شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
تعارف
پروفیسر شکیل الرحمان جو کہ بہت مشکل نقاد تھے، ان کو ان کے مقام کا وہ تعین نہیں ملا جس کے مستحق تھے۔ پروفیسر شکیل الرحمان ۱۸ فروری ۱۹۳۱ کو موتیہاری میں پیدا ہوئے۔ پٹنہ سے ایم اے کرنے کے بعد ڈاکٹر شکیل اڈیشہ میں لکچرار مقرر ہوئے ، پھر سرینگر چلے گئے۔ وہ بیک وقت کشمیر، میتھلا اور بہار یونیورسٹی کے چانسلر بھی تھے۔
ادبی تعارف
شکیل الرحمان جمالیاتی تنقید کے حوالے سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ اختر الایمان سے متعلق ان کی کتاب اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔ ضخامت کے باوجود شکیل الرحمان کا تنقیدی اسلوب کہیں اکتاہٹ کا یا بوجھل پن کا احساس نہیں دلاتا۔ شکیل الرحمان کی تنقید میں شعریت اور مٹھاس پڑھنے کو ملتی ہے۔ ان کا یہ منفرد اسلوب ہی ان کی تحریروں کے تنقیدی پہلو کو تحقیق کا درجہ عطا کرتا ہے۔ اختر الایمان جدید اردو نظم کی ایک معتبر آواز ہیں۔ ان کی نظمیں باکمال اور حسین ہیں۔ ان کی نظموں میں حسن کی مختلف کیفیتوں اور جہتوں سے اظہار حمالیات حس کے ساتھ ابھرا ہے۔ ن کے مخصوص انداز بیان و اظہار نے ان کی نظموں کو جمالیاتی وجدان بخشا ہے اور ان کی شعوری کوششوں نے حسن کو نیرنگ صورت سے آشنا کیا ہے۔
ادبی خدمات
پروفیسر شکیل الرحمن کے علم وفن پر کئی رسالوں نے گوشے شائع کیے۔ جن میں ماہنامہ شاعر بمبئی، ماہنامہ انشاء کلکتہ، مجلہ روشنائی کراچی قابل ذکر ہیں۔ کئی معتبر نقادوں نے کتابیں لکھ کر شکیل الرحمن کے جمالیاتی اسرار کو عالم آشنا کرانے کی کوشش کی۔ جن می
• شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان، (حقانی القاسمی)
• شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات، (محمد صدیق نقوی)
• شکیل الرحمن تنقیدی دبستان کا ایک منفرد دبستان، (اقبال انصاری)
• شکیل الرحمن کی غالب شناسی، (مسعود ہاشمی)
• شکیل الرحمن اردو تنقید کا نیا وزن، (محمد صدیق نقوی) کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔
• شکیل الرحمن کی جمالیاتی حس پر اتنا سب کچھ لکھے جانے کے باوجود تنقیدی جمالیات کو کما حقہ ابھی تک کسی نے دریافت نہیں کیا ہے۔ شاید کم ظرف صوفیوں کی طرح ان کے نقاد بھی راہ مقام میں بھٹک جاتے ہیں۔
اعزازات
• ان کو کافی ادبی اعزازات سے نوازا گیا جن میں انھیں پاکستان سے احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔
• آپ کو بہار اردو اکیڈمی کا سید سلیمان ندوی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
تصانیف
• پروفیسر شکیل الرحمان کی مشہور تصانیف میں
• ابوالکلام آزاد،
• ادب اور نفسیات،
• ادب کی جمالیات،
• اخترالایمان جمالیاتی،
• آشرم،
• امیر خسرو کی جمالیات،
• بابا سائیں کی کہانیاں،
• بچوں کے بابا بلھے شاہ،
• بارہ ماسے کی جمالیات،
• بےنام سمندر کا سفر،
• کلاسیکی مثنوی کی جمالیات،
• ایک علامت کا سفر،
• ایک چہرہ پرچھائیاں کا،
• فیض احمد فیض اور اسکی شاعری،
• مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات،
• منٹو کی جمالیات قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمان نے ۲۵ کے قریب کتابیں تخلیق کی ہیں اس کے ساتھ ساتھ اسٹیج ،ٹی وی اور ریڈیو کے لیے ۵۰ سے زیادہ تمثیلی کاوشیں بھی انجام دیں۔
آخری ایام
پروفیسر شکیل الرحمان ۹ مئی ۲۰۱٦ کو اس درفانی سے رخصت ہو گئے تب ان کی عمر ۸۵ برس تھی۔ ان کی اہلیہ ، دوبیٹیاں اور ایک بیٹا پسماندگان میں شامل ہیں۔
- اردو تنقید کا آغاز و ارتقا
- اردو تنقید اور اقسام
- اردو تنقید کا ارتقا
- ادبی تنقید کے اصول
- تنقید اور تخلیق کا رشتہ
- اردو میں متنی تنقید
- رس کا نظریہ
- مشرقی تنقید
- فارسی تنقید
- تاثراتی تنقید
- رومانی تنقید
- جمالیاتی تنقید
- مارکسی تنقید
- ترقی پسند تنقید
- نفسیاتی تنقید
- سائنٹیفک ادبی تنقید
- تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار
- مغربی تنقید نگار 2
- افلاطون کی تنقید نگاری
- ارسطو کا تنقیدی نظریہ
- کارل مارکس اور فرائیڈ
- لونجائنس اور دانتے کا تنقیدی نظریہ
- اسلوبیاتی تنقید
- سر سید کے تنقیدی خیالات
- محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری
- الطاف حسین حالی کی تنقید نگاری
- شبلی کے تنقیدی خیالات
- مولوی عبدالحق کی تنقید
- نیاز فتح پوری کی تنقید نگاری
- مجنوں گور کھپوری کی تنقید نگاری
- ابن رشیق کی تنقید نگاری
- آل احمد سرور کی تنقید نگاری
- احتشام حسین کی تنقید نگاری
- کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری
- پروفیسر خورشید الاسلام کی تنقید نگاری
- محمد حسن عسکری کی تنقید نگاری
- پروفیسر محمد حسن کی تنقید نگاری
- پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تنقید نگاری
- شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی نظریات
- وزیر آغا کے تنقیدی نظریات
- پروفیسر قمر رئیس کی تنقید نگاری
- سلیم احمد کے تنقیدی نظریات
- وحید الدین سلیم کی تنقید نگاری
- امداد امام اثر کے تنقیدی نظریات
- ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے تنقیدی نظریات
- عبدالقادرسروری کی تنقید نگاری
- سید سجاد ظہیر کی تنقید نگاری
- فراق گورکھپوری کی تنقید نگاری
- شکیل الرحمن کی تنقید نگاری
- سید شبیہ الحسن