کلام فانی کی ابتدائی دس غزلیں

(1)

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسیٰ کو ہو نویدکی بیمار مر گیا

آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیرانِ زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اُتر گیا

دنیا میں حال آمد و رفتِ بشر نہ پوچھ
بے اختیار آکے رہا بے خبر گیا

شاید کی شامِ ہجرا ں کے مارے بھی جی آٹھے
صبح بہار حشر کا چہرہ اُتر گیا

آیا تو دل گیا کوئی پوچھے تو کیا کہوں
یہ جانتا ہوں دل اِدھر آیا اُدھر گیا

میں نے دیا کہ تم نے لیا دل تمھیں کہو
تم دل میں پہلے آئے کہ دل پیشتر گیا

ہاں سچ تو ہے شکایتِ زخمِ جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا

دل کا علاج کیجئے اب یا نہ کیجئے
اپنا جو کام تھا وہ غمِ یار کر گیا

کیا کہئے اپنی گرم رو یہائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مرا راہبر گیا

فانیؔ کی ذات سے غمِ ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفترِ غم کا بکھر گیا

(2)

حاصلِ علم بشر جہل کا عرفا ں ہونا
عمر بھر عقل سے سیکھا کئے ناداں ہونا

چار زنجیر عناصر پہ ہے زنداں موقوف
وحشتِ عشق ذرا سلسلۂ جیناں ہونا

دِل بس اِک لرزشِ پیہم ہے سراپا یعنی
تیرے آئینہ کو آتا نہیں حیراں ہونا

فال افزونی مشکل ہے ہر آسانی کار
میری مشکل کو مُبارک نہیں آساں ہونا

راحت انجام ِ غم اور راحت ِ دنیا معلوم
لکھ دیا دل کے مقدر میں پریشاں ہو نا

دے تِرا حُسن تغافل جِسے جو چاہے فریب
ورنہ تو اور جفائوں پہ پشیماں ہونا

ہائے وہ جلوۂ ایمن وہ نگاہِ سرِ طور
فتنہ ساماں سے تِرافتنۂ ساماں ہونا

خاک فانیؔ کی قسم ہے تجھے اے دشت جنوں
کِس سے سیکھا ترے ذرّوں نے بیاباں ہونا

(3)

خوشی سے رنج کابدلہ یہاں نہیں ملتا
وہ مل گئے تو مجھے آسماں نہیں ملتا

ہزار ڈھونڈئیے ا س کا نشاں نہیں ملتا
جبیں ملے تو آستاں نہیں ملتا

مجازاور حقیقت کچھ اور ہے یعنی
تری نگاہ سے تیرا بیاں نہیں ملتا

بھڑک کے شعلۂ گل تو ہی اب لگا دے آگ
کہ بجلیوںکا مِرا آشیاں نہیں ملتا

وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنجِ زیست نہیں
مجھے یہ غم کہ غمِ جاوداں نہیں ملتا

تری تلاش کافی الجملہ ماحصل یہ ہے
کہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا

بتا اب اے جرسِ دور میں کدھر جاؤں
نشان گردِ رہِ کارواں نہیں ملتا

مجھے بُلا کے یہاں آکے چھُپ گیا کوئی
وہ مہماں ہوں جِسے میزباں نہیں ملتا

تجھے خبر ہے ترے تیربے پناہ کی خیز
بہت دنوں سے دلِ ناتواں نہیں ملتا

کسی نے تجھ کو نہ جانا مگر یہ کم جانا
یہ راز ہے کہ کوئی رازداں نہیں ملتا

مجھے عزیز سہی قدرِ دل تمہیں کیوں ہو
کمی تو دل کی نہیں دل کہاں نہیں ملتا

دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا

(4)

فغاں کے پردے میں سُن میری داستاں صیّاد
کہ پھر رہے نہ رہے طاقتِ بیاں صیاد

ترا اشارہ ترا ساز برق سے نہ سہی
تجھے خبر ہے کہ جلتا ہے آشیاں صیاد

نہ آقریب کی پروردۂ فنا ہوں میں
بنا ہے برق کے تنکو ں سے آشیاں صیاد

بس ایک آہ جہاں سوز کے اثر تک ہیں
یہ خار برق قفس دام آسماں صیاد

نکل ہی جائیں گے نالے دہن سے خوں ہو کر
زباں نہیں تو کھلے گی رگِ زباں صیاد

ستم رسیدۂ آوازۂ بیاں ہوں میں
قفس میں کھینچ کے لائی مری زبان صیاد

چمن میں دل ہے تو میری نگاہ میں ہے چمن
چمن سے تو مجھے لے جائے گا کہاں صیاد

یہ جذبِ ذوق اسیری ہے ورنہ اے فانیؔ
کہاں میں سوختہ دل مست پر کہاں صیاد

(5)

کیا کہئے کہ بیداد ہے تیری بیداد
طوفانِ محبت کی زد میں فریاد

دل محشرِ بے خودی ہے اللہ اللہ
یاد اور کسی کی بھول جانے والے کی یاد

پابندی رسم بر طرف کیوں اے موت
ان کے بھی کئے ہیں تو نے قیدی آزاد

اللہ یہ بجلیاںنہ کام آئیں گی
آندھی ہی ہے کیوں ہو آشیاں نہ برباد

دنیا جسے کہتی ہے زمانہ فانیؔ
ہے ایک طلسم اجتماعِ اضداد

(6)

اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
اللہ رے تری یاد کہ کچھ یاد نہیں ہے

آتی ہے صبا سُوے لحد ان کی گلی سے
شاید مری مٹی ابھی برباد نہیں ہے

اللہ بچائے اثرِ ضبط سے ان کو
بیداد تو ہے شکوۂ بیداد نہیں ہے

آمادۂ فریاد رسی ہے وہ ستم گر
فریاد کی اب طاقتِ فریاد نہیں ہے

دنیا میں دیارِ دل فانیؔ کے سواہائے
کوئی بھی وہ بستی ہے جو آباد نہیں ہے

(7)

دل چرا کر نگاہ ہے خاموش
ہوش اور مست ہو کے اتنا ہوش

مست کو چاہئے بلا کا ہوش
خم دیئے اور دیا نہ اذن خروش

ہر مسافر سے پوچھ لیتا ہوں
خانہ برباد ہوں کہ خانہ بدوش

ہوسِ جلوہ اور نظر! غافل
کہ نظر ہے صلائے جلوۂ فروش

شاید اب منزل عدم ہے قریب
یاد خاکِ وطن ہے طوفاں جوش

فضل تیراشفیع طاعت و زہد
عدل عاصی نواز عصیاں پوش

ہجر نے کی مفارقت فانیؔ
لے مبارک ہو موت کا آغوش

(8)

میں ہوں اِک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
دل اگر عالمِ ہستی ہے تو سر عالم ہوش

عدم ہوش پہ ہے فطرت ہستی مائل
کس تو قع پہ اٹھائے کوئی نازِ غم ہوش

بیخودی مایۂ عرفان خودی ہے یعنی
محرمِ جلوۂ اسرار ہے نامحرمِ ہوش

کچھ نہ وحدت ہے نہ کثرت نہ حقیقت نہ مجاز
یہ ترا عالمِ ہستی وہ ترا عالم ہوش

مظہر ہستی وخلاق عدم ہے میری ذات
کچھ نہ تھا ورنہ بجز سلسلۂ برہم ہوش

عجب اک سانحۂ ہوش ربا تھی وہ نگاہ
میں ہوں اک عمر سے فانیؔ ہمہ تن ماتم ہوش

(9)

کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے
آسماں پر اکھڑے جاتے ہیں قدم تاثیر کے

بے مروت بن کے اب کیا سوئے صحرا جائیے
لوٹتے ہیں پانوں پر حلقے مری زنجیر کے

ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی
آہ گھبرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کے

وصل سے محروم میں ہوں ورنہ گستاخی معاف
بوسے لیتا ہے تصور آپ کی تصویر

مجھ کو مضطر دیکھ کر کہتا ہے قاتل پیارسے
آاِدھر سایہ میں سو جا دامنِ شمشیر کے

ساتھ جائے گا مری میّت کے سامانِ خلش
دل میں رکھ چھوڑے ہیں پیکاں میں نے تیرے تیر کے

میرے مرتے ہی دلِ بیتاب کو چین آگیا
زندگی صدقے میں اتری گردشِ تقدیر کے

سعی درماں بے اثر فکر دوا بے فائدہ
زخم دل اے چارہ گر قائل نہیں تدبیر کے

یاس کے آتے ہی ارماں دل یہ کہہ کر چلے
ہم نہیں ساتھی تری بگڑی ہوئی تقدیر کے

دیکھئے کیا ہو وہ اور آزردگئی بے سبب
ہم خطا نا کردہ خوگر عذرِ بے تقصیر کے

دیکھ فانی ؔ وہ تری تدبیر کی میت نہ ہو
اِک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے

(10)

برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
ٹوٹا ہے میری عہدمیں نیرنگ نظام عیش

اب احتیاج شکوۂ اختر نہیں مجھے
مینائے خون عیش سے بھرتا ہوں جامِ عیش

گلشن صلائے عام اسیری ہے سر بسر
پھیلا دیا بہار نے پھولوں پہ دام عیش

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!