میرتقی میرؔ: خدائے سخن، سر تاج شعرائے اُردو

٭ نام : میرمحمد تقی

٭ ولادت : فروری 1722-23 ء آگرہ[اکبرآباد]۔

٭ لقب : سرتاجِ شعرائے اُردو،خدائے سخن۔

٭ تخلص : میرؔ

٭ والد : میر عبداﷲ عرف میر علی متقی

٭ بھائی : (دو) بڑے اور سوتیلے حافظ محمد حسن ، چھوٹے اور سگے محمد رضی

٭والد کا انتقال : 1733ء (10؍ سال کی عمر میں )

٭ابتدائی تعلیم و تربیت : سید امان اﷲ (جو میرؔ کواپنے والد سے کم عزیز نہ تھے)

٭اُستاد اور ماموں : سراج الدین علی خان آرزو ۔

٭ہجرت فکر معاش : 1734ء دہلی ، 1739ء اکبر آباد ، پھر واپس دہی ، 1787ء لکھنو۔

٭افاقہ جنوں : حکیم فخر الدین سے ۔

٭اصلاحِ اشعار : سعادت علی

٭وفات : ستمبر1810ء لکھنؤ۔

اُردوکے عظیم شاعرمیر تقی میر کااصل نام میر محمد تقی تھا۔ میرؔ آپ کا تخلص تھا۔ اُردو شاعری میں میر تقی میرؔ کا مقام بہت اونچا ہے ،انہیں ناقدین و شعراے متاخرین نے’’ خدائے سخن‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے کے ایک منفرد شاعر تھے۔میرؔ کے متعلق اُردو کے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے ؎

ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

میر تقی میر، آگرہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام’’ محمد علی‘‘ تھا لیکن ’’علی متقی‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور دَرویش گوشہ نشین تھے۔ میرؔ نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ؔابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے، تب ان کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔یہاں سے میرؔ کی زندگی میں رنج و اَلم کے طویل باب کی ابتداء ہوئی۔ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاشِ معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے یہاں ملازم ہو گئے مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میرؔ آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے ماموں سراج الدین آرزو ؔکے یہاں قیام پذیر ہوئے۔ سوتیلے بھائی کے اُکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔

میرؔ کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میرؔ گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے اور سفر کی صعوبتوں کے بعد لکھنؤ پہنچے۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیااور میرؔ آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87؍ سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنؤ کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔

میرؔ کی زندگی کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری’’ذکرِ میر‘‘جو ان کے بچپن سے لکھنؤ میں ان کے قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے۔ میرؔ نے اپنی زندگی کے چند ایام مغل دہلی میں صر ف کیے۔ اس وقت وہ پرانی دہلی میں جس جگہ رہتے تھے اسے ’’کوچۂ چلم‘‘ کہا جاتا تھا۔

میرؔ کی تصانیف

نثری تصانیف :

(1) نکات الشعراء 1751ء (فارسی زبان میںاُردو شعرا کا پہلا تذکرہ )
(2) ذکرِ میر 1772ء(میرؔ کی خود نوشت سوانحِ عمری)
(3) فیضِ میرؔ (رسالہ صوفیانہ نکات و حکایات)

٭ شعری کارنامے :

دیوان :

(کل 7؍دیوان) چھ دیوان اُردو غزل کے اور ایک فارسی دیوان ۔

مثنویاں :

( کل37؍مثنویاں) خواب و خیال ، شعلہ عشق ، جوش عشق ، دریائے عشق ، معاملاتِ عشق، اعجاز عشق ، حکایاتِ

عشق ، دنیا ، مناجات ، گھر کا حال ، درہجو خانہ خود ، جھوٹ ، مورنامہ ، آئینہ دار ، کذب ،، معاملات عشق، مثنوی اُردو نامہ۔
قصیدے : میرؔ کے کلیات میں کل چار قصیدے ملتے ہیں ۔

٭اہم نکات:

مکمل مجموعۂ کلام ’’ کلیات میرؔ ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

میرؔ کی غزلوں کا بیشتر حصہ ’’سہل الممتنع ‘‘ کی تعریف میں آتا ہے۔

میرؔ کی سب عشقیہ مثنویاں المیہ ہیں جو عاشق و معشوق دونوں کی زندگی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں۔

 

میرؔ سے متعلق اہم کتابیں

ڈاکٹر محمود الٰہی نکات الشعراء
نثار احمد فاروقی میر ؔکی آپ بیتی ،تلاشِ میر ۔
ایم حبیب خان افکارِ میر
نقدِ میر سید عبداﷲ
صدر آہ میرؔ اور میریات
راشد آزر میر ؔکی غزل گوئی
گوپی چند نارنگ اسلوبیاتِ میر
شمس الرحمن فاروقی شعر شورانگیز ،تفہیم کلامِ میر ۔
مولوی عبدالحق انتخابِ کلامِ میر
حامدی کاشمیری کارگہہِ شیشہ گری ،انتخاب غزلیات میر ؔ
جمیل جالبی میر تقی میرؔ
خوشحال زیدی میر تقی میرؔ : شخصیت اور فن

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!