سید خواجہ میر درد

٭ نام : سید خواجہ میر
٭ تخلص : درد ؔ
٭ ولادت : 1720ء دہلی
٭ وفات : 1781ء دہلی

خواجہ میر درد دؔہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا نام’’ سید خواجہ میر‘‘ اور’’ دردؔ‘‘ تخلص تھا۔ان کے والد خواجہ محمد ناصر برگزیدہ صوفی اور فارسی کے اچھے شاعر تھے اور’’ عندلیبؔ ‘‘تخلص کرتے تھے۔ ان کا ایک ضخیم دیوان ’’نالۂ عندلیب ‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ان کا خاندان دہلی کے صوفیوں کے سلسلے میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ دردؔ کا سلسلۂ نسب خواجہ بہاء الدین نقشبندی سے ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت غوثِ اعظم تک پہنچتاہے۔دردؔ اپنے خاندانی حسب و نسب کے پیش نظر خود بھی صوفیانہ مزاج رکھتے تھے۔ انھوں نے نثرفارسی میں تصوف کے معاملات پر کئی رسائل لکھے، لہٰذا ان کے کلا م میں الفت الٰہی، توکل و تسلیم و رضا، انسان دوستی اور قناعت کی جو تلقین ملتی ہے ان کی زندگی ان تمام اوصاف سے متصف تھی۔ دردؔ نے عین عالمِ شباب میں یعنی اٹھائیس سال کی عمر میں ترکِ دنیا کی اور والد کی وفات پر انتالیس (۳۹) برس کی عمر میں سجادہ نشین مقرر ہوئے۔

خواجہ میر دردؔ نے ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد سے حاصل کیے۔ دَرویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر دنیا ترک کی اور والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔درد ؔنے شاعری اور تصوف وَرثہ میں پایا۔ ذاتی تقدس ، خود داری ، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔وہ ایک باعمل صوفی تھے اور دولت و ثروت کو ٹھکرا کر دَرویش گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ ان کے زمانے میں دہلی ہنگاموں کا مرکز تھی چنانچہ وہاں کے باشندے معاشی بدحالی ، بے قدری اور زبوںحالی سے مجبور ہو کر دہلی سے نکل رہے تھے لیکن دردؔ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور وہ دہلی میں مقیم رہے۔ دردؔ نے 1781ء میں وفات پائی اور وہی جہاں تمام عمر بسر کی تھی مدفن قرار پایا۔ دردؔ کو بچپن ہی سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ متعدد تصانیف لکھیں جو فارسی میں ہیں۔ نظم میں ایک دیوان فارسی اور ایک دیوان اُردو میں ہے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں
ہم آئینے کے سامنے جب جا کے ہو کریں

دردؔ نے اُردو میں غزل، رباعیات اور ترجیع بند جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا دیوان مختصر ہے لیکن اعلیٰ معیار کا ہے۔ دہلی کی تباہی و بربادی کے سبب میرؔ اور سوداؔ جیسے اہلِ فن یہاں سے دوسرے شہروں میں چلے گئے تھے لیکن دردؔ نے اپنی سرزمین کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔امیر و غریب سب دردؔکی خدمت کرنا عینِ سعادت مانتے تھے۔ شاہی دربار سے ان کے بزرگوں کی جاگیریں چلی آتی تھیں لہٰذا زندگی فارغ البالی سے کٹی۔ دردؔ کی زبان میرؔاو رسوداؔ کی زبان ہے جو ان کے ہمعصر تھے۔ معاملاتِ تصوف میں ان سے بڑھ کر کوئی اُردو شاعر نہیں ہے۔ دردؔ نے تصوف میں رسالے لکھے جن میں مسائلِ تصوف کو دلائل کے ساتھ آیاتِ قرآنی و احادیث اور اقوالِ سلف کی روشنی میں ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ مخمسات وغیرہ بھی ہیں ۔ ان کے ہمعصر شعراء نے بھی ان کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ

’’خواجہ میر دردؔ اُردو ادبیات میں صوفیانہ شاعری کے باوا آدم تھے۔‘‘

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

٭کتب ورسائل

(۱) احکام الصلوٰۃ (۲) واردات (۳) علم الکتاب (۴) دردِ دل
( ۵) شمع محفل (۶) آہِ سرد (۷) نالۂ دور ۔

ٌ٭ دیوان ِ درد 1989ء

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!