شعبان،موتی لال ویر چند شاہ اور راقم الحروف (محمد احسن مالیگانوی) جوان اور جوش و جذبہ سے بھرپور تھے۔ اور جلسوں، تقریروں میں انگریزوں کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین پر بھی سخت تنقیدیں کیا کرتے تھے۔”

 

مزید آگے لکھتے ہیں:

کہ جوش و جذبہ سے پُر اُس تحریک کا اثر بچّوں پر بھی شدید تھا۔ چنانچہ اُس تحریک سے متاثر بچّوں کے جلسے مالیگاوں کے محلہ موتی تالاب میں کثرت سے ہوتے تھے۔ اُن کے لیڈر الحاج عبدالعزیز بھکّو (مرحوم) اور محمد غفران حافظ (سابق امام مسجد قصاب باڑہ) تھے۔ حُسنِ اتفاق کہ اُسی زمانے میں مولانا خجندی صاحب مالیگاوں میں تشریف لاے ہوے تھے۔ وہ بھی اُن بچّوں کے جلسوں میں شریک ہوے۔ اُنہوں نے بچّوں کو سراہا۔ اُن کے حوصلے بلند کیے۔ اور بچّوں کی اُس کارروائی کو تار کے ذریعہ اخبارات کو بھیجا۔ اخبارات کے مدیران نے مالیگاوں کے اُن بچّوں کے جوش اور جذبے کو خوب سراہا۔ بڑے بڑے مقالات لکھے اور اُسے آزادی کے لیے نیک شگون قرار دیا۔ پھلنے پھولنے والی اِس تحریک کی پشت پر منشی شعبان کی بلند ہمت شخصیت چٹان کی طرح کھڑی ہوئی تھی۔‘‘

 

تبصرہ:

قارئین!مذکورہ بالا اقتباس پر غور فرمائیں 1920ء میں ہمارے شہر کا وہ خوش نما ماحول جس کی منظر کشی جنگِ آزادی کے عینی شاہد مرحوم احسن مالیگانوی نے کی ہے۔کہ اُس وقت کے پاکیزہ ماحول کا اثر یہ تھا کہ نوجوانوں اور بڑوں کو ملک کی آزادی کے لیے کوشاں دیکھ کر شہر کا بچّہ بچّہ آزادی کی تحریک میں حصہ دار بن گیا تھا۔بچّے بھی جوش و خروش کے ساتھ اجلاس منعقد کرنے لگے۔آج کا ماحول اُس پاکیزہ فضا کے بالکل برخلاف ہے۔آج کے ماحول سے بچّے صرف آوارہ اور بڑوں کے بے ادب بن رہے ہیں۔جن زبانوں پر قرآنی آیات کے نغمات،نعتِ مصطفے اور بزرگوں کی بہادری کے واقعات ہونا چاہئے تھے۔بدقسمتی سے اور گناہ زدہ بدبو دار ماحول کی غلاظت کی وجہ سے اُن زبانوں پر گندی اور غلیظ گالیاں ہیں!نوجوانوں کو گالیاں دیتے فلم بینی کرتے دیکھ کر بچّے بھی اُسی رنگ میں رنگ رہے ہیں۔ورنہ دنیا کے کسی خطے میں گالیاں سکھانے کے لیے نا تو کوئی اسکول ہے اور نا ہی کسی مدرسے میں گالی سکھائی جاتی ہے۔یقینا گھر کا ماحول اور معاشرے میں دی جانے والی گالیوں کا ہی یہ بھیانک اثر ہے کہ بچّے گالیاں سیکھ رہے ہیں۔بچّے قوم کا مستقبل ہیں اِن کی تربیت کے لیے گھر اور معاشرے کا ماحول پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔اگر ہم ملک و ملّت اور شہر کو ترقی پذیر دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچّوں کو پھر سے ایک صدی قبل کے بچّوں کی تحریکات کا عادی بنانا ہوگا۔اُنہیں وہ پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہوگا جو ماحول مجاہدینِ آزادی منشی محمد شعبان،مولانا جان محمد،سلیمان شاہ،اسرائیل اللہ رکھا، عبدالزراق کوکب، مرحوم احسن مالیگانوی، بدھو فریدن، عبدالغفور (پہلوان)، مولانا خجندی، مولانا محمد اسحق، محمد حسین مدّو، عبداللہ خلیفہ و دیگرہم نے اُس دور کے بچّوں کو دیا تھا ۔تب جاکر آزادی کی صبحِ خوشبودار طلوع ہوئی۔آج ضرورت ہے اپنے ماضی میں جھانکنے کی جب تک قومِ مسلم پیچھے پلٹ کر اپنا ماضی نہیں دیکھے گی اُس وقت تک اِنہیں کامیابی نہیں مل سکتی۔6/جولائی کو اِنہیں مجاہدین کی شہادت کا دن ہے شہر کے اداروں اور کلبوں کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ اُس دن تقاریب کا انعقاد کرکے اِن سُورماوں کی داستانِ بہادری بتائیں تاکہ نسلِ آئندہ کے لیے وہ واقعات مشعلِ راہ بن سکیں۔

 

تحریکِ انسدادِ مے نوشی(شراب بندی):

 

تحریک انسدادِ مے نوشی سے متعلق مرحوم احسن مالیگانوی لکھتے ہیں:


’’چنانچہ انسدادِ مے نوشی(شراب بندی)کی تحریک چلی اور ایسی چلی کہ ملک بھر میں اِس کا چرچا ہوا۔اُس بڑے سمندر کی ایک چھوٹی سی ندی مالیگاوں میں بھی تھی۔جس میں مسلسل زور دار لہریں اُٹھ رہی تھیں۔وہ بھلا اِس سے متاثر ہوے بغیر کیسے رہ سکتی؟مے نوشی کے خلاف بمبئی سے اشتہارات مالیگاوں آے۔جنہیں منشی شعبان،سونو درزی اور دوسرے متعدد مجاہدین نے سپاٹی بازار اور دوسرے مقامات پر چسپاں کیے اور بھاجی بازار میں شراب نوشی کے خلاف ایک جلسہ بھی ہوا۔اُس پوری تحریک میں منشی شعبان جسم میں دوڑنے والے خون کی طرح شامل رہے۔اُس جلسے میں بہت سے شرابیوں نے شراب پینے سے توبہ کی۔مے کدوں کے در بند ہوگئے۔لوگ شرابیوں کو بری نظر سے دیکھنے لگے۔نتیجہ خاطر خواہ اور اچھا ہی نکلنے لگا۔بھلا اِس کو بدیسی ساقی کیسے برداشت کرسکتا تھا۔مجاہدینِ آزادی کی یہ وہ ادا تھی جو حکومت کو پسند نا آئی۔چنانچہ فوجدار بھاسکٹ راو نے منشی شعبان اور اُن کے ساتھیوں کو بلا کر دھمکی دی۔لیکن جب دلوں میں آفاق گیری کے ولولے مچلتے ہیں تو منزل کی طرف دوڑنے والے راہ کی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔وہ آگ جو آزادیِ کامل کے ایندھن سے دلوں میں بھڑک رہی تھی وہ بھلا اِن دھمکیوں سے کیا سرد ہوتی۔منشی شعبان نے جواب دیا کہ آپ جو چاہیں کریں۔ہماری تحریک اِسی طرح چلتی رہے گی۔میخانوں پر پیکٹنگ جاری رہے گی۔ہم آپ کی دھمکیوں میں آکر یہ تحریک بند کرنے والے نہیں ہیں۔چنانچہ یہ تحریک چلی اور شان سے چلی۔جانے کتنے عادی شرابیوں نے شراب سے توبہ کی۔اور نا جانے کتنے گھروں میں تباہی کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔فوجدار کی بار بار دھمکیوں کے باوجود منشی شعبان اپنی جگہ اٹل رہے اور آخر تک متزلزل نہیں ہوے۔یہ عزم و حوصلہ تھا اُس مردِ مجاہد کا۔‘‘زندہ باد منشی شعبان!

 

تبصرہ:

حق کی راہ پر چلنے والوں کے قدموں میں زنجیر ڈالنا آسان کام نہیں ہوتا۔ جب وہ ارادہ کرلیتے ہیں تو پھر وقت کی باطل قوتوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں۔یہی جذبہ 1920ء میں شہر کے نوجوان مجاہدینِ آزادی کا تھا۔شراب پینے کی انگریزی حکومت کی طرف سے مکمل چُھوٹ تھی۔ایسے میں شراب کے خلاف آواز اٹھانا گویا وقت کی ظالم حکومت کو للکارنے کے مترادف تھا۔لیکن مالیگاوں کے جِیالے نوجوانوں نے انجام سے بے پرواہ ہوتے ہوے شراب خانوں میں جاکر لوگوں کو شراب سے توبہ کروائی۔مجاہدین نے اِس قدر محنتیں کیں کہ شراب خانوں کی رونقیں سرد پڑگئیں۔جس کی بنا پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر مقامی حکومتی کارندوں کی طرف سے مجاہدِ آزادی منشی محمد شعبان اور دیگر مجاہدین کو پابند سلاسل کردینے کی دھمکیاں بھی ملنے لگیں۔لیکن مجاہدین نے جو قدم حق کے لیے اُٹھایا تھا اُس سے اُنہوں نے سرِ مُو انحراف نا کیا۔ایسا جذبہِ صادق اِس دور کے نوجوانوں میں کہاں کہ وہ شراب بند کروائیں اور خود اگر پی رہے ہیں تو شراب سے توبہ کریں؟اب تو نوجوان فی زمانہ شباب اور شراب اِنہی دونوں کا متوالا ہوگیا ہے۔فرصت کے لمحات ہوں یا مصروفیات کی ساعت،وبائی امراض کے ایام ہوں یا عام دن حتی کہ ماہِ رمضان کے مبارک ایام،اِس دور کا نوجوان غیرت،حیا،شرم،خوفِ الٰہی کے تمام مقدّس پردوں کو چاک کرکے بے حیائی کے ساتھ یا تو شراب پی رہا ہے یا پھر کسی اسلامی بہن کی عزت سے کھلواڑ کررہا ہے۔(العیاذ باللہ!)

 

انسانی تاریخ اِس بات پر عادل و شاہد ہے کہ جو اِن دونوں کے پیچھے گیا سب کچھ برباد کرکے لوٹا۔اُمّ الخبائث،اصلُ الجرائم بنتِ عنب نے تو پورا معاشرہ ہی تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔باپ پریشان ہے مائیں سِسکیاں لے رہی ہیں،بیٹے باپ کی شراب نوشی سے عاجز ہیں،اہلیانِ محلّہ تنگ آگئے ہیں حتی کہ شراب کی وجہ سے مسلم بیٹیاں طلاق لینے پر مجبور ہیں۔ضرورت ہے آج بھی مجاہدین آزادی کی انقلابانہ زندگیاں پڑھ کر اُن سے درس لینے کی۔ کاش!ہمارے شہر کے اُن شہدا کی یادیں ہر برس 6/جولائی کو منائی جاتیں اور نئی نسلوں تک اُن کی زندگیوں کے اِن پاکیزہ پہلووں کو اجاگر کیا جاتا تو شاید ہماری قوم کے نوجوان کچھ عبرت حاصل کرتے۔اللہ پاک مجاہدین کو غریق رحمت فرماے۔

 

پابندیِ نماز کی تحریک:

 

مرحوم احسن مالیگانوی جنگِ آزادی کے چشم دیدہ احوال بیان کرتے ہوے مزید آگے رقمطراز ہیں:


’’چونکہ مالیگاوں میں آزادی کی یہ تحریک ایک خالص مذہبی مسئلہِ خلافت سے شروع ہوئی تھی۔اِس لیے شروع سے ہی اِس کا رُجحان دینداری کی طرف تھا۔اور پھر انسدادِ مے نوشی کی تحریک بھی مذہب کے ایک پاکیزہ جذبہ کا ہی عکس تھی۔اِس لیے مذہبیت کا عنصر بھی ساتھ ساتھ چلا۔منشی شعبان نے محسوس کیا کہ صرف شراب سے توبہ کروانا تو بڑی بات نہیں ہے۔بڑی بات تو یہ ہوگی کہ اُن تائبین شرابی کو نمازی بھی بنایا جاے۔اِس طرح تحریکِ آزادی کو بھی اچھے کردار کے کارکن ملتے رہیں گے۔انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ خدا سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ وہ اِس غیر ملکی حکومت سے ملک کو نجات دلاے۔لوگوں کے اخلاق سدھریں اور ملک میں بھلائیوں کا چلن عام ہو۔چنانچہ نماز کی تحریک چلائی گئی۔جس میں منشی شعبان،مولوی عبدالکریم،جوہر منشی،خنداں منشی،راقم الحروف(احسن مالیگانوی) کوکب صاحب احمد استاد،مصری خاں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘‘

 

تبصرہ:

لاک ڈاون کے ایام میں لوگوں کو یہ شکایتیں رہیں کہ مساجد کے ذمہ داران نماز کے لیے مسجد کا دروازہ نہیں کھول رہے ہیں۔ذمہ داران لوگوں کے طعنے اور گالیاں سن کر پریشان ہوگئے تھے۔مگر اب مشاہدہ یہ ہے کہ مندی کی وجہ سے کاروبار کئی دنوں سے مکمل بند ہے۔بالکل فرصت کے لمحات ہیں اُس کے باوجود شراب کے اڈّے،جوے خانے،زنا کے اڈّے نوجوانوں سے بھرے ہوے ہیں۔رات و دن نوجوانوں کا صرف یہی مشغلہ ہے کہ موبائل پر گیم،لوڈو،پب جی،تاش وغیرہ کھیل کر وقت گزاری کرکے نمازوں کو ضائع کررہےہیں خدا خانے اِن چُھٹیوں میں بھی ویران ہیں آخر کیوں؟ہوٹل کی کرسیاں اور چوک چوراہوں کے باکڑوں پر بیٹھ کر گھنٹوں ٹائم برباد کیا جارہا ہے!اب مسجد میں جانے سے نوجوانوں کو کس نے روکا؟مسجد کے ذمہ داران نے؟کارخانے کے سیٹھ حضرات نے؟یہ بات ماننا پڑے گی کہ یہ سارے الزامات لُولے اور لنگڑے تھے۔اور ایسے لُولے لنگڑے بہانے نا تو دنیا میں کسی کام کے ہیں اور نا ہی آخرت میں نجات دلانے والے۔اپنی غفلت،کاہلی اور لاپرواہی کا پٹارا دوسروں کے سر پھوڑنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔نوجوانوں کا حال تو اتنا بد سے بدتر ہے کہ وہ گناہوں کے لیے تو دعوت دیتے ہیں بلکہ غول کا غول جمع ہوکر محلوں میں اجتماعی گناہ کرتے ہیں۔مگر نمازوں کا جذبہ نا تو خود کے اندر ہے اور ناہی کسی کو نماز کی دعوت دیتے ہیں۔جب قوم مسلم کے حالات ایسے ہوجائیں تو رسوائی اُن کا مقدر بن ہی جاتی ہے۔مجاہدینِ آزادی کی تمام تحریکوں میں کامیابی کا راز اِسی بات میں پنہاں تھا کہ وہ باہر نکل کر آزادی کے لیے محنتیں کرتے اور خانہ خدا میں جاکر نماز کے بعد اُس محنت کی قبولیت کے لیے بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے۔ہر نماز سے پہلے مجاہدینِ آزادی نے لوگوں کو مسجد میں لانے کا معمول بنالیا تھا۔اگر کامیابی حاصل کرنا ہے اور معاشی پسماندگی کو دور کرنا ہے تو مجاہدینِ آزادی کی تحریک پابندیِ نماز سے سبق لے کر آگے بڑھنا ہوگا کامیابی ہمارے دامن میں ہوگی۔ ان شاء اللہ

 

غیر ملکی کپڑوں کے بائیکاٹ کی تحریک:

 

اِدھر مجاہدینِ آزادی اپنی تعمیر خود ہی کررہے تھے۔اور اُدھر قومی مسائل میں عملا حصّہ بھی لے رہے تھے۔یہ واقعات جو آپ اِن صفحات میں پڑھ رہے ہیں۔اِس کا صحیح مقام اور اہمیت شائد محسوس نہ کرسکیں۔لیکن اب سے 40 سال پہلے جب ملک پر غیر ملکی سامراج کا پنجہ استبداد بُری طرح گڑا ہوا تھا۔تب اِن مسائل کو لے کر اٹھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔بلندی سے اپنے آپ کو ڈھلوان کی طرف چھوڑ دینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔لیکن بلندی پر چڑھنے کے لیے بلِا شبہ بڑی صعوبتیں اور مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ایسے عالم میں جب مارکیٹ پر غیر ملکی قبضہ ہو تب نفع خور غیر ملکی تاجروں کے منھ سے نوالہ چھیننا آسان نہ تھا۔گاندھی جی کی ایما پر کھادی کی تحریک چلائی گئی۔پورے ملک میں غیر ملکی کپڑوں کی ہولی جلائی گئی۔اپنے وطن میں اپنی ضرورت کے مطابق کپڑا تیار کرنے کے لیے گاندھی جی کی آواز میں پورے ملک کی آواز شامل ہوگئی۔جسے دیکھو وہی کھادی کا شیدائی بن گیا۔لوگ کھادی کا استعمال کرنے لگے۔مالیگاوں میں سودیشی کی یہ تحریک مجاہدینِ آزادی منشی شعبان، جوہر منشی،زین العابدین عابد، محبوب خان،شیخو میاں،تاتیا کھرے وکیل،موتی لال سیٹھ،راقم الحروف(مرحوم احسن مالیگانوی) اور بانو شاہ کے دم سے شعلہِ جوالہ بنی۔اور آتش فشاں اُبلنے والے لاوے کی طرح ولائتی نام کی ہر چیز کو بھسم کرنے لگے۔جس کے سر پر ولائتی ٹوپی دیکھی گئی برسرِ عام جلادی گئی۔خاص بھاجی بازار میں بدیسی کپڑوں کی سب سے بڑی ہولی جلائی گئی۔

 

تبصرہ:

تجارت میں اگر کوئی سر پر مسلّط ہوجاے تو اُس کو نیچے کیسے اُتارا جاے یہ پہلو بھی 1920ء مالیگاوں کی جنگِ آزادی میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔جب غیر ملکی نفع خور سامراج تجارت کی منڈی میں اپنا مال من مانی قیمتوں میں فروخت کرکے ملک کے باشندوں کی کمائی ہوئی گاڑھی دولت کو اپنے خزانے میں اکٹھا کرنے لگا۔اور مقامی بنکروں کی محنتوں کا استحصال ہونے لگا تو آزادی کے رہنماوں کی ایما پر مجاہدین نے متّحد ہوکر ولائتی کپڑوں کے بائیکاٹ کی تحریک شروع کردی۔تاکہ لوگ ملک میں بنے ہوے کپڑوں کا استعمال کریں۔جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے ودیشی کپڑوں کی بجاے ملک میں بنے ہوے کپڑوں کو پہننا شروع کردیا۔انگریز حکومت کو یوں لگا کہ یہ تحریک ہندوستان کے بنکروں اور کسانوں نے چھیڑی ہے۔نتیجے میں ظالم انگریزوں نے بنکروں کی انگلیاں تک کاٹ دیں۔انگریز حکومت نے جذبہِ انتقام میں یہ تک کیا کہ کانپور سے الٰہ آباد تک سڑک کے دونوں کنارے درختوں پر بنکروں اور کسانوں کو سُولی پر لٹکادیا۔اِس کے علاوہ کچھ بنکروں کو گولیاں مارکر ہلاک کیا۔کیا بنکر اپنی اِس درد بھری خونین تاریخ کو بھول چکے ہیں؟کیا بنکروں نے اپنے باپ دادا کی قربانیوں کو فراموش کردیا ہے؟جن مشقتوں کے بعد بنکر اِن سکون بھرے ماحول میں پہنچے ہیں’’کرگھے سے پاورلوم تک ‘‘ کیا وہ مصیبت کے لمحات بنکر بھول گئے؟کیا اب آزادی کے مجاہدین اور ماضی کے بنکروں کی طرح متّحد ہوکر آج کے بنکر وقت کے نفع خور سامراج کا مقابلہ نہیں کر سکتے؟ آج شہر مالیگاوں میں پاور لوم صنعت مندی کی وجہ سے کم بنکروں کی آپسی نا اتفاقیوں کی وجہ سے زیادہ بُحران کا شکار ہے۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ بیوپاریوں کو بنکروں نے اپنے سر پر زبردستی مسلّط کیا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے مال (سوت اور تیار کپڑا) کے دام میں کمی زیادتی کرکے اپنا کام کمالِ ہوشیاری سے پورا کرجاتا ہے۔جو بیوپاری دو دہائیوں قبل تک منہ مانگی قیمت میں ہمارے بڑوں سے مال لینے کے لیے گھر تک چل کر آتا تھا۔اب حالات یہ بن گئے ہیں کہ اُنہیں کی اولادیں تانبا کانٹا میں بھیک منگوں کی طرح اِس باکڑے اور اُس پائتری پر بیٹھ کر بیوپاری کی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہوے اُسی کی منہ بولی قیمت میں مال فروخت کرکے محنت کی کمائی بیوپاری کی جھولی میں ڈال کر اپنی محنتوں کا استحصال کررہی ہیں۔اگر بنکر خود اعتمادی اور وقار کے ساتھ کاروبار کریں تو شاید مزدوروں کو بھی دو پیسہ زیادہ مل جاے۔مگر اب تو ہر چہار جانب سے بیوپاری کبھی دھارے کے نام پر تو کبھی چیک تُڑوانے کے نام پر!اور جب کبھی بازار اُٹھے تو سوت کے دام میں اضافے کے نام پر ہمارے بنکروں کی گاڑھی ملائی پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔حیرت ہے!چوبیس گھنٹہ آہنی مشینوں سے لڑکر پسینہ بہاتے ہوے کام کرکے کپڑا تیار کرے مزدور!اُس کے پیچھے مکمل دماغ کھپاے بنکر!اور اے سی روم میں بیٹھ کر ساری ملائی مع کُھرچنی چٹ کرجاے بیوپاری!اِس لیے شہر کے بنکر حضرات اپنی گاڑھی محنت کی کمائی بچانا چاہتے ہیں تو اپنے اسلاف کی روِش پر قائم رہ کر شان کے ساتھ بغیر کسی کی داڑھی کو ہاتھ لگاے کاروبار کو ترجیح دیں۔اگر مصیبت آجاے تو ہر مشکل محاذ کا مقابلہ متّحد ہوکر کریں۔یہی سبق آزادی کے مجاہدین کی ولائتی کپڑوں کے بائیکاٹ کی تحریک سے ملتا ہے۔کاروبار اُصول کے مطابق کریں تو یہ ایسی منافع بخش تجارت ہے جس میں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی تجارت کے صدقے بہت زیادہ برکت رکھی ہے۔بشرطیکہ ہماری تجارت سودی لین دین، جھوٹ، دھوکہ دہی،غصب اور مزدوروں کی حق تلفی سے پاک ہو۔اللہ پاک معاشی مندی کا خاتمہ فرماے۔

 

تحریک ترکِ موالات(نان کوآپریشن):

 

ترکِ موالات(نان کوآپریشن)کے زیر اثر مالیگاوں کے مجاہدینِ آزادی نے بھی سرکاری عدالتوں کا بائیکاٹ کرکے قومی عدالتیں قائم کرلیں۔خلافت کمیٹی والوں نے یتیم خانے کے ایوان میں قومی عدالت کی بنیاد ڈالی۔جس کے صدر مولانا خجندی تھے۔اِس عدالت کے کارنامے مٹرو کے اُس مشہور مقدمہ کا تاریخی فیصلہ ہے ۔جس میں شہر کے تمام سردار ناکام رہے تھے اور جس کی سماعت ہائیکورٹ میں جاری تھی۔جس وقت قومی عدالت کی بنیاد پڑی مٹرو نے عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کردیا۔اِس مقدمہ میں روزن سردار اور دوسرے گواہوں کے حلفیہ بیانات لیے گئے اور مقدمے کا فیصلہ کرایا گیا۔مٹرو کی بیوی اُس کے ساتھ رہنے لگی۔اُن کی زندگی اتنی خوش گوار گزری کہ یہ لوگ ساری زندگی خلافت کمیٹی والوں کو دعائیں دیتے رہے بعد میں مٹرو نے اُس مقدمے کو ہائی کورٹ سے نکال لیا۔اِس پورے معاملے میں منشی شعبان کی معاملہ فہمی اور جفاکشی نے بڑے کارہاے نمایاں انجام دیئے۔یہ انہیں کا کام تھا کہ انہوں نے جوہر منشی اور راقم الحروف(احسن مالیگانوی)کو وطن کے تقاضے سمجھاتے ہوے سرکاری ملازمتوں سے مستعفیٰ ہوجانے کا مشورہ دیا۔ہم لوگوں نے اپنی لگی لگائی روزی کو لات مار دیا۔

 

اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔

 

تبصرہ:

یقینا یہ مجاہدینِ آزادی کا جوش اور جذبہ ہی تھا کہ اُنہوں نے غیر ملکی ظالم حکومت سے پنجہ آزمائی کے لیے اُن سے معاملات کے متعلق عدمِ تعاون کا اعلان کیا۔اور مقامی باشندوں کے عائلی،خانگی و معاشرتی مسائل کے حل کی خاطر علاقائی سطح پر قومی عدالت قائم کرکے لوگوں کے مسائل کو تحقیق و تفتیش کے بعد غیر جانب دارانہ طور پر حل کرنا شروع کیا۔آج کے موجودہ ملکی حالات بھی یہی منظر نامہ پیش کررہے ہیں۔ہمارے پرسنل لاء پر وقفے وقفے سے مذہبی منافرت پھیلانے والے شب خون مارکر شریعت میں مداخلت کرنے کی سعیِ لاحاصل کررہے ہیں۔کبھی ذبیحہ کا مسئلہ تو کبھی تین طلاق کا قانون اور اب تو معاذاللہ قرآن مقدس سے آیات کو خارج کا فتنہ چندہ کی پیداوار ملعون زمانہ وسیم لکھنوی نے کیا ہے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جب کہ شریعتِ مطہرہ میں روزآنہ چھیڑ چھاڑ کے معاملات ہورہے ہیں تو مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی،عائلی،معاشرتی اور خانگی مسائل کو اپنے علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے معتمد علما،ائمہ اور محلہ پنچ کمیٹی کے افراد سے مل کر مسائل کا تصفیہ کریں۔محلے کی مساجد میں ایسے تمام مسائل کے حل کرنے کے لیے مسلمانوں کو کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئے جہاں علاقے کے لوگ آکر اپنے مسائل کو حل کرواسکیں۔مساجد صرف عبادت ہی کے لیے مخصوص نا ہوں بلکہ مساجد سے مسلمانوں کی دینی تربیت اور سماجی فلاح کے کام بھی انجام دیئے جائیں۔مسلمانوں سے التماس ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل سے متعلق کسی غیر پر بھروسہ کرنے کی بجاے اپنے علما،ائمہ اور محلے کے سرکردہ افراد پر بھروسہ کریں اور مسائل کا تصفیہ اُنہیں سے کروائیں۔اُس کے لیے کمیٹی کے اراکین تحقیق و تفتیش کا جو بھی طریقہ استعمال کریں اُن کی صوابدید پر منحصر ہے مگر محلے کی مساجد میں پنچ کمیٹیوں کا ہونا موجودہ دور میں از حد ضروری ہے۔یہی کچھ سبق مالیگاوں میں جنگِ آزادی کے مجاہدین کی تحریک ترکِ موالات(نان کوآپریشن)سے ملتا ہے۔

 

مجاہدین پر بھاسکٹ راو کی کارروائی اور گرفتاری:

 

مشہور خلافتی رہنما مولانا جان محمد کا وعظ(20/اپریل 1921ء)نیاپورہ(عرب)چوک میں ہوا۔جہاں والنٹیرس لاٹھی لے کے انتظام کے لیے پہنچے۔پولیس نے جلسہ گاہ کو گھیرلیا اور جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اُنہیں گرفتار کرکے مقدّمہ دائر کردیا۔اُس مقدّمہ میں والنٹیرز کو ساٹھ ساٹھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔چونکہ یہ لوگ جرمانہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اِس لیے امدادالاسلام سے جرمانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔پھر کیا تھا کورٹ میں ہی گڑبڑ شروع ہوگئی۔جذبات اِس شدّت سے بھڑکے کے پورے شہر میں آگ لگ گئی۔مخالفین کی دوکانوں اور مکانات کے جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔فوجدار بھاسکٹ راو نے بھاگ کر سپاٹی بازار میں پوپلے صاحب کے مندر میں پناہ لی۔فوجدار عورتوں کا بھیس بدل کر فرار ہونے لگا۔فوجدار کے ساتھی پولیس نے بندوق سے کئی فائر کیے جس سے متعدد لوگ ہلاک(عبدالقادر مجاور میاں،محمد معصوم اور محمد بشیر)ہوگئے۔اِس پر ہجوم مشتعل ہوگیا اور اُس نے فوجدار بھاسکٹ راو کو رائل سنیما کی گلی میں مار ڈالا۔بندوق سے مرنے والوں کو بڑے اعزاز و اکرام اور دھوم دھام سے مالی گاوں کے(مومن سنّی)بڑے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔اُس وقت راقم الحروف(احسن مالیگانوی)،منشی شعبان اور بدّھو شیخ اور امدادالاسلام کے سکریٹری عبدالسلام سردار کی ہوٹل میں بیٹھے ہوے تھے۔یہیں ہمیں ہنگامے کی خبر ملی۔منشی شعبان نے کہا کہ دوکانوں کا لُوٹا جانا اور املاک کا برباد کرنا اور جانوں کا ضائع ہونا ہرگز مناسب نہیں ہے۔اِسے روکنا چاہئے۔سلام سردار اور راقم الحروف(احسن مالیگانوی)نے لاکھ سمجھایا کہ منشی جی(منشی شعبان)ابھی آگ لگی ہے آپ کی بات کوئی نہ سنے گا۔مگر منشی شعبان نہ مانے۔اُنہوں نے کہا کہ لوگ جذبات میں ڈوبے ہوے ہیں۔ہر طرف وحشت اور بربریّت پھیلی ہوئی ہے۔اِس وقت میرا خاموش بیٹھے رہنا گناہ ہے۔اِس سے تحریک آزادی اور پیچھے چلی جاے گی۔میں لوگوں کو سمجھاوں گا۔میری جان کی قیمت پر بھی اگر یہ ہنگامہ رُک جاے تو وطن کی آزادی کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہ کروں گا۔چنانچہ منشی شعبان اور بدّھو شیخ نکل کھڑے ہوے۔مشتعل ہجوم کو صبر و ضبط کی تلقین کی۔مسلسل کئی دنوں تک ہنگامے شباب پر رہے۔نتیجتاً(30/اپریل1921ء ناسک سے)فوج طلب کرلی گئی۔جس نے بے گناہ لوگوں پر وہ مظالم ڈھاے کہ زبان قلم اُس کے ذکر سے لرزاں ہے۔چُن چُن کر لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔حد تو یہ ہے کہ بے گناہ راہ گیروں کو بھی بخشا نہیں گیا اور اُنہیں بھی گرفتار کرلیا گیا بعد میں اُن پر مقدمہ چلایا گیا۔فوج کی بہیمت و درندگی اور جان کاہ کارروائیوں کے بعد منصفی اور عدالت کا ڈھونگ رچایا گیا۔جس میں مدّعی بھی حکومت تھی اور منصف بھی۔اسیرانِ مالیگاوں کو جرم بے گناہی کی سزا دینے کے لیے اور آزادی کی قیمت وصول کرنے کے لیے مقدّمہ کا ناٹک کھیلا گیا۔ابتدا میں یہ مقدّمہ مالیگاوں کی مقامی عدالت(پانچ قندیل کے سامنے اسکول کے احاطے میں)میں ایک اسپیشل مجسٹریٹ کے رُوبرو پیش کیا گیا۔جہاں ملزمین کی وکالت کرندیکر وکیل،ستّار اور بیرسٹر آزاد نے انجام دی۔بعد ازاں(21/جولائی 1921ء)مقدّمہ سیشن جج مسٹر مرفی کی عدالت میں منتقل کیا گیا۔انتقالِ مقدّمہ کا یہ منظر بڑا ہی رقّت انگیز تھا۔ایک طرف مولانا اسحٰق صاحب کے شاگردان کی آنکھیں نمناک تھیں تو دوسری طرف منشی شعبان گروپ کے لوگ مدار سیٹھ،صادق شکاری،لال محمد،رمضان نائب،حیات علی اور مولانا بخش وغیرہ اور اعزہ و اقارب غم سے نڈھال تھے۔اِن سب پر مقدمہ چلا۔سیشن کورٹ میں سرکار کی طرف سے بیرسٹر’’رانگنے کر‘‘اور ملزمین کی طرف سے بیرسٹر آزاد پیروی کررہے تھے۔سیشن کورٹ نے(2/نومبر1921ء)فیصلہ دیا۔سُولیوں کا،حبس دوام(عمر قید)بہ عبور دریاے شور کا،اِسی طرح چھ،سات تین سال کی سزا سے چھ ماہ تک کی سزاوں کا۔اِس فیصلے کے خلاف بمبئی ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔جہاں ملزمین کی طرف سے ہائی کورٹ کے سابق جسٹس”شری کوٹسے جی”نے وکالت کی۔اِس اپیل میں صرف تین حضرات کا فائدہ ہوا۔بانو شاہ(بالو شاہ گجراتی)،شیخو میاں،عبدالمجید احسان(صدر،خلافت کمیٹی مالیگاوں)یہ کچھ معلومات آزادی کے لیے جد و جہد کرنے کارروائی اور گرفتاری نیز سزاوں سے متعلق تھی جسے مجاہدِ آزادی مرحوم احسن مالیگانوی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔

 

یادِ گزشتہ:

 

مرحوم احسن مالیگانوی آزادی کے احباب کو یاد کرتے ہوے کچھ یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں:


’’آج میرے سامنے ماضی کا نقشہ ہے۔نہ جانے کتنے جنگِ آزادی کے سُورما اِس دہرِ فانی سے رحلت فرماگئے۔مثلآ مولانا محمد یوسف عزیز،حضرت خنداں منشی،قدرت اللہ سوز،احمد استاد،اسحٰق سردار،محمد حنیف شورش،واحد سیٹھ،محمد حسن سیٹھ دال والے،محمد حسین ابن مدّو سیٹھ،منیر سردار،عبدالعزیز بھکّو،محمد صادق پاگل،امیر احمد گھڑی ساز،ناطق صاحب،محمد جوہر منشی،منشی شعبان،بال چند ہیرا چند(بالو شاہ)،مہادیو وٹھل کھرے وکیل،پردھان وکیل،سون چند درزی،شیخو میاں،مصری خاں،محبوب خاں،چاند صاحب،احمد علی فوجدار وغیرہم ۔‘‘

 

یہ قابل فخر ہستیاں آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔مگر ان کی یاد اور جنگِ آزادی میں ان کی بے لوث خدمات کبھی ہمارے دلوں سے فراموش نہیں ہوسکتی۔ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی۔کبھی کبھی وہ صورتیں جن کی خدمات جنگِ آزادی میں نمایاں تھیں جو ابھی تک بقیدِ حیات ہیں۔میری نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں تو میرے دل سے بے ساختہ صداے’’آفریں‘‘نکلتی ہے۔اور دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔مثلا حضرت مولانا محمد عثمان، عبدالرزاق کوکب، سلیمان بیدل، زین العابدین صاحب، عبدالخالق سردار۔

 

پیغامِ احسن قوم و ملّت اور بے حِس لیڈران کے نام:

 

وطن آزاد ہوا۔مسرت کے چراغ جلے۔ہر جگہ عشرت کی محفلیں آراستہ ہوئیں۔جسے دیکھو کیف و سرور میں مسرور ہے۔مگر افسوس صد ہزار افسوس!اُن کا گھر بے نور ہے۔جن کے بزرگوں نے اپنا جگری خون دے کر ارضِ وطن کو آزاد کرایا۔شہید وطن منشی شعبان کے پس ماندگان پر ذرا نظر ڈالئے۔اُن کی شریک حیات اسکول بورڈ کی پیون بنیں تمام دن اس اسکول سے اُس اسکول میں ٹپال لے جانے لے آنے کا کام انجام دیتے دیتے اللہ کو پیاری ہوگئیں۔اُس کی اولاد اب بھی نانِ شبینہ کو محتاج ہے۔

 

اے آزادیِ وطن سے لطف اندوز ہونے والے دیوانو!اے مسند حکومت پر براجمان ہونے والو!جانتے ہو؟یہ کس کی اولاد ہیں۔یہ اُس بہادر اور سُورما فداے وطن منشی شعبان کی اولاد ہیں۔جس نے انگریزی حکومت کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں کیا۔جس کی ایثار و قربانی غیر فانی ہے۔مجھ سے سنو!جب اُسے پھانسی کے تختے پر لے جانے لگے تو کہتا ہے۔

 

قریب آتا ہے روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

 

اور جب پھانسی پر چڑھنے کا وقت آیا تو کس جوش و استقلال سے کہتا ہے۔

 

تیر و تلوار و تبر نیزہ و خنجر برسیں
زہر خوں آگ،مصیبت کے سمندر برسیں
بجلیاں چرخ سے اور کوہ سے پتھر برسیں
ساری دنیا کی بلائیں مرے سر پر برسیں
ختم ہوجاے ہر اک رنج و مصیبت مجھ پر
مگر ایمان کو جنبش ہو تو لعنت مجھ پر

 

اے مادرِ وطن کے مایہ ناز فرزند شہید وطن منشی شعبان!تیری لاش پر اللہ رحمت کے پھول برساے۔تیری قبر نور سے معمور کردے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔

 

تو آج ہماری محفلوں میں نظر نہیں آتا۔مگر تری خدمات تری یاد کے چراغ ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں جلوہ گر ہیں۔جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتے۔اقتباسات کا سلسلہ منقطع ہوا۔مرحوم احسن مالیگانوی کا درد 1966ء سے اب تک درد کی صورت میں باقی ہے۔اُس وقت کے سوے ہوے اب تک نا جاگ سکے۔تن آسان لوگ بے غیرتی کے ساتھ مجاہدین کی قربانیوں پر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوکر مزے کررہے ہیں۔اور اُن مجاہدین کی اولادیں یقینا اب بھی معاش کی فکر میں سرگرداں ہیں۔ مجاہدین کا یومِ شہادت 6/جولائی آیا اور گزر گیا۔شہر سویا تھا اور سویا رہا کسی نے شاید اُن کی قربانیوں کو یاد کیا ہو۔اے مجاہدینِ آزادی تمہاری بے لوث قربانیوں کو سلام اور صد ہزار بار سلام!

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!