دیوا ن غالبؔ: ردیف’ الف‘ کی ابتدائی پانچ غزلیں

 

(1)

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ِ تصویر کا

کاؤ کاوِ سخت جانیہاے تنہائی، نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مُدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باداسدؔ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا

(2)

جز قیس اور کوئی نہ آیا بہ روے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسوٗد تھا

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھیں کھل گئی، نہ زیاں تھا، نہ سود تھا

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت ، گیا اور بوٗد تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسدؔ!
سر گشتۂ خُمار رُسوٗم، قیودتھا

(3)

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے ہم نے مدّعا پایا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا

دوستدارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم!
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

سادگی و پرکاری ، بیخودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے ، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا ، تم نے بارہا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا؟

(4)

دل مِرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کے مانند گویا جل گیا

دل میں ذوقِ وصل ویادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل ! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

عرض کیجے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

دل نہیں ، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کار فرما جل گیا

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالبؔ کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہل دنیا جل گیا

(5)

شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویرکے پردے میں بھی عریاں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا

بوئے گل ، نالۂ دل، دود چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذّتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا

اے نَو آموزِ فنا ہمت دُشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آسام نکلا

دل میں پھر گریہ نے اِک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!