کارل مارکس اور فرائیڈ


کارل مارکس اور فرائیڈ اردو تنقید میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔مغربی تنقید کی یہ گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ان دونوں کے نظریوں کا ذکر نہ کیا جائے، جنھوں نے عالمی فکر کو متاثر کیا اور صرف تنقید ہی نہیں، صرف شعر و ادب ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کو انقلاب سے دوچار کر دیا۔
ان میں سے ایک نظریے کا بانی ہے کال مارکس اور دوسرے کا فرائیڈ۔کارل مارکس نے اپنی مشہور کتاب “سرمایہ” لکھ کر جدلیاتی مادیت کی بنیاد رکھی اور یہ خیال پیش کیا کہ ذرائع پیداوار کے رشتے سماجی شعور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اس نے کہا کہ دولت کی نابرابر تقسیم نے کچھ خاص لوگوں کو امیر اور عام لوگوں کو غریب بنا دیا ہے۔اگر دنیا کا نظام درست کرنا ہے تو اس ناانصافی کو مٹانا ہوگا۔ اس تصور کے نتیجے میں ادب کو زندگی کا آئینہ اور انقلاب کا آلہ کار تسلیم کیا گیا۔ادب اور سماج کا باہمی تعلق واضح ہوا۔ادیب کی سماجی ذمہ داریوں پر زور دیا گیا اور آخر کار ادب میں ترقی پسند رجحانات کا آغاز ہوا۔
فرائیڈ نے تحلیل نفسی کا نظریہ پیش کیا۔اس نے کہا کہ انسانی زندگی میں شعور سے زیادہ لاشعور کی اہمیت ہے۔لا شعور انسانی ذہن کا وہ چور کمرہ ہے کہ اس کے مال و اسباب سے خود صاحب خانہ بھی باخبر نہیں۔انسان کی جنسی خواہشات اور ناآسودہ آرزوئیں، جن کے اظہار سے بھی وہ شرماتا ہے، ذہن کے نہاں خانے میں جا چھپتی ہیں مگر مرتی نہیں اور موقع بموقع نمودار ہوتی رہتی ہیں،حالت بیداری میں کم، عالم خواب میں زیادہ۔فنکار کے فن میں یہ اس طرح موجود ہوتی ہیں کہ انکی سراغ رسانی مشکل ہوتی ہے مگر ہوتی سود مند ہے۔
تحلیل نفسی طریقہ کار ادب کے مطالعے کے لئے کسی حد تک گمراہ کن ہوسکتا ہے مگر اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔فرائیڈ کے بعد ایڈلر اور ژونگ کے اجتماعی لاشعور کے نظریے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور شعر و ادب کے مطالعے کا ایک نیا زاویہ دریافت ہوا۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!