دیوان مومن: ردیف ’الف‘ کی غزلیں

(1)

نہ کیونکر مطلعٔ دیوان ہو مطلع مہر و حدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشت شہادت کا

غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بیزار دوزخ سے نہ میں مشتاق جنت کا

خدایا ہاتھ اٹھا ئوں عرضِ مطلب سے بھلا کیونکر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشۂ دامن اجابت کا

عنایت کر مجھے آشوب گاہِ حشرِ غم اِک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہو شورِ قیامت

جراحت زاراکِ جان دیکے جسکی ہر جراحت کا
نمکداں شورِ اُلفت سے مزا آوے عیادت کا

مرا جو ہر ہو سَر تاپا صفائے مہر پیغمبر
میرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سُنّت کا

خدایا لشکرِ اسلام تک پہونچاکہ آپہنچا
لبوں پر دم بلاہے جوشِ خُوں شوقِ شہادت کا

امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی
ارادہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا

زمانہ مہدیٔ موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیو سلامِ پاک حضرت کا

2

آگ ، اشک گرم کو لگے،جی کیا ہی جل گیا
آنسُو جو اُس نے پونچھے شب،اور ہاتھ پھل گیا

اس کوچے کی ہوا تھی کہ مری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آ گ پہ پنکھا سا جھل گیا

کیا روئوں خیرہ چشمی ٔ بختِ سیاہ کو
واں مشعلِ سُرمہ ہے ابھی، یاں نیل ڈھل گیا

اِس نقشِ پاکے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

کچھ جی گِرا پڑے تھا، پر اب تو نے ناز سے
مجھ کو گرا دیا تو، مرا جی سنبھل گیا

کی مجکو ہاتھ ملنے کی تعلیم ورنہ کیوں
غیروں کو آکے بزم میں وہ عطر مل گیا

بُتخانہ سے نہ کعبہ کو تکلیف دے مجھے
مومنؔ بس اب معاف کر یاں جی بہل گیا

3

لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہوکیا مرے جگر کو

نہ جائوں گا کبھی جنت کو، میں نہ جائوں گا
اگر نہ ہوؤے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا

یہ جوشِ یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا

یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں آتا
مرا بھی حال ہواتیری ہی کمر کاسا

جنوں کے جوش سے بیگانہ وار ہیں احباب
ہمارا حال وطن میں ہوا سفر کا سا

خبر نہیں کہ اسے کیا ہو ا پر اُس در پر
نشانِ پا نظر آتا ہے نامہ بر کاسا

دل ایسے شوخ کو مومنؔ نے دید یا کہ وہ ہے
مُحبِ حسین کا اور دل رکھے شمر کاسا

4

ان سے بَد خو کا کرم بھی سِتم جاں ہو گا
میں تو میں غیر بھی دل دیکے پشیماں ہوگا

اور ایسا کوئی کیا بے سروساماں ہوگا
کہ مجھے زہر بھی دیجے گا تو احساںہوگا

محو مُجھ سادمِ نظارۂ جاناں ہوگا
آئینہ آئینہ دیکھے گا تو حیراں ہوگا

ایسی لذّت خلشِ دل میں کہاں ہوتی ہے
رَہ گیا سینہ میں اس کا کوئی پیکاں ہوگا

بوسہ ہائے لبِ شیریں کے مضامین آن تہ کیوں
لفظ سے لفظ مرے شعر کا چسپاں ہوگا

کیا سُناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل
تم سے بے رحم پہ مرنے سے تو آساں ہوگا

کیونکر اُمیدِ وفا سے ہو تسلی دل کو
فکر ہے یہ کہ وہ وعدے سے پشیماں ہوگا

گر ترے خنجرِ مژگاں نے کیا قتل مجھے
غیر کیا کیا ملک الموت کے قرباں ہوگا

اپنے اندازکی بھی ایک غزل پڑھ مومنؔ
آخر اس بزم میں کوئی تو سخنداں ہوگا

5

آخر امید ہی سے چارۂ حرماں ہوگا
مرگ کی آس پہ جینا شبِ ہجراں ہوگا

مجمعٔ بسترِ مخمل شبِ غم یاد آیا
طالع خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا

درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا

بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اسی بد عہد کا پیماں ہوگا

دل میں شوقِ رُخِ روشن نہ چھپے گا ہر گز
ماہ پردے میں کتاں کے کوئی پنہاں ہوگا

نسبتِ عیش سے ہوں نزع میں گریاں یعنی
ہے یہ رونا کہ دہن گور کا خنداں ہوگا

دوستی اس صنم ِ آفتِ ایماں سے کرے
مومنؔ ایسا بھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!