کلیات شاد :ردیف ’ب‘ کی غزلیں

1

میرے سبب سے تھے عیاں آتش و خاک و باد و آب
میں نہ رہا تو پھر کہاں آتش و خاک و باد و آب

خلوت ناز میں تھا میں اور وہ شوخ بے حجاب
بے سبب آئے درمیاں آتش و خاک و باد آب

جب نہ ملا عدم میں کچھ قابلِ نذر دوستاں
لے کے چلے ہم ارمغاں آتش و خاک و باد آب

جب کہ خیال و وہم میں تابع حکم اے حکیم
پہنچیں گے تا بہ لامکاںآتش و خاک و باد آب

ایسے پڑے ہیں کتنے ہی جن میں نہیں دوئی کا میل
سمجھے ہیں صرف ہم یہاں آتش و خاک و باد آب

لے کے چلا جو کا رواں ساتھ وہ شہ سوار حسن
گرد میں ہوگئے نہاں آتش و خاک و باد آب

روح مری ادھر اُدھر جائے گی ساتھ سایہ دار
ہوں گے جدھر جدھر رواں آتش و خاک و باد آب

جب وہ نہیں کہ جس سے تھا ایک دوسرے سے ربط
میل کے ساتھ پھر کہاں آتش و خاک و باد آب

جی نہ لگے گا روح کا، اپنے ندیم کے بغیر
جائیں گے سب سوئے جناں آتش و خاک و باد آب

کہتے تھے شاد لوگ سچ ایسوں کی دوستی ہی کیا
روح سے چھٹ گئے یہاں آتش و خاک و باد آب

(2)

نالۂ دل میں تو پایا نہ آخر شب
اے دعا تو مجھے محروم نہ کر آخر شب

اکثر اے درد جگر تجھ کو بھی غافل پایا
کون لیتا ہے مریضوں کی خبر آخر شب

شام سے یاس نے گھیرا تجھے ناحق اے دل
جاتی ہے عرش تلک آہ اگر آخر شب

خود بخود غنچۂ خاطر ہے شگفتہ میرا
دل نے کس بات کی پائی ہے خبر آخر شب

واسطہ ضبط کاآغاز شب فرقت کے
چشم شہ تو مجھے شرمندہ نہ کر آخر شب

دور جانا ہے مسافر تجھے کیسی ہے یہ نیند
چونک مل آنکھ آٹھا زاد سفر آخر شب

جھاڑتی جاتی ہے وہ راہ صبا بالوں سے
بوئے گل باغ سے جاتی ہے جدھر آخر شب

ٹھنڈے ٹھنڈے دل سوزاں سے نکل جا اے روح
کرتے ہیں موسم گرما میں سفر آخر شب

مطمئن ہو تو خدا کے لئے کچھ عرض کروں
دردِ دل بس مجھے بے چین نہ کر آخر شب

بے خودی دل نہ اڑا کر کہیں لے جائے مرا
بیشتر چور کا رہتا ہے خطر آخر شب

کہیں اس سیل میں بہہ جائے نہ دفتر غم کا
جوش اپنا نہ دکھا دیدۂ تر آخر شب

شوقِ دیدار میں عالم ہے یہ آنکھوں کامری
جیسے جاگے ہوئے انساں کی نظرآخر شب

ہوگیا دل کو یقیں صاف کہ پانی برسا
بستر اپنا ہوا یوں اشکوں سے تر آخر شب

تیرے کوچے میں کہیں شاد نہ ہو پوچھ تو لے
اک بڑا شور تھا نالوں کا اِدھر آخر شب

(3)

فائدہ اے شاد کیا تکمیل سے
یہ زمانہ ہے پُرآشوب و خراب

ہر طرف ہے جہل کا بازار گرم
اہل فن کیوں کر نہ کھائیں پیچ و تاب

تدعی علم ہر بے ربط ہے
کیا ہے اس جہل مرکب کا جواب

جاہلانِ علم و معنی و بدیع
ہادیان شاہراہ ناصواب

طبع موزوں پر بھروسا نظم میں
بے پڑھے سارے فنوں میں کامیاب

پسلیاں بندش سے توڑیں شعر کی
اصطلاحوں کی کریں مٹی خراب

معنی تصنیف سے بھی بے خبر
کرسکیں ہرگز نہ فرق فصل و باب

باکمالوں سے بھڑیں ،آ آ کے وہ
تا کہے ذی معرفت ہر شیخ و شباب

خود غلط، املا غلط، انشا غلط
یوں سخن فہموں کو دیں اکثر جواب

اس زمیں میں ہے ہماری بھی غزل
ہم نے بھی اس فن میں لکھی ہے کتاب

صرف اس تقریر پر بھی بس نہ ہو
سخت گوئی سے کریں اکثر خطاب

امتیاز رطب و یابس کچھ نہ ہو
ایک ہو ان کی نظر میں خاک و آب

نظم ہوں کوٹھوں کے مضموں شعرمیں
فحش باتیں، کل مضامیں ناصواب

ہجو میں آل نبی کی منہمک
محو دل سے پرسش روز حساب

بے سرو پا اعتراضوں پر غرور
کاملوں سے اس پہ خواہاں جواب

خندہ ام آید ازیں طامات مفت
لا اُبالی صوتِھم صوت الکلاب

(4)

کیا منہ جو دے سکوں تری تقریر کا جواب
بخشش تری ہے خود میر تقصیر کا جواب

لکھے گا یار کیا مری تحریر کا جواب
دیکھا نہیں نوشتۂ تقدیر کا جواب

آئینہ لے کے ہاتھ میں کہتا ہوں یار سے
لایا ہوں ڈھونڈ کر تری تصویر کا جواب

صیاد جاں شکار ہے ترچھی نظر تری
ترکش میں ایک بھی نہیں اس تیر کا جواب

اتنا ہوا کہ دل میں اترنے لگی ہے بات
دیں گے وہ سوچ کر مری تقریر کا جواب

زنداں میں غل مچانے لگی ہے جو بے محل
کڑیاں کڑک کے دیتی ہیں زنجیر کا جواب

ناز اپنی گفتگو پہ نہ کر او فضول گو
خاموشیاں ہیں اس تری تقریر کا جواب

ایسا نہ ہو کہ دست ستم کو لگے نظر
اے نوجواں نہ دے فلک پیر کا جواب

دل میں ہے گرد غم تو کدورت مزاج میں
تعمیر جیسے ہوتی ہے تعمیر کا جواب

جی میں یہ ہے کہ آپ حلق اپناگھونٹ دوں
سوچا ہے میں نے نالۂ شب گیرکا جواب

قاصد کو چلتے وقت قسم دی رسول کی
ہاں میرے پاس اب نہیں تاخیر کا جواب

اے شاد ہاتھ پائوں ہلانے سے بھی گئے
موت آکے دے گئی مری تدبیر کا جواب

(5)

شمع فانوس میں ہے اپنی لطافت کے سبب
روشنی بند ہے شیشے کی کثافت کے سبب

رنج سے ہوتی ہے ہر چند بشر کو تکلیف
تو بھی انسان ممیز ہے اس آفت کے سبب

تب تو ہے خاک میں بھی شعلہ جنبانِ حیات
کیوں الگ رہ نہ سکی روح لطافت کے سبب

ابن آدم ہوں مرے دم سے جہاں کی رونق
قدسیوں سے بھی میں اعلی ہوں محبت کے سبب

کہنے والے مجھے جو چاہیں کہیں کیا پروا
سن کے خاموش ہوں اے شاد شرافت کے سبب

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!