انتخاب میر کی ابتدائی بیس (20) غزلیں

(1)

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اُس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامۂ گرم کن جو دل نا صبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دو ر تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پر توے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اس رند کی بھی رات گذر گئی جو عور تھا

کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پُر غرور تھا

تھا وہ تور شکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

2

کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا

آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مِرے جب نفس باز پسیں تھا

شب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا تھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا

نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا

مسجد میں امام آج ہوا آکے وہاں سے
کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا

3

لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

کفر کچھ چاہئے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

درہمی حال کی ہے سارے مر ے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا

اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا

4

جامۂ ہستی تھا عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامنِ تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا

دیر میںکعبہ گیا میں خانقہ سے اب کی بار
راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا

بلبلوں نے کیا گل افشاں میرؔ کا مر قد کیا
دور سے آیا نظر تو پھولوں کا ایک ڈھیر تھا

5

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروّت کو کیا ہوا

امید وارِ وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یاروقیامت کو کیا ہوا

بخشش نے مجھ کو ابرِ کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشکِ ندامت کو کیا ہوا

جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا

6

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا!

جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا

7

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رور و کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

کس کا کعبہ ،کیسا قبلہ،کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

یاں کے سفید وسیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رورو صبح کیا یادن کو جوں توں شام کیا

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو!
قشقہ کھینچا ، دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا

8

چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمالِ یار نے منہ اس کا خوب لال کیا

رفتہ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یُمنِ قدم نے ترے نہال کیا

لگا نہ د ل کو کہیں کیا سنا نہیں تونے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

9

منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلّاد
تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا

چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سر و تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہر گز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

10

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

ہر زخمِ جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تریِ بیداد گری کا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

صد موسمِ گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا

11

منھ تکا کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تھے بُرے مغبچوں تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا

فیض اے اَبر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا

تاب کس کو جو حال میرؔ سُنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

12

دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی لو منہ لال ہو گیا

13

پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا
اپنے کئے کا اس نے ثمرہ شتاب دیکھا

آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا

لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھا
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ ہم نے خواب دیکھا

14

مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا

میں گریۂ خونی کو روکے ہی رہا ورنہ
یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا

بن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پر سش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا

15

مانند شمع مجلس شب اشک بار پایا
القصہّ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا

احوال ِ خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اُجاڑ دینا اس کا قرار پایا

اتنا نہ دل سے ملتے نہ دل کو کھوکے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا

کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا

آہوں کے شعلے جس جا اٹھے ہیں میرؔسے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا

16

یا روئے یار لایا،اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں، یارانِ شادماں کا

قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا

پوچھو تو میرؔ سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا

17

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھا م تھام لیا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کا م لیا

اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا

18

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا

ؔسب کھلا باغ جہاں الّا وہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھتے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا

کیونکہ نقاش ازل نے نقش ابرو کا کیا
کام ہے کیا اک تیر منہ پر کھینچنا شمشیر کا

رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کر فکر تم تعمیر کا

بس طبیب اٹھ جا مرے بالیں سے مت دے دردسر
کام یاں آخر ہوا،اب فائدہ تدبیر کا

کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑ جاتا ہے ٹک چہرہ تودیکھو میرؔکا

19

موجیں کریں ہے بحر جہاں میں ابھی تو تُو
جانے گا بعد مرگ کہ عالم حباب تھا

اُگتے تھے دست بلبل دوامان گل بہم
صحن چمن نمونۂ یوم الحساب تھا

ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اس دم کی حسرتیں
جس دم میں سوجھے گی کہ یہ عالم میں بھی خواب تھا

20

گل کو محبوب میں قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو یاس کیا

دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا

کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہمکو بے حواس کیا

صبح تک شمعٔ سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا

ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میرؔ کوتم عبث اداس کیا

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!