ولی ؔاورنگ آبادی: اُردو غزل کا نقاش اوّل

٭ نام : ولی محمد
٭ تخلص : ولیؔ
٭ ولادت : 1667ء اورنگ آباد
٭ وَفات : 1720ء یا 1725ء

ولیؔ دکنی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ اہل گجرات انھیں گجرات کاباشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد (دکن) تھا۔ ولیؔ کے اشعار سے دکنی ہوناثابت بھی ہوتاہے۔ ولی، قطب شاہوں کے آٹھویں فرماں رواسلطان عبد اللہ قلی شاہ کے عہد میں اورنگ آ باد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے احمد آباد گئے جو اُس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں حضرت شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ ولیؔ کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گزرا۔ اس شہر کے فراق میں انہوں نے ایک پُردرد قطعہ بھی لکھا۔ ولیؔ نے گجرات، سورت اور دہلی کا سفر بھی کیا۔

ولیؔ دکن کا ایسا کوہ نور تھا جس کی چمک دمک کو شمالیوں نے حیران ہو کر دیکھا۔ جہاں تک شعرو ادب کا معاملہ ہے شمالیوں کو ہمیشہ یہ زعم رہا ہے کہ وہی سربلند ہیں لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا کہ اہلِ دکن کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں۔ قلی قطب شاہ اُردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے تواُردو کا آخری قاری بھی اسی دکن ہی کا ہو گا۔ ولیؔ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے دیوان کے 118؍ مخطوطات کا پتہ چلا ہے۔

بقول ڈاکٹر محمد علی اثر جناب مشفق خواجہ نے مزید 19؍مخطوطات ڈھونڈ نکالے ہیں، اس طرح جملہ 137؍ مخطوطات ولی دکنی کے دیوان کے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں۔ چارسو سال پہلے اگر طباعت و اشاعت کی ایسی سہولتیں حاصل ہوتیں جیسی آج ہیں تو شایدولی دکنی کے دیوان کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے ہوتے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ولیؔ اورنگ آبادی 1700ء میں دہلی گئے تھے۔ ولیؔ دکنی کی مقبولیت کی وجہ سے ہر علاقے والے ولیؔ کو اپنے علاقے کا فرد ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔ کچھ لوگ ولیؔ کو گجراتی تک ثابت کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ وہ سترھیوں صدی عیسوی کے وسط میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہیں پلے بڑھے، البتہ شوق سیاحت میں کبھی احمد آباد ،کبھی سورت، تو کبھی دہلی بھی گئے۔ ولیؔ کے فکر و فن کے چرچے ہر طرف تھے۔ ولیؔ کے دہلی جانے اور اہل شمال شعراء کو متاثر کرنے کا احوال تقریباً ہر تذکرہ نگار نے ضرور بیان کیا ہے۔

دہلی میں ولیؔ کی ملاقات سعد اللہ گلشن سے ہوئی،وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تمام مضامین کو جو فارسی میں موجود ہیں، ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہیے، تاہم یہ بات متنازع ہے اور اُردو نقاد اور محقق شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے (کتاب: اُردو کا ابتدائی زمانہ) کہ محض دہلی والوں کی امپیریل اِزم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اُردو کے اولین تذکرہ نگار میر تقی میرؔ اور قائم ؔچاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آ کے دہلی میں اُردو غزل کا آغاز کرے۔ اس لیے سعداللہ گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں اُلٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ گلشن نے) ولیؔ کو شاعری سکھائی تھی۔

قائم چاند پوری نے اپنے تذکرے ’’نکاتِ سخن‘‘ میں لکھا ہے کہ ولیؔ نے سعد اللہ گلشن کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کی امراء کی محفلوں ،جلسوں اور کوچہ و بازار میں ولیؔ کے اشعار لوگوں کی زبان پر تھے۔

خیر! جب بھی اُردو غزل کی بات ہوگی اولیت کا تاج ولی کے سر کی زینت بنے گا۔ وہ اُردو غزل کا باوا آدم نہ سہی، غزل کو نئے معانی اور نئے راستوں پر ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخلاقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلم ہے۔

ریختہ(اُردو کا ابتدائی نام) کو کمتر سمجھنے والے دہلوی شعراء نے ولیؔ کے لہجے اور اُسلوب کو خوب اپنایا۔ تقریباًہر قابل ذکر شاعر نے ولیؔ کی زمینوں میں غزلیں کہیں ۔ڈاکٹر محمد علی اثرؔ نے اپنی کتاب ’’ تحقیقی نقوش‘‘ میں بے شمار مثالوں سے واضح کیا کہ ولیؔ کے خوشہ چیں کیسے کیسے شاعر ہوئے ہیں،یہاں تک کہ میرؔ جیسے خود سرشاعر نے بھی ولی ؔکا اعتراف کیا ہے ؎

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

ولی ؔکا دیوان دیکھ کر ہی دہلی والوں کو اپنے مجموعے شائع کروانے کا خیال آیا۔ ولیؔ سے استفادہ کرنے والے بہت سے شاعر گزرے ہیں۔

ولی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازع ہے۔ بیشتر تذکرہ نگاروں نے ولی کا سن وفات 1707ء دیا ہے لیکن ماہر دکنیات ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنی کتاب ’’تحقیقی نقوش‘‘ میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ ’’تاریخ ادب اردو، جلد اول‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ولی کا انتقال 1720ء یا 1725ء کے درمیان کسی سال ہوا۔ تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی 1708 ء کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔ ولی نے بڑی لمبی عمر نہیں پائی لیکن بڑے کارنامے چھوڑے ہیں ،محمدحسین آزاد نے ولیؔ کو اُردو غزل کا باوا آدم کہا ہے۔

٭ مثنو ی :

(1) مجلس منظوم

(2) روضتہ الشہداء

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!