کلیات شاد: ردیف’ی‘ کی غزلیں

 

(1)

کٹتی ہے بری طرح جوانی
بس طولِ حیات مہربانی

مضموں کا گھمنڈ شاعری ہے
دعوائے زباں فقط زبانی

سوتا سنسار جاگتا حق
سچی تھی اسی قدر کہانی

اب ایک کا بھی پتہ نہیں ہے
چھوڑی تو بہت سی تھی نشانی

بے پال و پر ہوئے نہ افسوس
مرنے پہ بھی جنت آشیانی

اب ان کے ستم کی کچھ نہ پوچھیو
جوڑا پہنا ہے آسمانی

تصویر تری ہے اب بھی دل میں
اے مجمعِ دوستان جانی

ضدّین ہوئے ہیں جمع ہم میں
آشفتہ سری و خوش بیانی

منوا دیا خود کو ہاں یہ مانا
تونے مگر ایک کی نہ مانی

باقی ہے بلائے خاک گشتن
بالائے بلائے آسمانی

آنا ہو تو آکہاں تلک صبر
اے وجہِ بقائے زندگانی

اے جوشِ شباب تیرے اوپر
صدقے ہے حیات جاودانی

اتنا مگر اے فلک سمجھ لے
پیری ہے تری مری جوانی

بے لطف اگر گئی تو افسوس
اے لطف فزائے زندگانی

کیا تھا مرے مٹنے والے دل میں
لے دے کے اک آن وہ بھی آنی

موقوف ہے شاید اس جہاں پر
اے روح لقائے یار جانی

مشتاق ہوں کان تک پہنچ جا
اے مژدۂ مرگ ناگہانی

بد تر شبِ ہجر سے بھی تو ہے
اے خانہ خراب بدگمانی

کچھ کام تو لو حیا سے بھی شادؔ
پیری و خیالِ نوجوانی

(2)

غم سے اس دل کو نہ میل اور نہ ساز آتا ہے
اور نہ کم بخت ترے عشق سے باز آتا ہے

لوگ کیوں جمع ہیں، میں کیا، مرامرنا کیا چیز
ہو نہ ہو کوئی تو دیوانہ نواز آتاہے

کھل گیا ہے جو مرے شوق کا احوال تو اب
نالہ بھی سینے سے کرتا ہوا ناز آتا ہے

قید تن سے ابھی آزاد نہ ہونا دمِ نزع
ٹھہر اے روح مرا بندہ نواز آتا ہے

کھینچ لے دل کو مرے دور سے یہ ہے منظور
تاکمر کھولے ہوئے زلفِ دراز آتا ہے

غم نے بے صبر کیا مجکو جنوں سے رسوا
جو یہاں آتا ہے وہ دشمنِ راز آتا ہے

ر ک گئے کیوں درجاناں پہ قدم اے زاہد
آ حقیقت میں اگر سوئے مجاز آتا ہے

دل کو بہلاتے رہے شادؔ شبِ ہجر میں یوں
اب سحر ہوتی ہے اب وقت نماز آتا ہے

(3)

زباں پہ آہ کے ساتھ اس کا نام آتا ہے
یہ درد کیا شبِ فرقت میں کام آتا ہے

جلو میں پیرمغاں اہتمام میں ساقی
یہ آمد آمد جم ہے کہ جام آتا ہے

اب ارتباط فقط رہ گیا ہے یہ ان کا
کہ خط میں غیر کے لکھ کر سلام آتا ہے

ملے جو دل تو یہ کہنا کہ اپنی منزل پر
سحر کا بھولا ہوا وقت ِ شام آتا ہے

کیا یہ کام در اندازیوں نے غیروں کی
وہاں سے خط نہ زبانی پیام آتا ہے

بصدق پیر مغاں کو دعائیں دے اے شادؔ
وہ دیکھ جام علیہ السلام آتا ہے

(4)

کہیں سے جب صدائے نالہ و فریاد آتی ہے
تڑپ جاتا ہے دل اپنی مصیبت یاد آتی ہے

کیا ہے روز محشر اس نے وعدہ بے نقابی کا
قضا تیری بھی لے اے چرخ بے بنیاد آتی ہے

بتو حق حق کہو تم چھپانے کی ضرورت کیا
وفا بھی جانتے ہو، یا فقط بیداد آتی ہے

اُسے بھی آزمایا عمر بھر اور بے اثر پایا
ہمیںلے دے کے اے غم خوار اک فریاد آتی ہے

بہت دشوار ہے جلد اس تعلق کو مٹا دینا
قفس میں بوئے گل کوسوں سے اے صیاد آتی ہے

ارسطو ساملے کامل تو اس سے پوچھے چل کر
حسد کھودے کوئی ایسا دوا اُستاد آتی ہے

بہار آئے نہ آئے پوچھ رکھ لینا تو واجب ہے
بتا بیٹری پہنانی بھی تجھے حدّاد آتی ہے

جفا آمیز ادائیں یاد ہیں گر تیری آنکھوں کو
مجھے بھی آہ کرنی اے ستم ایجاد آتی ہے

تعجب کچھ نہ سمجھو در تلک گر آکے پہنچے ہو
نہ گھبراؤ کوئی دم میں قضا اے شادؔ آتی ہے

(5)

بھولے بھٹکے جو صبا تا قفس آجاتی ہے
پر نہیں، باغ کی لیکن ہوس آجا تی ہے

کارواں چھوٹ گیا، ہو گئی مدت لیکن
اب بھی کانوں میں صدائے جرس آجاتی ہے

سونگھ لیتا ہوں، نظر پڑتی ہے جب پھولوں پر
بوئے ہمدردیٔ فریاد رس آجاتی ہے

گو کہ چھوٹے ہوئے مدت ہوئی تو بھی صیّاد
دل میں سَوْ مرتبہ یاد قفس آجاتی ہے

لب پہ بیمار محبت کے اگر دیر تلک
کان رکھئے تو صدائے نفس آجاتی ہے

مے سے توبہ کئے مدت ہوئی لیکن اے شادؔ
دیکھ لیتا ہوں تو اب بھی ہوس آجاتی ہے

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!