ارسطو کا تنقیدی نظریہ

ارسطو کا زمانہ افلاطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے۔وہ افلاطون کا شاگرد تھا لیکن شاعری اور ڈرامے کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔اس نے افلاطون کا نام لیے بغیر اس کے اعتراضات کے جواب دیئے ہیں۔خیال ہے کہ اس نے کئی مختصر کتابیں لکھیں جن میں سے فن خطابت (Rhetorics)،اور فن شاعری یا بوطیقا (poetics)،ہم تک پہنچیں۔باقی انقلابات زمانہ کی نظر ہوگئیں۔فن شاعری ایک عہد آفرین تصنیف ہے۔شعرو ادب کی کوئی بحث اس کتاب کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔
اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حصہ ضائع ہوگئے۔بوطیقا میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگو ہے اور غنائیہ شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔جگہ جگہ ایسے اشارے ملتی ہیں جن کی تشریح درکار ہے۔
ارسطو سائنس دان تھا اس لئے اسکا طریق کار سائنٹیفیک اور تجزیاتی ہے۔جمیل جالبی نے اپنی تصنیف “ارسطو سے ایلیٹ تک” میں لکھا ہے کہ”اس کا ذہن منطقی، مزاج سائنسی اور فکر موضوعی ہے”۔
ارسطو سے پہلے شاعری کو اخلاق کی تعلیم کا ذریعہ خیال کیا جاتا تھا اور شاعر کی حیثیت محض معلم اخلاق کی تھی۔ارسطو نے اس کے خلاف آواز اٹھائی،اپنے استاد افلاطون کے برعکس شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیا اور اسے ذریعہ انبساط بنایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اعلا اور صحت مند ذہن کسی فن پارے سے پورا انبساط اسی صورت میں حاصل کر پاتے ہیں جب اخلاقی قدروں کو نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔
دونوں کے نظریات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ افلاطون کے نزدیک درس اخلاق کو اولیت حاصل ہے۔ارسطو کے خیال میں اس کی حیثیت ضمنی یا ثانوی ہے۔دراصل افلاطون کا زمانہ یونان کی تاریخ میں ابتری، انتشار اور جنگ و جدال کا زمانہ تھا۔ایسے میں فنون لطیفہ کی طرف توجہ کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ارسطو کے زمانے میں یونان متحد و مستحکم تھا، امن وامان کا دور دورہ تھا اس لیے فنون لطیفہ کی طرف توجہ ہوئی اور شاعری سے افادیت کا مطالبہ کم ہوا۔
شاعری پر افلاطون کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ نقل(Imitation) ہے۔ارسطو اسے جھٹلاتا نہیں، تسلیم کرتا ہے لیکن یہ نقالی اس کے نزدیک عیب نہیں خوبی ہے اور انسانی فطرت میں داخل ہے۔نقل کی ایک خوبی وہ یہ بیان کرتا ہے کہ جس چیز کو ہم اصلیت میں دیکھنا گوارا نہ کریں اس کی نقل کو خوشی سے دیکھ لیتے ہیں۔
ہم کہیں ظلم ہوتے دیکھیں تو شاید آنکھیں بند کر لیں لیکن ڈرامے میں اس کی نقل گوارا کرلیتے ہیں۔ہم غریب کو پسند نہیں کرتے مگر اس کی تصویر دیکھ لیتے ہیں۔نقل اصل سے جتنی قریب ہوگی اس سے اتنی ہی زیادہ مسرت حاصل ہوگی۔فنکار اپنی تصویر یعنی نقل کو اصل سے ہوبہو ملا نہیں دیتا بلکہ اس سے بہتر بنا دیتا ہے اس لیے اس میں اصل سے زیادہ جاذبیت ہوتی ہے۔
افلاطون کو ڈرامے پر یہ اعتراض تھا کہ وہ انسانی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ناظر کے ہاتھ سے عقل کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور وہ جذبات کی رو میں بہ جاتا ہے۔ارسطو اسے بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اس میں بھی بہتری کا پہلو تلاش کر لیتا ہے۔جب ہم المیہ دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر خوف، ہمدردی، غصہ جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ان کا اظہار بھی ہوجاتا ہے مثلا کوئی درد ناک منظر دیکھ کر ہم رو دیتے ہیں۔
اس سے ہمارا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور اس طرح ہم جذباتی تناو سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔یہ اسی طرح کا عمل ہے جیسے طبیب مسہل دے کر مریض کا جسم صاف کر دیتا ہے۔ارسطو نے اسے کتھارس(Catharsis) کہا ہے ہم اس کا ترجمہ تزلیہ یا تطہیر کر سکتے ہیں۔
افلاطون شاعری کو الہامی مانتا تھا۔مطلب یہ کہ شاعر اپنے اختیار سے شعر نہیں کہتا۔اس کی شعوری کوشش کو اس میں دخل نہیں۔نتیجہ یہ کہ ایک غیبی قوت یا شاعری کی دیوی اسے جدھر چاہے لے جائے اور اس سے جو چاہے کہلوا دے۔ظاہر ہے ایسی غیر شعوری کوشش میں ضبط و نظم کیسے ہو سکتا ہے۔ارسطو شاعری کو الہامی نہیں انسانی کوشش کا نتیجہ مانتا ہے اور اس کی تربیت و تنظیم کا قائل ہے۔وہ ،فارم ،کو ٹریجڈی کی جان بتاتا ہے۔کہتا ہے کہ اس میں آغاز، وسط اور اختتام ہوتا ہے۔اس کے یہ تمام حصے مل کر ایک اکائی بنتے ہیں اور آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔
طربیہ یعنی کامیڈی کے بارے میں ارسطو یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے بارے میں بعد میں گفتگو کی جائے گی لیکن آگے اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں ملتی۔ممکن ہے یہ اوراق زیاں ہو گئے ہوں۔ارسطو کا سارا زور المیہ یعنی ٹریجڈی پر ہے۔وہ اسے تمام اصناف ادب کا جوہر خیال کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ” ٹریجڈی کے متعلق جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ تمام اصناف پر صادق آتا ہے” ۔
المیہ کا مقصد ارسطو کے نزدیک یہ ہے کہ دیکھنے والے میں خوف اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں۔اور اس کے جذبات کا تزکیہ یا تطہیر ہو جائے۔اس صنف کے لیے وہ ایک خاص طوالت، ہم آہنگی، وحدت تاثر اور اسکے قرین قیاس ہونے پر زور دیتا ہے۔اس کے الفاظ میں : المیہ ایسے عمل کی نقل ہے جو سنجیدہ ہو، مکمل ہو، اور خاص طوالت رکھتا ہو۔ہئیت بیانیہ ہونے کے بجائے ڈرامائی ہو اور رحم و خوف کے مناظر کے سبب اس سے جذبات کا تزکیہ ہو۔
ارسطو کے نزدیک بڑی شاعری کسی خاص ملک، کسی خاص زمانے اور کچھ خاص لوگوں کے لئے نہیں ہوتی۔اس کا اثر ہر جگہ اور ہر زمانے میں ہوتا ہے۔یہ کہہ کر ارسطو شاعری کی ہمہ گری اور آفاقیت پر زور دیتا ہے۔
افلاطون کے زمانے میں کلام موزوں کوہی شاعری خیال کیا جاتا تھا۔ارسطو وزن کو شاعری کے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔شاعری کی زبان کے بارے میں اس کی رائے ہے کہ وہ آسان اور واضح ہو۔لیکن عامیانہ اور بازاری نہیں۔اس میں غیر مانوس الفاظ کا استعمال نہ کیا گیا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ استعارے کا سہارا لیا گیا ہو۔
ارسطو شاعری کے لیے جھوٹ اور مبالغے کو جائز خیال کرتا ہے بشرطیکہ ان کا استعمال فنکارانہ ہو اسی طرح وہ ناممکن باتوں کی بیان کی بھی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ انہیں

اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ سچ نظر آنے لگیں۔گویا وہ متوقع ناممکنات کو غیرمتوقع ممکنات پر ترجیح دیتا ہے۔فن خطابت کے سلسلے میں ارسطو نے جو کچھ کہا ہے وہ بڑی حد تک نثر نگاری کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے مثلا وہ الفاظ کے انتخاب پر زور دیتا ہے وہ نثر کے لیے آہنگ کوضروری بتاتا ہے۔عالمانہ تقریر کے مقابلے میں وہ فطری گفتگو کو بہتر قرار دیتا ہے۔
ارسطو کے خدا جانے کتنے رسالے ضائع ہو گئے اور جو کچھ بچ رہا وہ بھی ادھورا ہے۔بیچ بیچ سے صفحات غائب ہیں۔لیکن یہ مختصر سرمایہ ارسطو کو زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔بوطیقا تنقید کی پہلی اور لافانی کتاب ہے اور ارسطو پہلا باضابطہ نقاد!

(بحوالہ: فن تنقید او ر اُردو تنقید نگاری ، از: پروفیسر نورالحسن نقوی)

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!