فراق گورکھپوری کا مجموعہ ’’گل نغمہ‘‘ سے ابتدائی دس غزلیں

 

(1)

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے

جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے

غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

مدت سے خبر ملی نہ دل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے

جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویر حیات ہو گئی ہے

اب ہو مجھے دیکھئے کہاں صبح
ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے

دل میں تجھ سے تھی جو شکایت
اب غم کے نکات ہو گئی ہے

اقرارِ گناہِ عشق سن لو
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے

جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی
تیری سوغات ہو گئی ہے

کیا جانئے موت پہلے کیا تھی
اب مری حیات ہو گئی ہے

گھٹتے گھٹتے تری عنایت
میری اوقات ہو گئی ہے

اس چشم سیہ کی یاد یکسر
شامِ ظلمات ہو گئی ہے

اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

جیتی ہوئی بازیٔ محبت
کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے

ٹوٹنے لگیں زندگی کی قدریں
جب غم سے نجات ہو گئی ہے

وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے
جب آئے ہیں تو رات ہو گئی ہے

دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ
عاشق کی بارات ہو گئی ہے

جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
اک برگِ نبات ہو گئی ہے

اکّا دکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے

ایک ایک صفت فراق ؔاس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے

(2)

یہ سرمئی فضائوں کی کچھ کنمنا ہٹیں
ملتی ہیں مجھ کو پچھلے پہر تیری آہٹیں

اس کائنات غم کی فسردہ فضائوں میں
بکھرا گئے ہیں آکے وہ کچھ مسکراہٹیں

اے جسم نازنینِ نگارِ نظر نواز
صبح شبِ وصال تری ملگجاہٹیں

پڑتی ہے آسمان محبت پہ چھوٹ سی
بَل بے جبینِ ناز تری جگماہٹیں

چلتی ہے نسیم خیال خرام ناز
سنتا ہوں دامنوں کی ترے سر سراہٹیں

چشم سیہ تبسّم پنہاں لیے ہوئے
پوپھوٹنے سے قبل افق کی اداہٹیں

جنبش میں جیسے شاخ ہو گلہائے نغمہ کی
اک پیکر جمیل کی یہ لہلہاہٹیں

جھونکوں کی نظر ہے چمن انتظار دوست
یاد امید و بیم کی یہ سنسنا ہٹیں

ہو سامنا اگر تو خجل ہو نگاہِ برق
دیکھی ہیں عضو عضو میں اچپلاہٹیں

کس دیس کو سدھار گئیں اے جمال یار
رنگیں لبوں پہ کھیل کے کچھ مسکراہٹیں

رُخسار تر سے تازہ ہو باغ عدن کی یاد
اور اس کی پہلی صبح کی وہ رسمسا ہٹیں

ساز جمال کی یہ نو اہائے سرمدی
جوبن تو وہ فرشتے سنیں گنگناہٹیں

آزردگیِ حسن بھی کس درجہ شوخ ہے
اشکو ں میں تیرتی ہوئی کچھ مسکراہٹیں

ہونے لگا ہوں خود سے قریب اے شبِ الم
میں پار ہا ہوں ہجر میں کچھ اپنی آہٹیں

میری غزل کی جان سمجھنا انھیں فراقؔ
شمع خیالِ یار کی تھر تھراہٹیں

(3)

ہے ابھی مہتا ب باقی اور باقی ہے شراب
اور باقی میرے تیرے درمیاں صدہا حساب

دید اندر دید، حیرانم حجاب اندر حجاب
وائے باوصفِ ایں قدر راز ونیاز ایں اجتناب

دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل
آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مستِ شباب

گیسوئے خمدار میں اشعار تر کی ٹھنڈکیں
آتش رخسار میں قلبِ تپاں کا التہاب

چوڑیاں بجتی ہیںدل میں مرحبا بزم خیال
کھلتے جاتے ہیں نگاہوں میں جبینوں کے گلاب

کاش پڑھ سکتا کسی صورت سے تو آیات عشق
اہل دل بھی تو ہیں اے شیخ خاں اہل کتاب

ایک عالم پر نہیں رہتی ہیں کیفیات عشق
گاہ ریگستاں بھی دریا گاہ بھی سراب

کون رکھ سکتا ہے اس کو ساکن و جامدکی زیست
انقلاب وانقلاب وانقلاب وانقلاب

ڈھونڈھئے کیوں استعارہ اور تشبیہہ ومثال
حسن تو وہ ہے بتائیں جس کو حسن لاجواب

ہشت جنت کی بہاریں چند پنکھڑیوں میں بند
غنچہ کھلتا ہے تو فردوسوں کے کھل جاتے ہیں باب

آرہا ہے ناز سے سمتِ چمن وہ خوش خرام
دوش پردہ گیسوئے شبگوں کے منڈلاتے سحاب

حسن خود اپنا نقیب آنکھوں کو دیتا ہے پیام
آمد آمد آفتاب آمد دلیلِ آفتاب

عظمت تقدیر آدم اہل مذہب سے نہ پوچھ
جو مشییت نے نہ دیکھے دل نے وہ دیکھے ہیں خواب

حسن وہ جو ایک کر دے معنی فتح و شکست
رہ گئی سو بار جھک جھک کر نگاہ کامیاب

غیب کی نظریں بچا کے کچھ چرالے وقت سے
پھر نہ ہاتھ آئے گا کچھ ہر لمحہ ہے پا در رکاب

ہر نظر جلوہ ہے ہر جلوہ نظر حیران ہوں
آج کسی بیت الحرم میں ہو گیا ہوں بازیاب

بار ہا ہاں بارہا میں نے دم فکر سخن
چھو لیا ہے اس سکوں کو جو ہے جانِ اضطراب

بزم فطرت سر بسر ہوتی ہے اک بزم سماع
وہ سکوت نیم شب کا نغمۂ چنگ و رباب

اے فراقؔ اٹھتی ہیں حیرت کی نگاہیں باادب
اپنے دل کی خلوتوں میں ہو رہا ہوں بار یاب

(4)

دیدنی ہے نرگسِ خاموش کا طرزِ خطاب
گہہ سوال اندر سوال وگہہ جواب اندر جواب

عشق کی آغوش میں بس اِک دل خانہ خراب
حسن کے پہلو میں صدہا آفتاب و ماہتاب

سرورِ کفار ہے عشق اور امیر المومنین
کعبہ و بت خانہ اوقافِ دلِ عالی جناب

راز کے صیغے میں رکھا تھا مشیت نے جنھیں
وہ حقائق ہو گئے میری غزل میں بے نقاب

ایک گنج بے بہا ہے اہل دل کو ان کی یاد
تیرے جور بے نہایت تیرے جور بے حساب

آدمیوں سے بھری ہے یہ بھری دنیا مگر
آدمی کو آدمی ہوتا نہیں ہے دستیاب

ساتھ غصے میں نہ چھوڑا شوخیوں نے حسن کا
برہمی کی ہر ادا میں مسکراتا ہے عتاب

عشق کی سر مستیوں کا کیا ہوا اندازہ کہ عشق
صد شراب اندرشراب اندرشراب اندرشراب

عشق پر اے دل کوئی کیونکر لگا سکتا ہے حکم
ہم ثواب اندر ثواب وہم عذاب اندرعذاب

نام رہ جاتا ہے ورنہ دہر میں کس کو ثبات
آج دنیا میں کہاں رستم و افراسیاب

راس آیا دہر کو خونِ جگر سے سینچنا
چہرۂ آفاق پر کچھ آچلی ہے آب و تاب

اسقدر رشک سے اے طلبگارانِ سامانِ نشاط
عشق کے پاس اک دل پر سوزاک چشم پُر آب

اب اسے کچھ اور کہتے ہیں کہ حسن اتفاق
اک نظر اڑتی ہوئی سی کر گئی مجھکو خراب

ایک سنّاٹا اٹوٹ اکثر اور اکثر اے ندیم
دل کی دھڑکن میںصد زیر و بم چنگ و رباب

آرہے ہیں گلستاں میں خیرو برکت کے پیام
ہے صداباد صبا کی یا دعائے مستجاب

مرغ ہوں اس دشت کا کوئی نہ مارے پر جہاں
ایک ہی پنجے کے ہیں اے چرخ شاہین و عقاب

ہم سمندر متھ کے لائے گوہر راز و دوام
داستانیں ملتوں کی ہیں جہاں نقش بر آب

کر گئیں میری نظر سے آج اپنی سب دعائیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب

پوچھتا ہے مجھ سے تو اے شخص کیا ہوں کون ہوں
میں وہی رسوا ء عالم شاعروں میں انتخاب

اے فراقؔ آفاق ہے کوئی طلسم اندر طلسم
ہے ہر اک خواب حقیقت ہر حقیقت ایک خواب

(5)

رات بھی ،نیند بھی، کہا نی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

ایک پیغام زندگانی بھی
عاشقی مرگ ناگہانی بھی

اس ادا کا تری جواب نہیں
مہر بانی بھی سر گرانی بھی

دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں
کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی

ٔ دل خوشی لٹانا ہے
غم پنہا ں کی پاسبانی بھی

دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب
زندگی آگ بھی ہے پانی بھی

لاکھ حسنِ یقین سے بڑھ کر ہے
ان کی نگاہوں کی بد گمانی بھی

تنگنائے دل ملول میں ہے
لچر ہستی کی بے کرانی بھی

عشق ناکام کی ہے پر چھائیں
شادمانی بھی کامرانی بھی

دیکھ دل کے نگار خانے میں
زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی

خلق کیا مجھے نہیں کہتی
کچھ سنوں میں تری زبانی بھی

اپنی معصومیوں کے پردے میں
ہو گئی وہ نظر سیانی بھی

دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل
رات کو ہے وہ رات رانی بھی

دلِ بدنام تیرے بارے میں
لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی

وضع کرتے کوئی نئی دنیا
کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی

دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے
کر گئے لو گ حکمرانی بھی

جو رکم کم کا شکریہ بس ہے
آپ کی اتنی مہربانی بھی

دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست
یاد آئی تری جوانی بھی

سر سے پا تک سپردگی کی ادا
ایک انداز ترکمانی بھی

پاس رہنا کسی کا رات کی رات
میہمانی بھی میز بانی بھی

ہو نہ عکسِ جبین ناز کہ ہے
دل میں اک نور کہکشانی بھی

زندگی عین دید یارِ فراق
زندگی ہجر کی کہانی بھی

(6)

ایک شبِ غم وہ بھی تھی جس میں جی بھر آئے تو اشک بہائیں
ایک شبِ غم یہ بھی ہے جس میں اے دل رورو کے سو جائیں

جانے والا گھر جائے گاکاش یہ پہلے سوچا ہوتا
ہم تو منتظر اس کے تھے بس کب ملنے کی گھڑیاں آئیں

الگ الگ بہتی رہتی ہے ہر انسان کی جیون دھارا
دیکھ ملیں کب آج کے بچھڑے لے لوں بڑھ کے تیز بلائیں

سنتے ہیں کچھ رو لینے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے
شاید تھوڑی دیر برس کر چھٹ جائیں کچھ غم کی گھٹائیں

اپنے دل سے غافل رہنا اہل عشق کا کام نہیں
حسن بھی ہے جس کی پرچھائیں آج وہ من کی جوت جگائیں

سب کو اپنے اپنے دکھ ہیں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے
اے دل غمگیں تیری کہانی کون سنے گاکس کو سنائیں

جسم نازنیں میں سر تاپا نرم لویں لہرائی ہوئی سی
تیرے آتے ہی بزم ناز میں جیسے کئی شمعیں جل جائیں

ہاں ہاں تجھ کو دیکھ رہا ہوں کیا جلوہ ہے کیا پردہ ہے
دل دے نظارے کی گواہی اور یہ آنکھیں قسمیں کھائیں

لفظوں میں چہرے نظر آئیں گے چشم بینا کی ہے شرط
کئی زاویوں سے خلقت کو شعر مرے آئینہ دکھائیں

مجھ کو گناہ وثواب سے مطلب ؟ لیکن عشق میں اکثر آئے
وہ لمحے خو د میری ہستی جیسے مجھے دیتی ہو دعائیں

چھوڑ وفا و جفا کی بحثیں اپنے کو پہچان اے عشق
غور سے دیکھ تو سب دہوکاہے کیسی وفائیں کیسی جفائیں

عشق اک بے بیندھا ہوا موتی یا اک بے سونگھا ہوا پھول
ہوش فرشتوں کے بھی اڑا دیں تیری یہ دوشیزہ ادائیں

باتیں اس کی یاد آتی ہیں لیکن ہم پر یہ نہیں کھلتا
کن باتوں پر اشک بہائیں کن باتوں سے جی بہلائیں

ساقی اپنا غم خانہ بھی مے خانہ بن جاتا ہے
مستِ مے غم ہو کر جب ہم آنکھوں کے ساغر چھلکائیں

اہل مسافت ایک رات کا یہ بھی ساتھ غنیمت ہے
کوچ کرو تو صدا دے دیناہم نہ کہیں سوتے رہ جائیں

ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعر فطرت ہوں
صبح کے ست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں

ایک غزال رم خوردہ کا منھ پھیرے ایسے میں گزرنا
جب مہکی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں دن ڈوبے آنکھیں جھپکائیں

دیں گے ثبوتِ عالی ظرفی ہم میکش سر میخانہ
ساقی چشم سیہ کی باتیں زہر بھی ہوں تو ہم پی جائیں

موزوں کر کے سستے جذبے منڈی منڈی بیچ رہے ہیں
ہم بھی خریدیں جو یہ سخنوار اک دن ایسی غزل کہلائیں

رات چلی ہے جوگن ہو کربال سنوارے لٹ چھٹکائے
چھپے فراقؔ گگن پر تارے ، دیپ بجھے ہم بھی سو جائیں

(7)

بندگی سے کبھی نہیں ملتی
اس طرح زندگی نہیں ملتی

لینے سے تاج و تخت ملتا ہے
مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی

غیب داں ہے مگر خدا کو بھی
نیت آدمی نہیں ملتی

ہے جو اک چیز دارِ فانی میں
وہ تو جنت میں بھی نہیں لتی

ایک دنیا ہے مری نظروں میں
پر وہ دنیا ابھی نہیں ملتی

رات ملتی ہے تیری زلفوں سے
پر وہ آراستگی نہیں ملتی

یوں تو ہر اک کا حسن کافر ہے
پر تری کافری نہیں ملتی

با صفا دوستی کو کیا روئیں
با صفا دشمنی نہیں ملتی

آنکھ ہی آنکھ ہو ں مگر مجھ سے
نرگسِ سامری نہیں ملتی

جب تک اونچی نہ ہو ضمیر کی لو
آنکھ کی روشنی نہیں ملتی

سوزِ غم سے نہ ہو جو مالامال
دل کو سچی خوشی نہیں ملتی

روئے جانا کجا ،کجا گلِ خلد
وہ ترو تازگی نہیں ملتی

تجھ میں کوئی کمی نہیں پاتے
تجھ میں کوئی کمی نہیں پاتے

ہیں سوا میرے اور نرم نوا
پر وہ آہستگی نہیں ملتی

یوں تو پڑتی ہے ایک عالم پر
نگہ سر سری نہیں ملتی

صحن عالم کی سر زمینوں میں
دل کی افتادگی نہیں ملتی

آہ وہ مشک بیز زلف سیاہ
جس کی ہم سائیگی نہیں ملتی

عشق آزردہ بادشاہوں کو
تیری آزردگی نہیں ملتی

زہد و صوم و صلٰوۃ و تقوہ سے
عشق کی سادگی نہیں ملتی

حسن جس کا بھی ہے نرالاہے
پر تری طرفگی نہیں ملتی

رنگ دیوانگی عالم سے
میری دیوانگی نہیں ملتی

علم ہے دستیاب با افراط
عشق کی آگہی نہیں ملتی

دل کو بے انتہائے آگاہی
عشق کی بے خودی نہیں ملتی

آج رطب اللساں ہیں حضرت دل
آپ کی بات ہی نہیں ملتی

دوستوں محض طبع موزوں سے
دولتِ شاعری نہیں ملتی

ہے جوان رسمساتے ہونٹوں میں
آنکھ کو وہ نمی نہیں ملتی

نگہ لطف سے جو ملتی ہے
ہائے وہ زندگی نہیں ملتی

یوں تو ملنے کو مل گیا خدا
پر تری دوستی نہیں ملتی

میری آواز میں جو مضمر ہے
ایسی شادی غمی نہیں ملتی

وہ تو کوئی خوشی نہیں جس میں
در در کی چاشنی نہیں ملتی

میرے اشعار میں سرے سے ندیم
رجعت قہقری نہیں ملتی

بس وہ بھر پور زندگی ہے فراقؔ
جس میں آسودگی نہیں ملتی

(8)

بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کو کہو
شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو

ہاں نہ پوچھو اک گرفتارِ قفس کی زندگی
ہم سفیرانِ چمن کچھ آشیانے کی کہو

اُڑ گیا منزل دشوار میں غم کا سمند
گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو

بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں
اس نگاہِ ناز کے باتیں بنانے کی کہو

داستاںوہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا
شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو

کچھ دل مرحوم کی باتیں کرواے اہل غم
جس سے ویرانے تھے آباد اس دیوانے کی کہو

داستانِ زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے
جو ازل سے چھڑ گیاہے اس فسانے کی کہو

یہ فسون نیم شب یہ خواب ساماں خامشی
سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو

کوئی کیا کھائے گایوں سچی قسم جھوٹی قسم
اس نگاہِ ناز کے سوگندکھانے کی کہو

شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن
کچھ فراقؔ اپنی سنائو کچھ زمانے کی کہو

(9)

اجاڑ بن میں کچھ آثار سے چمن کے ملے
دلِ خراب سے وہ اپنی یاد بن کے ملے

ہر اک مشام میں عالم ہے یو سفستاں کا
پرکھنے والے تو کچھ بوئے پیرہن کے ملے

تھی ایک بوئے پریشاں بھی دل کے صحرا میں
نشانِ پا بھی کسی آہوئے ختن کے ملے

عجیب راز ہے تنہائی دل شاعر
کہ خلوتوں میں بھی آثار انجمن کے ملے

وہ حسن و عشق صبح ازل کے بچھڑے تھے
ملے ہیں وادیٔ غربت میں پھر وطن کے ملے

فقیرِعشق کو کیا جامہ زیبوں سے غرض
یہی بہت ہے چار گز کفن کے ملے

کچھ اہلِ بزم سخن سمجھے کچھ نہیں سمجھے
بہ شکلِ شہرت مبہم صلے سخن کے ملے

تھا جرعہ جرعہ نئی زندگی کا اک پیغام
جو چند جام کسی بادۂ کہن کے ملے

بزور طبع ہر اک تیر کو کمان کیا
ہوئے ہیں جھک کے وہ رخصت جو مجھ سے تن کے ملے

کمندِ فکر رسامیں حریف مان گئے
وہ پیچ و تاب تری زلف پُر شکن کے ملے

نظر سے مطلع انوار ہو گئی ہستی
کہ آفتاب ملا مجھ کو اس کرن کے ملے

ہر ایک نقش نگاریں ہر ایک نکہت و رنگ
تفائے ناز میں جلوے چمن چمن کے ملے

مزاج حسن چلو ااعتدال پر آیا
جو روز روٹھ کے ملتے تھے آج من کے ملے

ارے اسی سے تو چلتے ہیں شاد کام حیات
کہ اہل دل کو خزانے غم و محن کے ملے

اسی سے عشق کی نیت بھی ہو گئی مشکوک
گنوا دئے کئی موقعے جو حسن ظن کے ملے

ادا میں کھنچتی تھی تصویر کرشن رادھا کی
نگاہ میں کئی افسانے نلؔ دمن کے ملے

حوا س خمسہ پکار اٹھے یک زباں ہو کر
کئی ثبوت تری خوبیٔ بدن کے ملے

نثار کج کلہی شو نئی بہارِ چمن
گُر اِ س ادا سے شگوفوں کو بانکپن کے ملے

حیات وہ نگہِ شرمگیں جسے بانٹے
وہی شراب جو تیری مژہ سے چھن کے ملے

خدا گواہ کہ ہر دور زندگی میں فراقؔ
نئے پیام گنہ مجھ کو اہر من کے ملے

(10)

وہ آنکھ زبان ہو گئی ہے
ہر بزم کی جان ہو گئی ہے

آنکھیں پڑتی ہیں میکدوں کی
وہ آنکھ جوان ہو گئی ہے

آئینہ دکھا دیا یہ کس نے
دنیا حیران ہو گئی ہے

اس نرگسِ ناز میں تھی جو بات
شاعر کی زبان ہو گئی ہے

اب تو تری ہر نگاہ کافر
ایمان کی جان ہو گئی ہے

ترغیب گناہ لحظہ لحظہ
اب رات جوان ہو گئی ہے

توفیق نظر سے مشکل زیست
کتنی آسان ہو گئی ہے

تصویر بشر ہے نقشِ آفاق
فطرت انسان ہو گئی ہے

پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی
اب اک جہا ن ہو گئی ہے

سنتے ہیں کہ اب نوائے شاعر
صحرا کی اذان ہو گئی ہے

اے موت بشر کی زندگی آج
تیرا احسان ہو گئی ہے

کچھ اب تو امان ہو کہ دنیا
کتنی ہلکان ہو گئی ہے

یہ کس کی پڑیں غلط نگاہیں
ہستی بہتان ہو گئی ہے

انسان کو خریدتا ہے انسان
دنیا بھی دکان ہو گئی ہے

اکثر شبِ ہجر و دست کی یاد
تنہائی کی جان ہو گئی ہے

شرکت تری بزم قصہ گو میں
افسانے کی جان ہو گئی ہے

جو آج مری زبان تھی
کل دنیا کی زبان ہو گئی ہے

اک سانحۂ جہاں ہے وہ آنکھ
جس دن سے جوان ہو گئی ہے

رعنائی قامت دل آرا
میرا ارمان ہو گئی ہے

دل میں اک واردات پنہاں
بے سان گمان ہو گئی ہے

سنتا ہوں قضا ء قہر ماں بھی
اب تو رحمان ہو گئی ہے

واعظ مجھے کیا خدا سے
میرا یمان ہو گئی ہے

میری تو یہ کائنات غم بھی
جان و ایمان ہو گئی ہے

میری ہر بات آدمی کی
عظمت کا نشان ہو گئی ہے

یاد ایّام عاشقی جب
ابدئیت اک ان ہو گئی ہے

جو شوخ نظر تھی دشمن جاں
وہ جان کی جان ہو گئی ہے

ہر بیت فراقؔاس غزل کی
ابرو کی کمان ہو گئی ہے

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!