جانسن
جانسن، فن کو زندگی کا ایک ٹکڑا خیال کرتا ہے اور فنکار سے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کی حقیقتوں کو پیش کرے۔دیومالائی قصے کہانیاں، افسانوی عناصر اسے جھوٹ اور فضول معلوم ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے”کسی تخیلی تصویر کے مقابلے میں مجھے اس کتے کی تصویر پسند ہے جسے میں نے دیکھا ہے” حقیقت نگاری کے علاوہ ادب سے اسکا دوسرا مطالبہ اخلاقی تعلیم کا ہے۔ اسی کسوٹی پر پرکھ کے وہ رچرڈسن کو پسند اور فیلڈنگ کو نا پسند کرتا ہے۔
شیکسپیئر کا وہ قائل ہے مگر اس کے ڈرامے میں اخلاقی تعلیم کی کمی کبھی کبھی اسے بے حد ناگوار ہوتی ہے۔لیکن اخلاقی تعلیم پر مسرت کو قربان کرنے کے لئے وہ کسی طرح تیار نہیں۔حصول مسرت اس کے نزدیک شاعری کا بنیادی مقصد ہے جو عام انسانی فطرت کی عکاسی سے حاصل ہوتی ہے۔
گوئٹے
گوئٹے جرمنی کا رہنے والا تھا اور ١٧١٠ ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک زبردست سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، ناول نگار اور ڈرامہ نویس بھی تھا۔اس کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اس نے زندگی کو ہر روپ میں دیکھا تھا اس نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں اس کے تنقیدی افکار بکھرے ہوئے ہیں۔ان سب کو ایک جگہ کیجئیے تو پتہ چلتا ہے کہ حالات کے مطابق اس کے خیالات میں تبدیلی ہوتی رہی۔
گوئٹے آخر تک خود کو کلاسیکی کہتا رہا لیکن غیر محسوس طور پر رومانی تحریک اس پر اثر انداز ہوتی رہی۔وہ شاعری کو محدود کردینے کے خلاف ہے۔ اس کے نزدیک شاعری کو انفرادی نہیں آفاقی ہونا چاہیے اور اسے یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب ساری دنیا کا ادب ایک ہوگا۔
میتھیو آرلینڈ نے گوئٹے کو ایسا نقاد بتایا ہے جس کی اہمیت کسی زمانے میں کم نہ ہوگی۔
ورڈز ورتھ
انگلستان میں رومانی شاعری اور رومانی تنقید کی بنیاد ورڈز ورتھ اور کولرج کے ہاتھوں پڑی۔اسے خوشگوار اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ انقلابِ فرانس کے وقت ورڈزورتھ وہیں موجود تھا اور جب اپنے ملک واپس آیا تو انقلاب اور آزادی کے جذبے سے سرشار تھا۔اس نے کولرج کی مدد سے نئی شاعری کی بنیاد ڈالی۔
ورڈزورتھ نے “لیریکل بیلیڈز” کی تمہید میں اپنے تنقیدی خیالات بیان کردیے ہیں۔سب سے پہلے وہ یہ انقلابی اعلان کرتا ہے کہ اب شاعری بادشاہوں کے لئے نہیں عام انسانوں کے لئے ہوگی اور انہی کی سادہ فطری زبان میں ہوگی۔کہتا ہے کہ جو لوگ فطرت کی گود میں پلے ہیں ان کے خیالات میں سچائی ہوتی ہے اور یہی خیالات شاعری میں پیش ہونے چاہیے۔ورڈز ورتھ شاعری میں خلوص اور جذبے کو ضروری خیال کرتا ہے۔وہ شاعری کو اصلاح اخلاق کا ذریعہ تو بتاتا ہے لیکن مسرت کے پہلو پر بہت زور دیتا ہے۔
کولرج
کولرج اپنے زمانے کا بڑا انگریزی نقاد تھا۔ ورڈز ورتھ کی تمہید کے سترہ سال بعد “لٹریریا بائیو گرافیا” لکھ کر اس نے ورڈزورتھ کے بعض خیالات کی وضاحت کی اور بعض غلطیوں کو درست کیا۔ورڈز ورتھ شاعری کے لئے کسانوں اور دیہاتیوں کی زبان کو مناسب خیال کرتا تھا۔ کولرج سیال سے متفق نہیں۔وہ کہتا ہے کہ ان سیدھے سادے لوگوں کے تجربات محدود ہوتے ہیں۔اس لئے انکی زبان سے شاعر کا کام نہیں چل سکتا۔شاعری کے لیے وہ معیاری زبان کو مناسب بتاتا ہے جو عام بول چال کی زبان ہو لیکن شاعر ضرورت کے مطابق اس میں ردوبدل کرتا رہے۔شاعری کی زبان کے بارے میں اس کی رائے ہے: بہترین الفاظ بہترین ترتیب کے ساتھ بیان کیے جائیں۔
ورڈزورتھ نظم اور نثر کی زبان میں فرق نہیں کرتا۔کولرج دونوں کو علیحدہ کرتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ وزن و بحر سے نظم کی زبان زیادہ وسیع ہو جاتی ہے لیکن شاعری کے دائرے کو وہ نظم کے دائرے سے زیادہ وسیع بتاتا ہے۔شاعری کی زبان وزن و بحر کی محتاج نہیں ہوتی اور اسے مصور، فلسفی، سائنس دان سب اختیار کر سکتے ہیں۔
گویا وہ شاعری کو جرمن فلسفیوں کی طرح اتنی وسعت دیتا ہے کہ سارے علوم و فنون اس کے دائرے میں آ جاتے ہیں اور ہر تخلیقی صلاحیت شاعری قرار پاتی ہے۔مارٹن لوتھر کو وہ عظیم شاعر کہتا ہے کہ اس کا پورا کارنامہ شاعری کا درجہ رکھتا ہے۔انجیل مقدس اور مکالمات افلاطون کو شاعری بتاتا ہے۔وہ موسیقی کو کانوں کی شاعری، مصوری کو آنکھوں کی شاعری اور باقی فنون کو گونگی شاعری کہتا ہے۔اسی لیے وہ قافیہ، وزن اور بحر کو شاعری کا لازمی حصہ تو نہیں مانتا لیکن شاعری کا زیور ضرور تسلیم کرتا ہے۔
کولرج کے نزدیک شاعری کا اولین مقصد انبساط عطا کرنا ہے لیکن یہ مسرت آخر کار افادیت کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔جو ہم دیکھتے ہیں کہ مسرت کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود وہ ادب کے اخلاقی پہلو سے دامن نہیں بچاسکا۔

وہ ادب میں فوق فطری عناصر کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ادب کا مطالعہ کرنے والا جب ایسی باتوں سے دوچار ہوتا ہے جنہیں عقل نہیں مانتی مثلاً دیو پری وغیرہ تو وہ سب کچھ جانتے ہوئے ذرا دیر کو اپنی بے یقینی کو خداحافظ کہہ دیتا ہے وہ اسے suspension of disbelief willing کہتا ہے۔
کولرج شاعری کو اہم رتبہ دیتا ہے اور شاعر کو ایسا انسان بتاتا ہے جس کے حساسات شدید ہوتے ہیں لیکن وہ شاعر ہونے کے ساتھ فلسفی بھی ہے اور کہتا ہے کہ شاعر میں فلسفی اور جذباتی انسان دونوں گھل مل جاتے ہیں۔یہ کہہ کر کے شاعر عالم اضطراب میں شعر کہتا ہے وہ اس منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں شاعری الہامی نظر آتی ہے۔کولرج کی تنقید فلسفیانہ ہوتی ہے اس نے تنقید کو فلسفیانہ دلائل سے روشناس کیا اور تنقید کو استدلال کی سائنس کہا جو تخلیقی شعر کے مسائل سے بحث کرتی ہے۔

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!