عشق نامہ: عرفان صدیقی کی غزلیں

(1)

خانہ درد ترے خاک بہ سرآگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں

جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرداڑانے کوکدھر آگئے

رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اُس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں

اس کے ہی ہاتھ میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدہ تر آگئے ہیں

اتنا آساں نہیں فیصلہ ترک سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آگئے ہیں

نیند کے شہر طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں

(2)

اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من، اپنا بدن لگنے لگا

جنگلوں سے کون سا جھونکا لگا لایا اسے
دل کہ جگنو تھا چراغِ انجمن لگنے لگا

اس کے لکھے لفظ پھولوں کی طرح کھلتے رہے
روز ان آنکھوں میں بازار سمن لگنے لگا

اوّل اوّل اس سے کچھ حرف ونوا کرتے تھے ہم
رفتہ رفتہ رائگاں کار سخن لگنے لگا

جب قریب آیا تو ہم خود سے جدا ہونے لگے
وہ حجاب درمیان جان و تن لگنے لگے

ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا

تیرے وحشی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے
رم کیا اتناکہ آہوے ختن لگنے لگا

ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

کرگیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا

(3)

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں ہیں جان من ،اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ ،شامہ،ذائقہ،سامعہ باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں
اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو، شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا،روشنی، عورتیں،خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں
میرے اندر بھی ہے ایک شرد گرد، میرے مہتاب اک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں ،کیسے کیسے قمر ان مکانوں میں ہیں
اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا،میری مٹی سے مجھ کو جُدا کر دیا
ا ن دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں

(4)

لپٹ سی داغِ کہن کی طرف سے آتی ہے
جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے

پہاڑ چپ ہیں تو اب ریگ زار بولتے ہیں
ندائے کوہ ختن کی طرف سے آتی ہے

کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر
یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے

یگوں کے کھوئے ہوئوں کو پکارتا ہے یہ کون
صدا تو خاکِ وطن کی طرف سے آتی ہے

(5)

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی
ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی

امید واروں پہ کھلتا نہیں وہ باب وصال
اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ
چھپا ہے کیامری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اس بار
کہ سب کو غیب سے ملتا نہیں اشارہ کوئی

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کارِ دل زدگاں
عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی

اگر نصیب نہ ہو اس قمر کی ہم سفری
تو کیوں نہ خاکِ گذر پر کرے گزارہ کوئی

 

 

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!