دیوا ن غالبؔ: ردیف ’ر‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں

 

(1)

بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ عشق نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در دو دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر دم و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانیٔ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار ، تو
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہمسائے میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھے ہے خودیٔ عیشِ مقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار

(2)

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
جانوں کس کے دل کی میں کیوںکر کہے بغیر

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے و گرنہ ہم
سر جائے یا رہے ، نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزدہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرہ ہوں میں -گو چاہئے ، دونا ہوں التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر

(3)

کیوں جل گیا نہ ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
سر گرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

کیا آبروئے عشق ، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پَر جوش رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذتِ آزار دیکھ کر

بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

زُنّارباندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے ، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرتی تھی ہم پہ برقِ تجلی ، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ’ظرفِ قدح خوار‘ دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ ! ’غالب شوریدہ حال‘ کا
یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

(4)

لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

فنا ’’تعلیمِ درسِ بے خودی‘‘ ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

فراغت کس قدر ہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش پرستی تھی گلستان پر

بجُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے ، غالب، کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

(5)

ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم ، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں ، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہے خونِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلّاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا ، کوئی دم چین
کرتا -جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!