دیوا ن غالبؔ: ردیف ’ی‘ کی غزلیں

(1)

صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کااحساں اٹھائیے

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ، ہنوز منتِ طفلاں اٹھائیے

دیوار بارِ منتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخمِ رشک کو رُسوا نہ کیجئے
یا پردۂ تبسم پنہاں اٹھائیے

(2)

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات! چاہیے

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے

ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

سر پاے خم پہ چاہیے ہنگام بیخودی
ق
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے

یعنی بہ حسب گردش پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

(3)

بساطِ عجز میں تھا ایک دل ، یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف برطرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی

خیالِ مرگ کب تکسیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنا میں ہے اِک صید زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالۂ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعثِ افزایش درد دروں وہ بھی

نہ اتنا برّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریایے بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی

مے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کای کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوہ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی

(4)

ہے بزمِ بُتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ، ایسے خوشامد طلبوں سے

ہے دورِ قدح وجہِ پریشانی صہبا
یک بار لگا دو خُم مے میرے لبوں سے

رندانِ درِ میکدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف اِ ن بے ادبوں سے

بیدادِ وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے

تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں، گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں، یہ اجارا نہیں کرتے

گھر میں تھا کیا ، کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اِک حسرتِ تعمیر سے ہے

(5)

غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یادآنے کی

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یارب!
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

نپٹنا پرنیاں لیں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی

انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی

ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

لکد کوبِ حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی
مری طاقت کو ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی

کہوں کیا خوبی اوضاع ابناے زباں غالبؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہانیکی

حاصل سے ہاتھ دھوبیٹھ، اے آرزو خرامی
دل جوشِ گر یہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ ناتمامی

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!