مجروح سلطانپوری کا غزلیہ مجموعہ غزل: کی ابتدائی پانچ غزلیں

اس مجموعے کا انتساب راجندر سنگھ بیدی کے نام ہے۔

(1)

کوئی آتش در سبو شعلہ بہ جام آہی گیا
آفتاب آہی گیا، ماہِ تمام آہی گیا

محتسب!ساقی کی چشم نیم وا کو کیا کروں
میکدے کا در کھلا گردش میں جام آہی گیا

اک ستمگر تو کہ وجہ صد خرابی تیرا درد
اک بلا کش میں کہ درد کام آہی گیا

ہم قفس ! صیاد کی رسمِ زباں بندی کی خیر
بے زبانوں کو بھی اندازِ کلام آہی گیا

کیوں کہوں گا میں کسی سے تیرے غم کی داستاں
اور اگر اے دوست لب پر تیرا نام آہی گیا

آخرش مجروحؔ کے بے رنگ روز و شب میں وہ
صبحِ عارض پر لیے زلفوں کی شام آہی گیا

(2)

کب تک ملو ں جبیں سے اب ا س سنگِ در کو میں
اے بیکسی سنبھال، اٹھاتا ہوں سر کو میں

کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں جواب
اکثر تو رہ گیا ہوں جھکا کر نظر کو میں

اللہ رے وہ عالمِ رخصت، کہ دیر تک
تکتا رہا ہوں یوں ہی تری رہ گزر کو میں

یہ شوقِ کامیاب ، یہ تم یہ فضا، یہ رات
کہہ دو تو آج روک دوں بڑھ کر سحر کو میں

(3)

یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یوں ہی کب تلک خدایا غمِ زندگی نباہیں

کہیں ظلمتوں میں گھر کر ہے تلاش دستِ رہبر
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش پا سے راہیں

ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں

کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی بانہیں

مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں

(4)

ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے
نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے

مسرتوں کو یہ اہل ہوس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں ترے غم کو بھی سمو دیتے

کہاں وہ شب، کہ ترے گیسوئوں کے سائے میں
خیالِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے`

جو دیکھتے مری نظروں پہ بندشوں کے ستم
تو یہ نظارے مری بے بسی پہ رو دیتے

کبھی تو یوں بھی امڈتے سر شکِ غم مجروح
کہ میرے زخم تمنّا کے داغ دھو دیتے

(5)

نگاہِ ساقی نامہرباں یہ کیا جانے
کہ ٹوٹ جاتے ہیںخود دل کے ساتھ پیمانے

ملی جب ان سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں
ہٹی جو آنکھ تو چاروں طرف تھے ویرانے

حیات لغزشِ پیہم کا نام ہے ساقی
لبوں سے جام لگا بھی سکوں خدا جانے

وہ تک رہے تھے ،ہمی ہنس کے پی گئے آنسو
وہ سن رہے تھے ہمی کہہ سکے نہ افسانے

تبسموں نے نکھاراہے کچھ تو ساقی کے
کچھ اہل غم کے سنوارے ہوئے ہیں میخانے

یہ آگ اور نہیں دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھیں گے پروانے

فریب اشک و تبسم نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے

 

 

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!