مالیگاؤں میں تحریک خلافت کا قیام

حافظ محمد غفران اشرفی (جنرل سکریٹری سنّی جمعیۃ العوام)

 

گورے انگریزوں سے نبرد آزما ہونے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے مسٹر گاندھی اور علی بردران (مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی) کی قیادت میں ملکی سطح پر تحریک خلافت کا قیام عمل میں آیا۔ اِس تحریک کے اثرات پورے ملک میں ظاہر ہوے جگہ جگہ شاخیں قائم ہونے لگیں، تحریک خلافت کے جلسوں سے خطاب کے لیے علی برادران اور گاندھی جی شریک ہوکر لوگوں کے دلوں میں آزادی کی روح پھونکنے کی سعی کرتے رہے۔ جب اِس تحریک سے اہلیان مالیگاوں کو واقفیت ہوئی کہ من کے کالے انگریزوں کے ناپاک وجود سے ہندوستان کی زمین کو پاک کرنے کے لیے تحریک خلافت کا وجود عمل میں آیا ہے تو اِس نیک کام سے مالیگاوں کے جِیالے مسلمان کب پیچھے رہتے۔ یہاں کے لوگوں نے بھی تحریک خلافت کو اپنے لیے قدرتی امداد سمجھ کر انگریزوں سے مقابلہ آرائی کے لیے تحریک کی شاخ قائم کرکے وفاداران وطن کی فہرست میں مالیگاوں کی شمولیت درج کروائی۔ جس کے لیے با قاعدہ طور پر شہید وطن منشی محمد شعبان تحسین کی رہنمائی میں تین رُکنی وفد ممبئی کی سرزمین کے لیے روانہ کیا گیا، تاکہ وہ تحریک خلافت کے اغراض و مقاصد اور کام کے طریقہ کو جان سکیں۔ 15 فروری 1920 کو ممبئی میں خلافت تحریک کا جلسہ ہوا جس میں مولانا شوکت علی اور دیگر تحریک خلافت کے ذمہ داروں سے جلسہ کے بعد وفد کی ملاقات ہوئی۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد منشی محمد شعبان صاحب نے اسلام پورہ یتیم خانہ میں مٹینگ لی، 20 مارچ 1920 کو تحریک خلافت کا قیام عمل میں آیا۔ اِس تحریک کی کمیٹی میں حکیم عبدالمجید احسان عرف طیب بھیا (صدر)، سیّد سلیمان شاہ روزن شاہ (سرپرست)، منشی محمد شعبان تحسین ولد بھکاری (جنرل سکریٹری)، بدھو ولد فریدن، محمد حسن احسن (اسسٹنٹ اور پروپیگینڈہ سکریٹری)، محمد اسرائیل اللہ رکھا، منشی محمد جواہر (والینٹئر کور سکریٹری)، عبدالغفور (چندی پہلوان)، مولوی عبدالعزیز، حاجی محمد حسین ولد محمد (مدّو سیٹھ)، عبداللہ خلیفہ خدا بخش، مصری خان، زین العابدین عابد، حکیم محمد فاروق، مولوی عبدالکریم احمد استاد، عبدالرزاق کوکب، منشی خنداں، منشی بیدل، قدرت اللہ سوز، امیر احمد امجدگھڑی ساز، محمد صادق غریب اللہ، محمد علی فوجدار وغیرہم بالاتفاق کمیٹی کے اراکین کی حیثیت سے منتخب کئے گئے۔

 

قیام تحریک کے جو اہم نکات تھے وہ نمازوں کی پابندی،برائیوں سے لوگوں کو کنارہ کش کرنا،حکومتی ملازمتیں،عدالت اور وکالت کا بائیکاٹ کرنا،شراب نوشی پر پابندی،ودیشی کپڑوں اور دوسری چیزوں کا بائیکاٹ،یہ سب انگریزوں کی مخالفت میں تحریک ترک موالات (نان کوآپریشن) کے طور پر تحریک خلافت کے مقاصد میں شامل تھے۔ (مالیگاوں کی سیاسی اور سماجی تاریخی)

 

تحریک کے ذریعہ کام کے جدید راہ نما خطوط طے ہونے کے بعد مجاہدین آزادی کے جسموں میں نئی روح کوند گئی۔ پہلے بھی انگریزوں کی مخالفت میں اجلاس ہو رہے تھے، مگر اب تحریک خلافت کا شہر میں قیام ہونے کے بعد اجلاس کا انداز تبدیل ہو چکا تھا۔ شراب نوشی، ودیشی کپڑوں اور دوسری چیزوں کے مال کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ حتی کہ تحریک کے اراکین  نے شراب خانوں کے باہر بیٹھ کر لوگوں کو واپس کیا۔ اذان کے بعد باضابطہ تحریک کے ممبران لوگوں کو نماز کے لیے مسجد لے جاتے، ودیشی کپڑوں کی بھاجی بازار میں ہولی جلائی گئی، جس کے بعد لوگوں نے کھادی کے کپڑے (ہریجن لوگ ہاتھ سے بُنتے تھے) پہننا شروع کر دییے۔ شہریان نے اِس تحریک میں بہت زیادہ تعاون کیا، یہ سارے اُمور تحریک خلافت کے زیر انصرام جاری ہی تھے کہ اُن ہی ایّام میں مولانا شوکت علی،بیرسٹر ظہور احمد الہ آبادی، سوامی نرسنگھ کی مالیگاوں آمد اور بھاجی بازار میں مولانا شوکت علی کی تقریر نے جنگ آزادی کی مدّھم لو پر پیٹرول چھڑکنے کا کام کیا۔ (ماجراے وطن، ص144)

 

تحریک خلافت کا وہ جلسہ جو حضرت مولانا محمد اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ کی صدارت میں ہوا تھا بڑی اہمیتوں کا حامل ہے کیوں کہ اُس جلسہ میں مولانا عبدالعزیز عزیز صاحب اور مولانا اسحق نقشبندی علیہ الرحمہ نے انگریزوں کے خلاف اتنی پُر اثر تقریر کی کہ ایوان باطل میں لرزہ طاری ہوگیا جس کے بعد ہی انگریز وظیفہ خوار سپاہیوں نے مجاہدین آزادی کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کیا اور سزائیں دیں۔ یہ خلافت کمیٹی کے مختصر احوال و کوائف نذر قارئین کئے گئے۔

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!