دیوا ن غالبؔ: ردیف ’ن‘ کی غزلیں

(1)

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغی بھی نہ رہا
شورِ سدائے خط و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں

ایسا آسان نہیں لہو رونا
دل میں طاقت ، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا ’’قمار خانۂ عشق‘‘
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

(2)

کہ وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

دل میں آجائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں

اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ، جو ہَوا کہتے ہیں

دیکھے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خدا کہتے ہیں

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں

(3)

آبرو کیا خاک اس گل کی ، کہ گلشن میں نہیں
لے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں

ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا ، جو خوں کہ دامن میں نہیں

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

کیا کہوں تاریکیٔ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کی روزن میں نہیں

رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخمِ سوزن میں نہیں

بس کہ ہیں ہم اک بہارِ نازکے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں

قطرہ قطرہ اک ہیولی ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوق درد سے ، فارغ مرے تن نہیں

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ ، مینا کی گردن میں نہیں

ہو فشارِ ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود؟
قدکے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

تھی وطن میںشان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

(4)

عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آسکا
گراک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیںچشم بائی کشادہ بسوئے دل
پر تارِ زلف کو نگہِ سرمہ سا کہوں

میں ، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدانہ کردہ، تجھے بے وفاکہوں

(5)

مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

(6)

ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر غذرِ مستی ایک دن

غرۂ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانئے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن

دھول دھَپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!