اصغر ؔحسین گونڈوی
(رومانی و صوفی شاعر)

 

٭ نام : اصغر حسین ( گونڈوی )
٭ تخلص : اصغرؔ
٭ والد : منشی تفضل حسین
٭ ولادت : یکم مارچ 1884ء( گونڈا،یوپی)
٭ وفات : 30؍نومبر 1936ء الہ آباد

اصغرؔ گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ اصغرؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کے والد گورکھپور کے ضلع میں رہتے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں مستقل طور پر گونڈہ میں مقیم ہوچکے تھے۔ گونڈہ میں مستقل قیام کے باعث گونڈوی کہلانے لگے۔ اصغرؔ گونڈوی کے والد منشی تفضل حسین گونڈہ میں بطور قانون دان کام کرتے رہے۔اصغرؔ گونڈوی کی ابتدائی تعلیم وتربیت گھر پر ہی ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طورپر کہیں تعلیم حاصل نہیں کی۔ کچھ عرصے کے لیے ایک انگریزی اسکول میں انھوں نے وقت گذارا اور پڑھ کر چھوڑ دیا۔ انھیں فطری طورپر علم و ادب اور مطالعے کا خاصا شوق تھا۔ اس طرح انھوں نے اپنی ذاتی کوششوں اور مطالعے ہی کی بدولت اچھی خاصی استعدادِ علمی حاصل کرلی تھی۔ اصغر گونڈوی کے مطالعے نے ان کے اندر بڑی روشنی پیدا کر دی تھی، اس کے تحت انھوں نے شعرو شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ شروع میں اپنی غزلوں پرمنشی جلیل اللہ وجد بلگرامی، امیرمینائی اور تسلیم لکھنوی سے اصلاح لی۔بہر صورت جب ان کی طبع میں توازن اور روانی پیدا ہو گئی تو اصلاح سے بے نیاز ہوگئے۔ حصول معاش کے سلسلے میں کچھ عرصہ ادبی مرکز، لاہور سے وابستہ رہے۔ کچھ عرصہ انڈین پریس الہ آباد میں رسالہ ’’ہندوستانی ‘‘ کے مدیر رہے۔ چشموں کا کاروبار بھی کیا۔

تغزل میں تصوف کو سمو کر اپنا ایک منفرد رنگ پیدا کرنے والے اُردو کے معروف شاعر اصغر گونڈوی کا نومبر 1936ء میں انتقال ہو گیاتھا۔ رحلت کے وقت ان کی عمر صرف 52؍ برس تھی لیکن اس قلیل مدت میں بھی انہوں نے اردو غزل کو ایک نئی پہچان عطا کی جس کی وجہ سے وہ اردو کی رہتی دنیا میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

اصغر گونڈوی کے کلام کے دو مجموعے ’’نشاط روح‘‘ اور’’ سرورِ زندگی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ہر چند کہ اصغر کو لمبی زندگی نہیں مل سکی لیکن انہوں نے زندگی کے ہر پل میں جینے کی کامیاب کوشش کی۔ان کے عہد نے انہیں کتنی شدت سے محسوس کیا اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کو ان کی شاعری پسند تھی اوروہ ان کے کلام کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغرگونڈوی نہایت نفاست پسند ، خلیق اور وسیع المشرب شخص تھے۔ اصغرکا کلام کم لیکن بہتر انتخاب ہے۔ ان پر فالج کا اثر ہوا اور وہ 30؍نومبر 1936 میں اردو دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔جسد خاکی الہ آباد میں حضرت شیخ محب اللہ کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ اصغر کے یہ اشعار آج بھی زبان زد عام ہیں ؎

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی، دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے

سنتا ہوں بڑے غور سے افسانہ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے

شعری مجموعے

(۱) نشاط روح 1925ء

(۲) سرِورزندگی 1935ء

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!